کبھی آپ نے پودوں کے ساتھ گفتگو کی ہے ۔۔۔؟؟؟اب آپ کے ذہن
میں یہ سوال پیدا نہ ہو جائے کہ پودے اور باتیں۔۔۔؟؟؟جی ہاں پودے باتیں
کرتے ہیں۔۔۔ مگر شرط ہے کہ آپ کو درختون سے لگاؤ ہو، نہیں تو یقینا آپ کا
جواب نفی میں ہوگا ۔۔۔ درخت واقعی میں باتیں کرتے ہیں اور یہ حقیقت پر مبنی
ہے ۔ یہ بات میں اتنے بھروسے اور اعتماد سے اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ میرے
اپنے مشاہدے کی بات ہے ۔ میں روزانہ جب صبح دفتر آتا تو اِدھر مالی بابا کو
باتیں کرتے ہوئے دیکھتا تو مجھ کو حیرانگی بھی ہوتی اور پریشانی بھی کہ
کہیں ان کا کوئی دماغی مسلۂ تو نہیں جو کہ ہر وقت اپنے آپ سے باتیں کرتے
رہتے ہیں ۔ مگر میری یہ غلط فہمی ایک نہ ایک دن تو دور ہونی تھی ۔ ہو ا اس
طرح کے مالی بابا ایک دن دفتر اپنے بچے کی ملازمت کی درخواست لکھوانے آئے
میں نے تو پہلے چائے پلائی پھر ان کے بچے کے لیے درخواست لکھنا شروع کی مگر
اسی دوران میں نے نوٹ کیا کہ وہ ابھی خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھ سے رہا
نہ گیا میں نے ان کے بچے کی درخواست اور کاغذات کو درست کر کے لگاتے ہوئے
اُن سے پوچھا کہ چچا ایک بات آپ سے پوچھون اگر ناراض نہ ہوں تو۔۔ انھواں نے
بولا کہ ضرور پوچھو۔۔ میں نے ہمت باندھ کر پوچھاکہ چچا میں صبح جب آفس آتا
ہوں تو اکثر میں نے دیکھا ہے کہ آپ اپنے ساتھ ہی کچھ باتیں کر رہے ہوتے ہیں
خیر تو ہے ۔۔۔ وہ مسکرانے لگے اور بولے کہ بیٹا میری عمر 55 سے اوپر ہو گی
ہے اور تقریبا 35 سال سے بطور مالی کام کر رہا ہوں مگر میں نے اپنی ڈیوٹی
کو کبھی ڈیوٹی نہیں بلکہ فرض عین اور پھول پودوں کو اپنی اولاد سمجھتے ہوئے
اپنے فرائض کی سرانجامی دیتا رہا ہوں۔ اور معاشرے کی پریشانیوں سے تنگ آکر
جب میں سبزہ زار میں آتا ہوں اور اپنے ان بچوں (پودوں) کے ساتھ باتیں کرنا
شروع کر دیتے ہیں اور یقین مانو کہ وہ مجھ کو اپنا حال بتانا شروع کر دیتے
ہیں۔ ان کے ساتھ باتیں کرتے کرتے میں دنیا کی ساری پریشیانیوں سے چھٹکارا
پا لیتا ہوں۔ ۔۔ یہ ہی میری وفادار اولاد ہے اور میرے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔۔۔
پودے / پھول /درخت حقیتق میں باتیں کرتے ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ ہم نے
کبھی توجہ ہی نہیں دی ان کی طرف۔۔۔ توجہ دی ہے تو صرف درخت کاٹنے کی ۔ اکثر
نئی سڑکیں اور سوسائیٹی کے قیام کے دواران درختوں کا بے دریغ کٹاؤ اس طرح
کیا جاتا ہے کہ گویا آج ہی آج ہے کل نہیں ہو گا۔۔۔ جب کہ سوچ کی بات تو یہ
ہے کہ کل کو ہمارے آنے والی نسلوں کا کیا ہو گا۔۔۔اکثر ہمارے اندر جو سب سے
بڑی برائی پائی جاتی ہے کہ ہر بندہ بولتا ہے کہ میرے نہ کرنے سے یا کرنے سے
کیا ہونے والا ہے۔ جب کے درحقیقت بات اس کے برعکس ہے جب تک ہم میں سے ہر
بندہ کوشش نہیں کرے گا تو تب تک کچھ بھی ممکن نہیں اگر ہم ٹوٹل آبادی میں
سے آدھی آبادی کے اندر درخت لگانے کا شعور پیدا ہو جائے تو یقین مانیں کہ
صرف چند سالوں میں پاکستان کاہر شہر و دیہات سر سبز ہو جائے ۔ کبھی آپنے
غور کیا ہے کہ جب ہم چھوٹے تھے تو صبح کے وقت درخت پر بیٹھی فاختہ اور دیگر
پرندوں کے چہچانے کی آوازوں سے ہم جاگا کرتے تھے اور آج کل نہ وہ درخت رہے
اور نہ ان پر بیٹھے والے چرند پرند ۔۔۔آخر کدھر گیا وہ سب کچھ ۔۔۔ ہم نے
خود ہی تو تباہ نہیں کر دیا سب ماحول۔۔ وہ بہار کے موسم میں جب درختوں پر
پھول لگتے تو پورے علاقے کا نظارہ دیکھنے قابل ہوتا ۔۔ پورا علاقہ پھولوں
کی خوشبو سے مہک رہا ہوتا۔۔۔ وہ پھر درختوں پر لگے پھل ۔۔۔ پھر ان پھلوں کے
پکنے کا انتظار۔۔۔ پھر پکے پھل دوست احباب کے گھروں میں تحائف کی صورت میں
بھیجنے کے رسم و رواج۔۔ مگر افسوس گیا وہ وقت اور گئے وہ لوگ اور گئی ان کے
ساتھ وہ بہاریں۔۔۔ یہ قصور کسی کا نہیں ، یہ سب ہمارے اپنے ہاتھوں کا کیا
ہوا ہے ۔۔ ہم نے خود اپنے ماحول کو تبا ہ کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔ مصنوعی اشیاء،
مصنوعی ماحول اور مصنوعی آب و ہوا ہم خود ہی تو مہیا کر رہے ہیں اپنے آنے
والی نسلوں کو۔۔۔۔تو پھر کس طرح کچھ بدل سکتا ہے ۔۔۔ کس طرح ہماری نسلیں
سدھر سکتی ہیں۔۔۔میرے پاکستانیوں کوئی کام کسی کے کرنے کا ہوتا ہے تو کوئی
کسی کے کرنے کا مگر درخت لگانا ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے جناب یقین مانو
کہ آپ ایک درخت لگاؤ گئے تو ماحول خود بخود بدلے گا۔۔۔ خود بخود چرند پرند
وآپس ان لہلاتے ہوئے درختوں پر وآپس لوٹ آئیں گئے۔ خود تمہارے چہروں پر
مسکراہٹ لوٹ آئے گی۔۔ آپ اپنی طرف سے کوشش تو کریں اپنے گھر کے آنگن میں
ایک پودا لگائیں ۔۔ اپنی زمینوں میں لگائیں۔۔۔ افسوس حکومت جو درخت منظور
کرتی ہے یا لگواتی ہے ہم ان کی قدر اس لیے بھی نہیں کرتے کہ وہ ہماری جیب
سے نکلے ہوئے پیسے نہیں ہوتے ۔۔ حالانکہ وہ ہمارے پیسوں کے ہی ہوتے ہیں ۔۔۔
خدارا اپنی سوچ کو بدلیں ، خود کو بدلیں ۔۔۔اپنے لیے اپنی آنے والی نسلوں
کے لیے سوچیں ۔۔ اپنے ملکِ پاکستان کے لیے سوچیں ۔۔ آج بھی ہمارا ہے اور کل
بھی ہمارا ہے ۔۔۔ آؤ مل کر اس ملک کو سر سبز بنائیں ، خوبصورت بنائیں۔۔۔ |