استاد کی عظمت

سال 2018 ء رخصت ہوگیا۔ ملک میں سیاسی تبدیلی رونما ہوئی ۔ جولائی کے انتخابات میں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں سے اقتدار پاکستان تحریک انصاف کی جھولی میں آگراجس کا موٹو ’’ نیا پاکستان ‘‘ اور ’’تبدیلی ‘‘ ہے۔ اگر چہ انہوں نے قوم کو سو دن کا پلان دیا تھا لیکن تاحال نیا پاکستان اور تبدیلی خال خال نظر آرہی ہے۔ ہمیں موجودہ حکومت کی نیت پر شک نہیں ہے کیوں کہساری قوم نئے پاکستان اور تبدیلی کی خواہاں ہیں اور انہوں نے اسی نظریے اور بنیاد پر ووٹ دیئے ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کو علم کے نور سے منور کریں اور اس کام کا بیڑا اُٹھانے والے استاد کی عظمت کے گراف کو بلند کریں۔ جب ہم دیگر اقوام کی ترقیوں کی باتیں کرتے ہیں تو ہم بلا چوں و چرا اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اُن معاشروں میں استاد کی عظمت پر سمجھوتہ نہیں کیا جاتا ہے اور اُن معاشروں میں اساتذہ کو ہتھکڑیاں ڈال کر عدالتوں میں نہیں گھسیٹا جاتا ہے بلکہ وہاں توجج سمیت تما لوگ ’ ٹیچر اِن دی کورٹ ‘ کہہ کر کھڑے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے آج علم کی دولت سے مالا مال ہیں اور وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھ چکے ہیں۔ استاد کی عظمت کے حوالے سے تنظیم اساتذہ پاکستان اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہے ۔ اساتذہ کے مسائل سے لے کر اُن کی تربیت تک ، تمام پہلوؤں سے متعلق سیمینار ز، ورکشاپوں اور مشاعروں کا اہتمام کرتی چلی آرہی ہے۔ بیتے برس میں تنظیم اساتذہ پاکستان صوبہ خیبر پختون خوا نے استاد کے عزت و احترام کے حوالے سے تمام اضلاع میں مشاعروں کا اہتمام کیا اور شعراء حضرات کے کلام کو کتابی شکل میں شائع کیا۔ رواں برس ، یعنی 2019 ء کے لئے بھی انہوں نے ’’ استاد کی عظمت ‘‘ کے عنوان سے مشاعروں کا روڈ میپ تشکیل دیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدائی اینٹ تنظیم اساتذہ پاکستان ضلع بنوں نے اکتیس دسمبر کو مشاعرہ منعقد کرکے رکھ دی ہے جس میں کثیر تعداد میں سکولوں ا ور کالجوں کے اساتذہ نے شرکت کی ۔ تقریب کے مہمان خصوصی سابق سینیٹر پروفیسر محمد ابراہیم تھے جب کہ روح رواں تنظیم اساتذہ پاکستان کے صوبائی صدر خیر اﷲ حواری تھے۔ اس کے علاوہ شمالی وزیرستان( میرعلی اور میران شاہ جو کہ اَب ضلع بنوں میں ضم شدہ اضلاع ہیں )، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل سے تعلق رکھنے والے وفود نے بھی اپنی شرکت سے تقریب کو چار چاند لگائے۔ پروفیسر محمد ابراہیم نے اپنے مختصر لیکن مدلل خطاب میں استاد کی عظمت کو قرآن و سنت کی روشنی میں اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ بے شک معلمی ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے اور پہلے معلم اﷲ تعالیٰ کی ذات خود ہے۔ جیسا کہ فرمان ایزدی ہے ۔ ’’ رحمن نے قرآن سکھایا ۔ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا ‘‘( سورۃ الرحمن )۔جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشاد ہوتا ہے ۔ ’’ اور اﷲ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ فرشتوں نے کہا ، اے اﷲ ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے، پورے علم و حکمت والا تو تُو ہی ہے ‘‘۔ انہوں نے مزید فرمایا کہ آپ ﷺ پوری انسانیت کے لئے ایک عظیم اور مثالی معلم بن کر تشریف لائے تھے جن کی تعلیم و تربیت نے محض تیئس سال کی قلیل مدت میں نہ صرف پورے جزیرہ عرب کی کایا پلٹ کر رکھ دی بلکہ رہتی دنیا تک کے لئے وہ اَبدی قندیلیں روشن کردیں جو انسانیت کو علم و حکمت ، تہذیب و شائستگی ، عدل و انصاف ، امن و آشتی اور سکون و اطمینان کی راہ دکھاتی رہیں گی۔ خیراﷲ حواری نے معاشرے کی تعمیر و ترقی کو استاد کی عظمت سے مشروط کرتے ہوئے فرمایا کہ جنرل ضیاء الحق ( مرحوم ) اپنے وفد کے ہمراہ جاپان کے دورے پر گئے۔ وہاں راجہ ظفرالحق نے اپنے میزبان وزیر سے جاپان کی ترقی کا راز پوچھا۔ میزبان نے کہا کہ صبح ناشتے کی میز پر اس کا جواب دوں گا۔ کہتے ہیں کہ جب صبح ناشتہ لگا تو میزبان نے ناشتے کی میز پر موجود لوگوں سے تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے استاد ہیں جن کی بدولت آج ہم ترقی میں بام عروج کو پہنچ چکے ہیں۔

اس مشاعرے میں راقم الحروف کو بھیمدعو کیا گیا تھا۔ آغاز سے اختتام تک میرے ذہن میں حبیب جالبؔ (مرحوم ) کا یہ شعر’’مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اُجالا‘‘ گردش کرتا رہا۔ اگرچہ انہوں نے یہ اشعار کسی اور مناسبت سے کہے تھے لیکن اس کی پہلی سطر سے معلم کا نورانی رنگ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ میری نظر میں ’’استاد کی عظمت ‘‘ کے حوالے سے یہ مشاعرہ نئے سال کا بہترین تحفہ تھا۔ تقریباً تیس شعراء جن کا تعلق ضلع بنوں ، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان سے تھا ،نے اپنا منظوم کلام پیش کیا۔ بلا شبہ استاد ایک ہمہ گیر شخصیت کا نام ہے جو کہ ایک دانش ور ، فلاسفر ، محقق، منصرم ، رہنما ، قائد اور روحانی باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی ہوتا ہے۔ اساتذہ کے لئے لکھے گئے میرے چند اشعار بعنوان ’’ وہ ایک استاد تھا ‘‘ پیشِ خدمت ہیں۔
میری زندگی اک عبارت تھی
وہ اس کا سرِ آغاز تھا، وہ ایک استاد تھا
میری زندگی اک تپتی دھوپ تھی
وہ اس کا سحاب تھا ، وہ ایک استاد تھا
میری زندگی اک خالی کتاب تھی
وہ اس کا بیاض تھا ، وہ ایک استاد تھا
میری زندگی اک گونگی بہری تھی
وہ اس کا سحرِ بیان تھا، وہ ایک استاد تھا
میری زندگی اک راہ رو تھی
وہ اس کا رہنما تھا ، وہ ایک استاد تھا
میری زندگی اک ٹھہراؤ تھی
وہ اس کا استیعاب تھا، وہ ایک استاد تھا
میری زندگی اک عبارت تھی
وہ اس کا سرِ آغاز تھا، وہ ایک استاد تھا
(تحریر : پروفیسر شوکت اﷲ )

 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 265631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.