سیمانچل مشرقی بہار کا ایک اہم خطہ ہے جہاں کشمیر کے
بعد ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلم آبادی ایک ساتھ ہے ۔ کشن گنج ،ارریا ،
کٹیہار ،سپول ،پورنیہ اور مدھے پورہ کے اضلاح کو سیمانچل کہاجاتاہے ۔کشن
گنج میں 85 فیصد مسلم آباد ی ہے ، ارریا میں 46 فیصد ، کٹیہار میں 66 فیصد
اور پورنیہ میں 40 فیصد مسلم آباد ی ہے ۔اس خطہ سے تعلق رکھنے والوں میں جن
شخصیات نے قومی سیاست اور سماج میں نمایاں کارنامہ انجام دیاہے ان میں
سرفہرست ارریا سے تعلق رکھنے والے الحاج محمد تسلیم الدین کا نام ہے ۔
الحاج محمد تسلیم زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن سیاست میں انہوں نے
نمایاں مقام پیداکیا ۔ 4؍جنوری 1943 میں ان کی ولادت ہوئی ۔18 سال کی عمر
میں پنچایتی الیکشن سے اپنے سیاسی کیریئر کی انہوں نے شروعات کی ۔1959ء کے
پنچایت انتخابات میں ارریا کی ایک گمنام پنچایت سسوناکے سرپنچ منتخب ہوئے ۔پانچ
سال بعد1964ء کے پنچایت انتخابات میں مکھیا بنائے گئے ۔ 1969ء میں جوکی ہاٹ
اسمبلی حلقہ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے ۔اس کے بعد تقریبا 8 مرتبہ وہ چار
مختلف حلقوں سے ایم ایل اے منتخب ہوئے ۔ پانچ مرتبہ وہ الیکشن جیت کر
پارلیمنٹ پہونچے اور ایم پی رہتے ہوئے 17؍ستمبر 2017 میں ان کی وفات ہوگئی
۔
الحاج محمد تسلیم الدین کو بہار میں سیمانچل گاندھی کے نام سے جاناجاتاہے ۔
ہر سال چار جنوری کوان کی یوم پیدائش کی مناسبت سے سمانچل ڈے کا انعقاد کیا
جاتاہے ۔سال رواں بھی سیمانچل وکاس منچ نے سمانچل ڈے پر الحاج محمد تسلیم
الدین کی یاد میں ایک کل ہند سمینار اور مشاعرہ کا انعقاد کیا جس کے کنوینر
ڈاکٹر عبد القادر شمس تھے ۔ سمینار اور مشاعرہ میں معروف نوجوان لیڈر کنہیا
کمار ، آر جے ڈی لیڈر وبہار سابق نائب وزیر اعلی تیجسوی یادو ۔ عمر خالد،
سمیت متعدد قومی ومقامی لیڈروں نے شریک ہوکر الحاج محمد تسلیم الدین کو
خراج تحسین پیش کیا ۔اس موقع پر مرحوم تسلیم الدین کے بیٹے اور ارریا لوک
سبھا کے ایم پی محمد سرفرازر عالم نے اپنے والد کے مشن کو پایہ تکمیل تک
پہونچانے کا عزم کیا ۔ تین بجے بے رات کے گیارہ بجے تک سمینار کا سلسلہ
جاری رہا جس میں مختلف علاقائی وقومی شخصیات نے مرحوم تسلیم الدین کی
خوبیوں کا تذکرہ کیا جبکہ گیارہ بجے رات کے بعد سے صبح چار بجے تک مشاعرہ
کا چلتارہا جس میں شبینہ ادیب ،جوہر کانپوری ،لتا حیا سمیت متعدد شعرا ء
وشاعرات کی شرکت رہی۔ قابل ذکر تعداد میں عوام نے شرکت کی اورعلاقے کے
لوگوں نے سیمانچل گاندھی سے بھرپور محبت کا ثبوت پیش کیا۔
1996 میں کانگریس کی حمایت سے ہندوستان میں ایک مخلوط حکومت بنی تھی جس کے
وزیر اعظم ایچ ڈیو گوڑا تھے ۔اس حکومت میں وزیر داخلہ کے عہدہ پر الحاج
محمد تسلیم الدین فائز کے گئے ۔انہوں نے وزیر داخلہ بننے کے بعد بابری مسجد
انہدام ملوث ملزمان کے خلاف چار ج شیٹ دائر کرادیا ۔ان کا یہ فیصلہ اپوزیشن
پارٹیوں کے ساتھ ارباب اقتدار کوبھی برداشت نہیں ہوسکا ۔ ان پر فیصلہ واپس
لینے کا چوطرفہ دباؤ بنایاگیا لیکن تسلیم الدین اپنے فیصلے پر اٹل رہے ۔کانگریس
،آر جے ڈی سمیت کئی پارٹیوں نے حمایت واپس لینے کی دھمکی دے دی جس کے بعد
حکومت کا ختم ہونا یقینی ہوگیا تھا بالآخر ایچ دیوگوڑا کی اس کمزور حکومت
کو بچانے کیلئے تسلیم الدین نے وزرات سے استعفی دے یا ۔ایل کے اڈوانی ،مرلی
منوہر جوشی سمیت بابری مسجد انہدام میں ملوث تمام افراد کے خلاف جو مقدمہ
چل رہاہے اس کا سہرا سیمانچل گاندھی محمد تسلیم الدین کو جاتاہے ۔
الحاج محمد تسلیم الدین کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ملک وملت کے مفاد
کو ترجیح دیتے تھے ۔کبھی بھی پارٹی لائن کے پابند نہیں رہے ۔یہی وجہ ہے کہ
انہیں باغیانہ تیور کا قائد کہاجاتاہے ۔وہ آرجے ڈی ،ایس پی اور جے ڈی یو
سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں سے وابستہ رہے ۔جس پارٹی سے وہ میدان میں اترے
انہیں کامیابی ملی ۔ مرحوم تسلیم الدین نے اپنے ایک انٹرویو میں اس واضح
حقیقت کا اظہار بھی کیا ہے کہ ہندوستان کی کوئی بھی سیاسی پارٹی مضبوط مسلم
لیڈر شپ کو پسند نہیں کرتی ہے ۔آرجے ڈی یو ،جے ڈی یو،ایس پی ،بی ایس پی ،کانگریس
یا کوئی بھی پارٹی ہو وہ صرف ایسے مسلمان لیڈر کو پسند کرتی ہے جو اس کی
مرضی اور پالیسی کے مطابق چلے ۔مضبوط مسلم لیڈر شپ کوئی بھی سیاسی پارٹی
نہیں چاہتی ہے اور نہ ہی اسے یہ منظور ہے کہ کوئی مسلمان لیڈر اپنی قوم کے
بارے میں کوئی بہتر فیصلہ لے ۔
سیمانچل میں ریلوے لائن کی بحالی ،سیمانچل ایکسپریس ،خواجہ غریب نواز
ایکسپریس جیسی ٹرینوں کی شروعات ،متعدد پلوں ،اسکول اور سڑک وغیرہ کی تعمیر
کا سہرا الحاج محمد تسلیم کے سر جاتاہے ۔مرحوم تسلیم الدین پوری زندگی پولس
اور افسران کے خلاف لڑتے رہے۔ عوام کو پولس اور فسران کے خوف سے نجات دلانے
کیلئے ہمیشہ وہ سرخیوں میں بھی رہے ۔ایک مرتبہ ان کی قرقی بھی ضبط کرلی گئی
لیکن عوام کے مفاد میں انہوں نے کبھی بھی کسی طرح کی قربانی دینے سے گریز
نہیں کیا ۔سفر کے دوران ڈاکٹر عبد القادرشمس صاحب نے بتایاکہ وزیر داخلہ کا
چارج سنبھالنے کے بعد جب چارٹرڈ پلین سے گھرو اپس آئے تو والدہ نے ان سے
مقامی زبان میں پوچھا’’کس چیز کے وزیر بنے ہو تم ‘‘ توانہوں نے جواب دیاکہ
پولس نے جو گھر لوٹ لیاتھا اسی کے ہم وزیر بنے ہیں ‘‘۔
سمینار اور مشاعرہ میں راقم الحروف کو بھی مدعوکیاگیاتھا جہاں عوام سے خطاب
کے دوران مذکورہ باتوں کے علاوہ ہم نے یہ بھی کہاکہ سیمانچل گاندھی صرف
ارریا ،کشن گنج اور بہار کے لیڈر نہیں تھے بلکہ وہ ملک کے قومی رہنما تھے ۔
وزیر اعظم کے بعد دوسرا سب سے اہم عہدہ وزیر داخلہ کا ہوتاہے اور انہوں نے
اپنی جدوجہد سے وہ مقام حاصل کیا ۔فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دیا ۔سیکولرزم
کو مضبوط کیا اور غریبوں کے درمیان انہوں نے اپنا مقام بنالیا ۔بچپن میں
انہوں نے ایک نعرہ دیاتھا ’’غریبوں کو بھی امیروں کی طرح جینے کا حق ہے ‘‘
اور زندگی بھی اسی نعرہ کو عملی جامہ پہناتے رہے ۔
مرحوم تسلیم الدین کی شخصیت بلاشبہ مشعل راہ اور آئیڈیل ہے ۔ہندوستان میں
ایک مسلمان کیلئے وزیر اعظم بننا تقریبا ناممکن ہے لیکن وزیرداخلہ بننا
ممکن ہے اور انہوں نے ایک غریب گھرانہ میں پیدا ہونے کے باوجود یہ مقام
حاصل کیا ۔
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں |