نئے سال کی مبارک باد کے بیشمار پیغام موصول ہوئے ہیں۔ سب
بہتر اور سبق آموز پیغام بھائی محفوظ صاحب کا دوبئی سے موصول ہوا۔ (سال تو
بدلتے رہتے ہیں۔ خود کو بدلنا سیکھیں اور من چاہی سے رب چاہی پہ آ جائیں۔)
واقعتاً ہم سال کی تبدیلی کو ایک معمول کی تبدیلی سمجھتے ہیں اور وقت گزرنے
پہ جو تبدیلی ہمیں لانی چاہئیے اس طرف بالکل دھیان ہی نہیں ہے۔ رسماً
پیغامات ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں اور وصول کرتے ہیں۔ مقصد انسانی زندگی جس
کا متقاضی ہے اس طرف دھیان ہی نہیں ہے۔ کس نے پیدا کیا۔ کیوں پیدا کیا گیا۔
بعد از مرگ ہمیں واپس لوٹ کرپیدا کرنے والے کے پاس جانا ہے۔اور ہمیں چار
سوالات کا جواب دینا ہے۔ زندگی کیسے گزاری۔ جوانی کیسے گزاری۔ مال کیسے
کمایا اور کیسے خرچ کیا۔ ہر آدمی کو اس کا جوابدہ ہونا ہے۔ مختلف اخبارات
میں بیسیوں کالم نئے سال کے موضوع پہ پڑھے ہیں۔ کسی ایک کالم میں بھی تحریر
نہ تھا کہ زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے۔ من چاہی چھوڑ کر رب چاہی پہ آ
جاؤ۔ سال کا اختتام قربتِ موت کا پیغام ہے۔ وہی رسمی تبصرے اس سال حضرت
انسان نے فلاں فلاں تیر مارے ہیں اب آئیندہ سال یہ یہ کرنے کا پروگرام ہے۔
موت اور قبر کا تزکرہ کسی ایک کالم میں بھی نہ تھا۔
مسلمان بھی اپنی موت، قبر اور حشر کی جوابدہی سے غافل ہوچکا ہےاور پھر اس
قدر کہ اہلِ کفار کی طرح بس سال کی مبارک بادوں ہی میں مگن ہے۔ یاد ہی نہیں
کہ اللہ سبحانہ وتعالی ٰ نے دنیا میں کس مقصد کے لئیے ایک بہت ہی مختصر
عرصہ کے لئیے بھیجا ہے۔ سال کے اختتام پہ دوسروں کی طرح اٹھکیلیوں میں مد
ہوش ہے۔ جبکہ بقول شاعر
اک اور اینٹ گر گئی ہے دیوار حیات سے
نادان یہ کہہ رہے ہیں نیا سال مبارک
نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ سمجھ دار کون فرمایا جو آخرت کی فکر
کر لے۔ (مفہوم حدیث)۔ سال کے اختتام یا نئے سال کی ابتداءً پہ جس نے اپنے
آپ کو بدل لیا۔ من چاہی چھوڑ کر رب چاہی اختیار کر لی۔
نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق وہی سمجھدار ہے اور اس دنیا اور آخرت کی
کامیابی کا وعدہ بھی اسی کے ساتھ ہے۔ اب یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم نے
رب چاہی گزارنی ہے یا من چاہی۔ نبی اکرم ﷺ کے ذریعے ہمیں کامیابی راستہ بتا
دیا گیا ہے۔ سمجھدار اور خوش نصیب لوگ نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں زندگی گزار
کر دونوں جہاں کی کامیابیوں کے حقدار ہونگے۔ بے سمجھ اور کم عقل من چاہی
گزار کر ناکامی والے کے راہی بنیں گے۔ اللہ تعالی ٰ ہم سب کو کامیابی والے
راستے پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
جس نے جس طرح کے لوگوں کی مشابہت اختیار کی اسکا حشر ان لوگوں کے ساتھ
ہوگا۔ (مفہوم حدیث)
اور یہ بھی قرآن کا فیصلہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کونہیں بدلتا جب تک وہ
خود اپنے آپ کونہ بدلیں۔ (مفہوم سورتہ الرعد آیت ۱۱)
اسی کو علامہ اقبال ؒ نے نظم کیا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ جس کو خیال آپ ا پنی حالت کے بدلنے کا
اب یہ ہم پہ منحصر ہے کہ ہم نئے سال کی ابتدا میں اللہ کے حبیب ﷺ کے بتائے
ہوئے طریقہ پہ زندگی گزارنے کے لئیے اپنے آپ کو بدلتے ہیں یا نہیں۔ کامیابی
کا وعدہ تو رب چاہی گزارنے والوں کے ساتھ ہے۔
دسمبر ۲۰۱۸ میں ہمارے محلے کی ایک عورت بہت پریشان تھی کہ میری بچی کو سکول
میں شرک پڑھایا جا رہا ہے۔ آج میری بچی نے سکول سےآکر کہا ہے امی جان ہم نے
سینٹا کو خط لکھا ہے کہ ہمیں یہ یہ چاہئیے۔ اب سینٹا یہ سب کچھ بھیجے گا۔
میں تو ہر روز اپنی بیٹی کو پڑھاتی ہوں کہ بیٹا ہمیں سب کچھ اللہ سبحانہ
وتعالی ٰ دیتے ہیں۔اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئیے والدین کی پریشانی اور
تشویش ایک بہت مثبت فعل ہے مگر صرف پریشانی کافی نہیں ہے اس کے لئیے عملی
جدوجہد ضروری ہے۔ اللہ رب العزت کا احسان ہے کہ یہاں یو کے میں اسلامی سکول
موجود ہیں۔ اولاد کی تربیت کے لئیے مالی قربانی تو دینی ہوگی۔ اور یہ سودہ
مہنگا نہیں ہے کہ ہم مالی قربانی دیکر اپنے بچوں کو بے دینی کے ماحول سے
بچا لیں۔ ہمارے بچے ہی ہمارا سرمایۂ حیات ہیں۔ اور ہماراسب سے اعلی ٰ صدقہ
جاریہ۔ ہمیں کم از کم نئے سال میں اتنی تبدیلی تو ضرور کر لینی چاہئیے کہ
بچوں کو اسلامی سکول میں داخل کرا دیں۔ یہی نئے سال کا سب سے بہترین پیغام
ہے۔
آئیے نئے سال کی خوشی میں ہم رب چاہی گزارنے اور اولاد کی دینی تربیت کا
عہد کریں۔
|