ساس بہو ہوں سہیلیوں کی طرح

زندگی گلزار ہے

*اے کاش ساس بہو ہوں* *سہیلیوں کی طرح*
*کہ انکا جھگڑا گھر گھر دکھائی دیتا ہے*

ہمارے یہاں شادیاں تو بڑے دھوم دھام سے کی جاتی ہیں۔ طرح طرح کی رسمیں بھی نبھاۂی جاتی ہیں ۔گھر بھر میں ہفتوں ایک ہنگامہ سا بپا رہتا ہے۔ جوکہ ولیمہ کے بعد تک جاری رہتا ہے ۔پھر اس کے بعد جب آہستہ آہستہ گرد بیٹھتی ہے اور زندگی معمول پر آنے لگتی ہے تو بہت سیے نئے مشاہدات ظہور پذیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔زندگی ایک نیا اسلوب دھارنے لگتی ہے۔زندگی کے اس نئے موڑ سے انسانی رویوں اور رشتوں کی آزمائش کا آغاز ہوتا ہے۔

گھر میں اگر بڑے بیٹے کی شادی ہوئی ہو تو یہ نیا تجربہ پوری فیملی کے لیے بڑا انوکھا اور نرالا ہوتا ہے۔کم از کم پچیس سالوں کے وقفہ کے بعد آپکی فیملی میں ایک نئے فرد کا اضافہ ہوا ہے۔وہ بھی ایک جیتا جاگتا عاقل بالغ باشعور فرد جوکہ کل تک مہمان ہوا کرتا ہوگا آج میزبان بن چکا ہے ایسا فرد جو کہیں اور پروان چڑھا جو ایک مختلف ذہنی و قلبی ماہیت کا حامل ہے۔اس کو آپ کے سانچے میں ڈھلنا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔یہ نظام قدرت کی انوکھی ترکیب گھر کا ہر فرد محسوس کر رہا ہوتا ہے اور اس پر اپنے اپنے انداز سے ری ایکٹ بھی کرتا ہے۔لڑکے کے والد بھائی بہن سب آہستہ آہستہ اپنی اپنی زندگی میں مگن ہوجاتے ہیں۔مگر لڑکے کی والدہ یعنی بہو کی ساس اس پر گہری نظر رکھی ہوتی ہے ۔ساس اور بہو کا چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ دونوں کا ایک ہی میدان کار ہے یعنی امور خانہ داری۔دونوں ایک دوسرے کی رفیق بنتی ہیں یا رقیب حلیف بنتی ہیں یا حریف اس کا دارومدار انکی ذہنی اور قلبی ساخت اور خاندانی پس منظر پر منحصر ہے۔ ساس کو حال اور مستتقبل کے حوالے سے بہت سے اندیشے اور تفکرات دامن گیر ہوتے ہیں اور اس کے یہ تفکرات کچھ بیجا بھی نہیں ہوتے۔آخر کو اس نے اپنے خون جگر سے ننھے غنچوں کو سینچا اور اپنے لہو سے اس گلشن کی آبیاری کی ہوتی ہے ۔بڑی جانفشانی سے اسے پروان چڑھایا ہوتا ہے۔یہ اس کی آرزووں کا مسکن ہے۔ اس کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ اس کی آنے والی بہو اس گلش کی نگہداشت میں اس کا دست و بازو بنے او ر یہ گلشن سدا یوں ہی مہکتا رہے شاد رہے آباد رہے۔ ساس چونکہ طویل عرصے سے بلا شرکت غیرے گھریلو ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی ہے جیتے جی ذمہ داریوں کی منتقلی قدرے دشوار مرحلہ ہے اس میں جلدبازی کا عنصر مہلک ثابت ہوسکتا ہے ۔باہمی ایثار و قربانی اور عفو ودرگزر ہی رشتوں کو دوام بخشتا ہے ۔ ساس کا جذبہ ایثار بہو کو زندگی کی نئی سمت، جہت اور اعتماد عطا کرتا ہے کہ وہ خاندان کے مستتقبل کو محفوظ بنیادوں پر استوار کرسکے ۔

ساس اور بہو کے عناصر ترکیبی ایک دوسرے میں جذب ہوکر ایک نئی وحدت کو جنم دیتے ہیں۔

ماں باپ بہن بھائی بیٹے بیٹی کی طرح بہو بھی ایک آفاقی رشتہ کا نام ہے ۔بہو، بیٹی اور بیٹے کا کمبینیش ہے۔ وہ یوں کہ وہ بھی کسی کی بیٹی ہوتی ہے اور چونکہ آپ کے بیٹے سے وابستہ ہوتی ہے ، اس لئے اس کے جذبات اور احساسات کی عکاس ہوتی ہے ، لہذا اسی کی مانند آپ کی محبت اور الفت کی بھی حقدار ٹھرتی ہے۔

بہو اور بیٹی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا سییب اور ناشپاتی میں ۔دیکھنے میں تقریبا ایک جیسے مگر زائقے جدا جدا ۔رویے اور انداز الگ الگ۔کردار تقریبا ایک سا ہی ہوتا ہے۔دونوں اپنے اپنے محور میں گردش عمل میں مصروف کار۔۔ساس اور بہو کا رشتہ بڑا کھٹا میٹھا سا ہوتا ہے۔اچھی ساس ایک مشفق استاد اور راہبر کی طرح ہوتی ہے۔شاگرد اگر لائق ہو تو نہ صرف اپنا مستقل سنوار لیتا ہے بلکہ استاد کا سر بھی فخر سے بلند کردیتا ہے۔بہو اگر ساس کے ان جذبات اور احساسات کو سمجھ لے اور ان کی ناتمام آرزووں کی تکمیل کو اپنا مطمع نطر بنا لے تو ساس بہو کا جھگڑا ہی ختم ہوجاے۔

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 55270 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.