پچھلے کچھ ہفتوں سے ذاتی مصروفیات کی وجہ سے راقم
پاکستان میں قیام پذیر ہے۔ اس دوران احباب ذی وقار کے خلوص و محبت کی بناء
پر علمی، ادبی اور سماجی سرگرمیاں بھی وقتا فوقتا جاری رہتی ہیں۔ اسی سلسلے
میں ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا ایجوکیشن سٹی یونیورسٹی (HITEC UNIVERSITY TAXILA)
کے خوبصورت آڈیٹوریم میں طلبہ کے مابین ایک تقریری مقابلے میں انتظامیہ کی
طرف سے خصوصی دعوت پر بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس مباحثے کا عنوان شورش
کاشمیری کی ایک نظم کے شعر ۔
اک نئے دور کی ترتیب کے ساماں ہوں گے
دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے
کا دوسرا مصرعہ "دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے" تھا۔ اسلام آباد،
راولپنڈی کے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات نے اس میں حصہ
لیا۔ وطن عزیز کے ان باصلاحیت سپوتوں نے اس موضوع پر مدلل اور فکر انگیز
تقاریر کیں ۔ وطن عزیز پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے مثبت تجاویز کے ساتھ
ساتھ ملکی خزانے لوٹنے والوں کی بھی خوب خبر لی۔ موضوع کی مناسبت سے طلبہ
کا نکتہ نظر یہ تھا کہ امیر امیر تر جبکہ غریب کسمپرسی کی زندگی گزار رہا
ہے۔ اللہ تعالی نے ہمارے وطن کو بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ہماری زمینیں
سونا اگل رہی ہیں۔ پاک سرزمین میں معدنیات اور قیمتی دھاتوں کے خزانے موجود
ہیں لیکن اس کے باوجود لاکھوں لوگوں کیلئے محنت مشقت کے باوجود جسم و جان
کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کا
جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس مباحثے میں یہ بات
بھی قابل ستائش تھی کہ طلبہ و طالبات نے ہر طرح کی سیاسی وابستگیوں سے قطع
نظر وطن عزیز کی تعمیر و ترقی اور مسائل کے حل سے متعلق غیر جانبدارانہ
اظہار خیال پر توجہ دی۔ ان کے پرجوش خطابات سے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ
ہمارے نوجوان کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں ٹیلینٹ کی بنیاد پر مواقع
فراہم کرنے کی بجائے رشوت اور سفارش کا سہارا لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول اکہتر سالوں سے ترقی کا لولی پاپ دے کر ہمیں فقط الجھایا گیا۔
لیکن اب بھی اگر حقیقی ترقی کے راستے نہ کھلے تو پھر وہ وقت دور نہیں کہ
دست جمہور شاہوں کے گریبان چاک کرے گا۔ اس فکر انگیز مباحثے میں راقم نے
بحیثیت مہمان خصوصی اپنی گفتگو میں طلبہ کے حب الوطنی کے جذبات کو خراج
تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ قوم
کا مستقبل انہی سے وابستہ ہے اور وہ اپنی انتھک محنت سے اقوام عالم میں
اپنی قوم کا سر اونچا کر سکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کسی بھی قوم کی باگ
دوڑ سنبھالتے ہیں ۔ ملک کے تعمیر و ترقی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ کسی بھی
معاشرے کا سب سے محنتی اور ان تھک طبقہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر یہی طلبہ سستی
اور کاہلی کے راستے پر چل نکلیں تو اس قوم کا نصیب زوال ہی ہوتا ہے۔
باصلاحیت مستقبل کے معماران وطن پر ہمیں فخر ہے۔ البتہ ہمیں یہ بھی ذہن
نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ تبدیلی صرف نعروں اور تقریروں سے نہیں بلکہ جہد
مسلسل اور عمل پیہم سے آئے گی۔ آپ اور ہم سب اس معاشرتی اجتماعیت کی ایک
ایک اکائی ہیں۔ ہم اپنی شخصیت کے خد و خال کا محاسبہ کر کے اصلاح احوال کی
طرف متوجہ ہوں۔ علاوہ ازیں ہمارا طبقاتی نظام تعلیم بھی ہمیں ایک قوم بنانے
کے رستے کی رکاوٹ ہے۔ مغربی معاشروں کی ترقی کا راز عمدہ نصاب تعلیم اور
نظام تعلیم میں مضمر ہے جبکہ ہمارے ہاں ریاستی سطح پر اس طرف توجہ ہی نہیں
دی جاتی۔ بر سر بازار تعلیم برائے فروخت ہے۔ والدین اپنی مالی استطاعت کے
مطابق اپنے بچوں کیلئے تعلیم خریدتے ہیں۔ اس طرح مختلف نظریات اور ذہنی سطح
کے افراد پر مشتمل معاشرہ حقیقی قومی یکجہتی میں رکاوٹ بن جاتاہے۔ ہمارا
دین اخلاقی اقدار پر بہت زور دیتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ
و سلم نے اپنی بعثت کا مقصد ہی اعلی اخلاق کی تکمیل کو قرار دیا جبکہ ہمارے
معاشرے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔ جھوٹ، بد دیانتی، ملاوٹ، حسد اور بد عہدی
کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ ہمیں دوسروں پر تنقید سے زیادہ اپنی اصلاح پر توجہ
مرکوز کرنی چاہیے تاکہ اپنے حصے کا دیا جلا کے اپنے فرض سے سبکدوش ہو سکیں۔
درسگاہوں میں ایسی صحتمند سرگرمیاں وقت کی ضرورت اور قابل ستائش ہیں۔
پاکستان ایک عظیم ملک ہے جسے قدرت نے ہر طرح کے وسائل سے نواز رکھا ہے۔
قائداعظمؒ نے نوجوانوں کے نام اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ’’آگے بڑھیے اور
بڑھتے ہی جائیے‘‘۔آپ بڑے ہو کر ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار
اداکرنے کا عزم کریں۔ طلبہ حصول علم پر توجہ مرکوز رکھیں، تعلیم سے ہی
قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ آپ بڑے ہو کر ملکی تعمیر و ترقی میں
اپنا بھرپور کردار اداکرنے کا عزم کریں۔اس موقع پر بحیثیت مہمان عطاء
الرحمن چوہدری، ڈائریکٹر فونڈرز ایجوکیشن سوسائٹی ٹیکسلا نے بھی طلبہ کی
حوصلہ افزائی کرتےہوئے کہا کہ ایسے موضوعات پر تقاریر اور مباحثے بہت اہمیت
کے حامل ہیں۔ طلبہ میں وطن سے پیار کا جذبہ ہونا بہت ضروری ہے تا کہ وہ ملک
و ملت کی تعمیر اورسربلندی کو اپنی زندگی کا مقصد اول بنائیں۔ پاکستان
بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اس کی آبادی کی اکثریت کا گزر اوقات زیادہ
تر ذراعت سے ہی وابستہ ہے ہمارے نوجوان پڑھ لکھ کر سرکاری نوکریوں کو ترجیح
دیتے ہیں اگر نوجوان جدید سائنسی بنیاد پر ذراعت کے لےے نئی ٹیکنالوجی کا
استعمال کریں تو اس سے نہ صرف ملکی پیداوار میں اضافہ ہو گا بلکے ذراعت میں
بھی ان پڑھ لوگوں کے بجائے پڑھے لکھے لوگ آئیں گے اس طرح طلبہ ملک کی
خوشحالی میں بھر پور کردار ادا کر سکیں گے۔وطن سے محبت اور اسلام سے
وابستگی پیدا کریں۔ تعلیم کو عام کرنے کی بھرپور کوشش کریں اور ملک کی یک
جہتی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو اپنے قوت بازو سے دبا دیں۔ |