تہذیب کے بنا ترقی ممکن نہیں

مہذب دنیا میں کامیابی کے بہت سے الگ الگ پیرا میٹرز ہیں،مگر ایک چیز ہر مہذب ملک کا خاصا لازمی ہوتی ہے۔وہ ہے جدید ترین، آسان، سہولت سے مزین تیز رفتار ٹرانسپورٹ سسٹم ،دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں اچھی سواری عوام کو مہیا کرنا ہر حکومت کی بنیادی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ ریاست اور عوام مل کر اپنے ان تمام اداروں کا خیال رکھتے ہیں،کیوں کہ تہذیب کے بنا ادارہ بن تو سکتا ہے مگر دیر پا قائم نہیں رہ سکتا.لاہور میں میٹرو اسٹیشن کا بننا بہت ہی خوش آئندہ بات تھی وہ اساتذہ اور طالب علم جو روزانہ کی بنیاد پر دور دراز علاقوں سے لوکل رکشوں اور غیر معیاری بسوں پر زیادہ کرایہ لگا کر سکول و کالجز جاتے تھے، ان کے ساتھ ساتھ ان کو گھنٹوں بسوں ویگنوں اور کوچوں کے انتظار میں خوار الگ سے ہونا پڑتا تھا،ان تمام مڈل کلاس افراد کے لئے میٹرو بس سسٹم کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔صاف ستھرے اسٹیشنز اور ہر تین منٹ بعد گاڑی کا اپنے وقت پر آنا سونے پہ سہاگہ تھااوپر سے کم کرائے نے بھی وارے نیارے کر دیے تھے۔نزدیک و دور کے تمام مسافر یکساں کرایہ ادا کر کے اس سہولت سے مستفید ہو سکتے تھے۔ہر سہولت سے آراستہ میٹرو کو عوام الناس بھی زورو شور سے استعمال کرنے لگے تھے،نتیجہ یہ ہوا میٹرو کے اندر تل دھرنے کو جگہ نہ رہی سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہونے لگا اس قدر ہجوم میں حبس اور گھٹن ہونے لگتی بچے بوڑھے سب کم کرائے سے مکمل مستفید ہونے کی بھرپور کوشوں میں رہتے ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میٹرو میں دکھائی دینے لگے ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ وہ دروازے کے سامنے کھڑا رہے تاکہ ہجوم بڑھ جانے کی صورت میں دھکم پیل سے پیچھے نہ کھسکا دیا جائے۔

میں نے بھی ہمیشہ لمبا اور دور کا سفر میٹرو سے کرنا شروع کیا لیکن مجال ہے جو کبھی بیٹھنے کا موقع ملا ہو, بیٹھنا تو دور کی بات ہے کبھی صحیح سے پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نصیب نہ ہوتی پاؤں کسی پر پڑتا تو دیہات کی عورتیں بے باک سنا دیتیں ایسے میں،میں نے کم کرائے کو خدا حافظ کہا اور آرام دہ سفر کیلے زیادہ کرایہ پر دوسری ٹراسپورٹ کا استعمال کرنے لگی تاہم کبھی کبھی ضرورت کے تحت میٹرو بھی استعمال کرنی پڑجاتی ۔ چند دنوں پہلے تعلیم ٹی وی کی لانچنگ تقریب میں،میں اپنی تنظیمAPWWA) (کے ہمراہ شریک ہوئی جہاں سے واپسی پر میں اور میری دوست میٹرو سے مستفید ہونے کے بعد واپسی کے لئے میٹرو اسٹیشن کی سیڑھیاں اتر رہے تھے جب ہمیں ایک خاتون نظر آئیں جنکو ضعیف العمری کی وجہ سے سیڑیاں اترنے میں دشواری کا سامنا تھامیری دوست نے آگے بڑھ کر انکا ہاتھ تھام لیا اور میں نے پوچھا آنٹی آپ نے کہاں جانا ہے انہوں نے جو جگہ بتائی وہ میرے گھر کے نزدیک ہی تھی میں نے کہا ہم چھوڑ دیتے ہیں آپکو تو بہت خوش ہوئیں اور ہمیں ڈھیروں دعائیں دینے لگیں بتانے لگیں میں فرانس سے پاکستان ایک عرصہ بعد آئی ہوں فرانس کا نام سن کر میری دوست نے میری جانب معنی خیز نظروں سے دیکھا اور میں مسکرا اٹھی کیونکہ میرے پسندیدہ اداکار مشہور زمانہ کلاسک ہیرو ''ایلن ڈیلون'' کا تعلق وہیں سے ہے۔آنٹی کی بات جاری تھی انکا کہنا تھا کہ وہ طویل عرصہ باہر رہنے کی وجہ سے پاکستان آنے کے بعد ان کو راستے بلکل یاد نہیں ہیں سب کچھ بدل گیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ وہ میٹرو میں سارا سفر کھڑی آئی ہیں کسی نے توفیق نہیں کی کہ مجھ بڑھیا کو اپنی جگہ دے دیتا جبکہ فرانس جیسے گوروں کے دیس میں اس بات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے وہ اس قدر اچھے لوگ ہیں کہ مجھ جیسے بزرگوں کیلے اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں باتوں باتوں میں آنٹی کی منزل آگئی اور ہم نے انہیں انکے بیٹے کے حوالے کیاجو مذکورہ مقام پر کھڑا اپنی والدہ کا منتظر تھا ہمیں انکے ساتھ دیکھ کر اسکی آنکھوں میں حد درجہ حیرت تھی آنٹی نے ہمیں ڈھیروں دعاؤں یعنی فراسیسی لفظ ''Adios'' سے رخصت کیا،اس ملاقات کے بعد میں سوچ رہی تھی کہ بس سسٹم بنانے اور قوم بنانے میں کس قدر فرق ہے،دنیا کی بہترین بس سروس تو شہر کے وسط میں موجود ہے،مگر افسوس ہم اخلاص، اخلاق، تہذیب سے اس قدر عاری ہیں کہ بزرگ بچوں اور خواتین کو بھی روند کر بس میں سوار ہونا فخر سمجھتے ہیں۔

یہ حادثاتی اور مختصر سی ملاقات میرے لیے بہت خوشی کا باعث بنی حقیقی خوشی سچ میں دوسروں کے کام آنے میں ہی مضمر ہے۔میں گھنٹوں اس بارے میں سوچتی رہی کہ جن تعلیمات کی تاکید اسلام ہمیں کرتا ہے ہم لوگوں کی بجاے اسے اہلِ مغرب اپناتے ہیں ہم کیوں نہیں؟کیا ہم لوگ صرف نام کے مسلمان رہ گے ییں.یہ لمحہ فکریہ ہے۔
 

Falak Zahid
About the Author: Falak Zahid Read More Articles by Falak Zahid: 3 Articles with 3848 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.