پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ یہاں قومی مفادات علاقائی
عصبیتوں میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ صوبائیت کے باعث ڈیموں کی تعمیر پر بھی
اتفاق رائے پیدا نہ کیا جاسکا یہی معاملہ ملک میں موجود افغان مہاجرین کا
ہے جو گزشتہ چار عشروں سے یہاں مقیم ہیں۔
دہشت گردی کی ہرواردات کے بعد پولیس اور حساس اداروں کی طرف سے کارروائی کی
جاتی ہے۔ چند دن کی گرفتاریوں اورشور شرابے کے بعد سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ جاتی
ہیں ان وارداتوں میں دہشت گردوں یا سہولت کاروں کی اکثریت افغانوں پر مشتمل
ہوتی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ80ء کی دہائی سے لے کر آج تک کسی حکومت
نے ان کے بارے میں ٹھوس پالیسی نہیں بنائی کہ انہیں انکے وطن واپس بھیجا
جائے۔ ا ور اس پرمستزاد یہ کہ انہیں پورے ملک میں گھومنے اور کاروبار کرنے
کی مکمل آزادی دے دی گئی اور آج یہ عالم ہے کہ ملک کے تمام بڑے شہروںکی
اہم ترین مارکیٹوں پران کا قبضہ ہے۔
آج قبضہ مافیا کی صورت میںافغانی ہر جگہ موجود ہیں۔لڑائی کی صورت میں اگر
افغانیوں کے ہاتھوںکوئی قتل ہو جائے تو وہ فوراً علاقہ چھوڑ دیتے ہیں ،نہ
مقدمہ درج ہوتا ہے نہ گرفتاریاں اور نہ ہی عدالتوں میں کیس جاتا ہے۔
پاکستانی کے ہاتھوں قتل ہونے کی صورت میںاس پر فوراً قانون لاگو ہوتاہے۔
دہشت گردی کی وارداتوں کے بعد کچھ عرصہ فارن ایکٹ کے تحت پورے ملک سے
گرفتاریاںبھی ہوئیں لیکن واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں چھوڑ دیا
گیااور گرفتار افراددوبارہ آ کرکاروبار کرنے لگے۔یہ چندگرفتاریاں بیماری
کا وقتی علاج تو ہو سکتا ہے لیکن بچائو ہر گز نہیں۔ اگر گندے پانی کے جوہڑ
کی وجہ سے کوئی علاقہ بیماریوں کا گڑھ بن جائے تومریضوں کو دوا دینے سے
مسئلہ حل نہیں ہوگابلکہ اس جوہڑکو ختم کرنا پڑے گا ۔پاکستان کی سماجی و
معاشی صحتمندی بھی افغانوں کے سو فیصد انخلاء پر منحصر ہے۔
آج کی مہذب دنیا میںافغانستان واحد ملک ہے جہاں سرکاری سرپرستی میں منشیات
کی کاشت کی اجازت ہے۔ قریبی ہمسایہ ہونے کی وجہ سے اس کا آسان ہدف بھی
پاکستان ہے۔ ہمارے نوجوان افغان جنگ سے لے کر آج تک ہیروئن اوردیگر منشیات
کا شکار ہیں۔80ء کی دہائی میں افغانی گدھوں پر منشیات لاد کر لاتے تھے۔ آج
وہ مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ منشیات کا میکنزم پاکستان میںپھیلانے
میں بھی افغان مہاجرین کا گھنائونا کر دار ہے۔پاک فوج نے اس حوالے سے مثالی
خدمات انجام دیں کہ نہ صرف دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر دیے بلکہ
افغانستان کی سرحدکوبھی سیل کر دیا تاکہ وطن عزیز دہشت گردی اورمنشیات کی
لعنت سے محفوظ رہ سکے۔
ایک پاکستانی کیلئے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات وہ ہوتی ہے کہ جب اچکزئی جیسے
لوگ پاک افغان سر حدوں کے خاتمے افغان مہاجرین کے مستقل قیام اور گریٹر
افغانستان کی بات کرتے ہیں۔اس پرو پیگنڈے کو بڑھاوا دینے میں افغان مہاجرین
پیش پیش ہیں۔ جو پاکستان پشتونوں کو اپنی قوم قرار دیتے ہیں کیونکہ اسی میں
ہی ان کی بقا ہے۔ ہمارے چند پشتون بھائی ان کے پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر ملکی
سا لمیت کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور انہوں نے ان افغانیوں کو پاکستانی
شناختی کارڈ بھی بنوا کر دیئے ہیں۔ ہمارے ان بھائیوں کو اس بات کا احساس
کرنا ہوگاکہ یہ لوگ 70 ہزار پاکستانیوں کے قاتل ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارے
نوجوان منشیات کی لعنت کا شکار ہیں۔
یو این ایچ سی آر کے سربراہ فیلیپو گرینڈی اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق
کی سربراہ مارک نے ماہرہ خان کے ہمراہ چند ماہ قبل پاکستان میںموجودہ افغان
کیمپوں کا دورہ کیا اس موقع پر فیلیپو گرینڈی نے کہا کہ عالمی برادری افغان
مہاجرین کی وطن واپسی کے حوالے سے تعاون کرے کیونکہ افغانستان کی مخدوش
صورتحال کی وجہ سے مہاجرین واپس جانے سے کتراتے ہیں۔لیکن اس دوران پاکستان
کے کسی اہم عہدیدار نے ان سے مل کر افغان مہاجرین کے پاکستان ہرپڑنے والے
معاشی و معاشرتی اثرات اور نقصانات کے بارے میں انہیں بریفنگ نہیں دی۔ اور
نہ ہی ان کی جلد واپسی پر زور دیا۔یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ ہم انہیں آگاہ
کرتے ہیں کہ افغان مہاجرین کی اکثریت کیمپوںمیں پناہ گزین نہیں بلکہ پورے
ملک میں پھیل چکی ہے اور انکی اکثریت پاکستان میں منفی سرگرمیوںمیںملوث ہے۔
پاکستان سے واپس بھجوائے جانے والے مہاجرین افغانستان کے حالات دیکھ کر جلد
ہی واپس آجاتے ہیںاور حکام کی طرف سے اس سلسلے میں بھی کوئی اقدامات نہیں
کئے گئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پولیس کاروائیوں کے نتیجے میں
افغانستان جانے والے پناہ گزیں واپس پاکستان آچکے ہیں۔
حکومت نے نیشنل ایکشن پلان میں بھی یہ شق رکھی تھی کہ افغان مہاجرین کو ان
کے وطن واپس بھیجا جائے گا لیکن کچھ افراد اور گروہوں کے مفادات کی وجہ سے
ہر مرتبہ ایک نئی تاریخ کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ یہ پودا گزشتہ چار
دہائیوں میں تناور درخت بن چکا ہے۔ ہر واردات کے بعد چند لوگوں کو گرفتار
کرنا چھوٹی چھوٹی شاخیں کاٹنے کے مترادف ہے بارود کا ڈھیر موجود ہے جب تک
یہ صاف نہیں ہوگا کسی وقت بھی آگ بھڑک سکتی ہے اور دہشت گردی کے بادل
چھائے رہیں گے میری حکومت اور ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ اس مسئلے کو
سنجیدگی سے لیں تمام افغان مہاجرین کو واپس بھیج کر قومی امور اور دہشت
گردی کے حوالے سے مشترکہ بیانیہ و ضع کریں تاکہ ہمارا ملک بھی ترقی اور امن
کی راہ پر چل سکے۔ |