نئے پاکستان میں پرانی چیز پھر رائج کرنے کا اعلان ہو
گیا ہے۔
جی ہاں! بسنت جو ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہے منانے کا اعلان ہوا ہے۔
پہلے بھی یہ تہوار پا کستان میں منایا جانے لگا تھا پھر بہت ساری زندگیاں
اس تہوار کی نظر ہو گئیں تو حکومت کو ہوش آیا اور اس پہ پابندی لگا دی گئی
۔
ہر معاشرے کی اپنی ایک ثقافت ہوتی ہے اور مذہبی تہوار بھی ۔
ثقافت وہ ہوتی ہے جو پورا معاشرہ بلا امتیاز اپناتا ہے اور مذہبی تہوار
مخصوص مذہب سے منسوب لوگ ہی مناتےہیں ۔
جیسے مسلمان دو عید یں مناتے ہیں عید الفطر اور عید الضحی ۔
اسی طرح ہندو قوم میں جو مذہبی تہوار منانے جاتے ہیں ان میں ، دیوالی،
دسہرا ، بیساکھی، ہولی اور بسنت شامل ہیں۔
بسنت سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔
اس کا مطلب بہار ہے۔ یہ ماگھ کی پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے ۔ویدوں میں
اسے سرسوتی دیوی کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن اس کی پوجا کی جاتی ہے نئے کپڑے
پہنے جاتے ہیں اور پتنگ بازی بھی کی جاتی ہے ۔
مشہور محقق مورخ اور سائنسدان علامہ ابو ریحان البیرونی اپنی کتاب، کتاب
الہند میں لکھتے ہیں
"اسی مہینہ میں استوائے ربیعی ہوتا ہے، جس کا نام بسنت ہے، حساب سے اس دن
کا پتہ لگا کر اس دن عید کرتے ہیں، برہمنوں کو کھلاتے ہیں دیوتاؤں کی نذر
چڑھاتے ہیں "۔
(کتاب الہند ،مترجم سید اصغر علی :صفحہ 206)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہندووں کا مذہبی تہوار مطلب یہ بھی ہندو مت ہی
ہے ۔
اب ہم آتے ہیں کہ آخر پاکستان میں اس تہوار کو منانے پہ اعتراض کیا ہے؟
پہلے تو وہی کہ یہ ایک ہندوانہ تہوار ہے اور ہم الحمدللہ مسلمان ہیں ۔
ہمیں بھی اللہ رب العزت نے خوشیوں کے مواقع بتائے ہیں۔
سو ہم وہی تہوار منائیں گے جو ہمیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
بتائے اور منائے ۔
جن میں عید ین، عقیقہ ،ایک دوسرے کی دعوت ،تحفے تحائف کی تلقین کر کے زندگی
کی خوشیوں میں رنگ بھر دیا ہے ۔
سو اسی لئے تو ہم نے 1947 میں خون کی ندیاں بہا کر ہندوؤں سے الگ ملک بنایا
کیونکہ ہم مسلمان بھی ایک قوم ہیں اور جداگانہ پہچان رکھتے ہیں ۔
اگر ہم نے یونہی ہولی اور بسنت جیسے تہوار منا کر الگ ہو کر بھی ہندوؤں کے
ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا تھا تو الگ ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟
دس لاکھ مسلمانوں کا خون بہانے کی ضرورت کیا تھی؟
کیوں جوان بیٹے کٹوائے ،بیٹیوں کی عزتیں گنوائیں، بچے نیزوں پہ چڑھائے گئے
؟
یہ سب قربانیاں اس لئے دی گئی تھیں کہ ہم اپنی زندگیاں اپنے اپنے اسلام کے
مطابق گزار سکیں ۔
تو ہمیں ضرورت ہی کیا ہے آخر ہندووں کے تہوار منانے کی؟
دنیا کے دیگر مذاہب بھی کسی دوسرے مذہب کی مذہبی روایت یا طریقہ اس طرح
اختیار نہیں کرتے۔ حتی کہ نماز پہ تو سائنسی ریسرچ بھی آ چکی ہے جس میں اس
کے بےشمار فوائد تسلیم کئے گئے لیکن کیا اہل مغرب نے پانچ وقت نماز شروع کی
؟
ہندوستان میں ہندو مسلم اکٹھے رہے اب بھی بیس کروڑ مسلمان آباد ہیں وہاں
کیا ہندو عید مناتے ہیں؟
کیا عیسائی عید مناتے ہیں؟
کیا وہ عقیقہ کرتے ہیں ؟
اگر دیگر اقوام ہمارے مذہبی تہوار نہیں مناتیں تو مسلمانوں کا مذہب جو ایک
سچا ،آفاقی اور کامل مذہب ہے اس کے پیروکاروں کو کیا ضرورت پڑ گئی ہندو مت،
جو دنیا کا سب سے گھٹیا مذہب ہے، کے تہوار منانے کی ؟
چونکہ یہ کوئی ثقافت ہرگز نہیں ہے ۔ورنہ مسلمان کسی معاشرے کی وہ روایات
اپنا سکتے ہیں جو اسلام سے نہ ٹکراتی ہوں ۔
جس میں کسی کا کوئی نقصان بھی نہ ہو ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا بسنت کے فوائد ہیں؟
بسنت والے دن لوگ ایک دوسرے کے گھر اکٹھے ہوکر کھانے بنا کر مخصوص پیلے اور
اورنج رنگ (جو ہندوؤں کا مذہبی رنگ ہے ) کے کپڑے پہنتے ہیں ۔
بہت ساری بڑی بڑی پتنگیں شیشہ لگی ڈوری کے ساتھ اڑاتے ہیں ۔انواع و اقسام
کے کھانے ہلہ گلہ ۔
آخر اس سب میں قباحت کیا ہے؟
اس کا اگر ہم مذہبی طور پہ جائزہ لیں تو ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم
ایسے ہندوانہ تہوار اور مخلوط محافل کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے ۔
اور پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے کسی دوسری قوم
کی مشابہت اختیار کی وہ قیامت کے دن اسی قوم میں سے اٹھایا جائے گا ۔
لیکن لبرل طبقے کو اس بات سے تکلیف ہو گی اور وہ ملا کی بات کہہ کر ماننے
سے انکاری ہو جائے گا (استغفراللہ )
آئیے ہم دنیا کا جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا لبرل طبقے کے پیمانے پہ کتنا پورا
اترتی ہے ۔
ہم مسلمان ہیں اور سال میں دو عیدیں مناتے ہیں عیدالفطر اور عیدالضحی ۔ان
عیدین پہ ہم خوشی مناتے ہیں عید پڑھنے جاتے ہیں، نئے کپڑے، دوست احباب کی
دعوتیں ،سیر وغیرہ ہوتی ہے ۔
عیدالضحی پہ قربانی پہ کرتے ہیں ۔
کیا دیگر اقوام میں سے کوئی ایک قوم بھی ہماری نقل کرتی ہے ؟
کوئی عید مناتا؟
قربانی کرتا؟
ہمارے ہاں بچے کی پیدائش کے ساتھ دن بعد عقیقہ کیا جاتا ہے
کیا کوئی اور قوم ہماری نقل کرتی ہے ؟
اگر وہ ہماری نقل نہیں کرتے تو مسلمان تو ہیں ہی کافر سے اعلی ان کو کیا
ضرورت پڑی ہے رب کی نافرمان اور دھتکاری ہوئی اقوام کی نقل کرنے کی ؟
اب آتے ہیں اس تہوار کے نقصانات کے طرف ۔
پتنگ بازی کہنے کو سادہ سا کھیل ہے مگر حقیقت میں ایک انتہائی خطرناک کھیل
ہے ۔کیونکہ عام طور پر بچے چھتوں پہ چڑھ کر پتنگ اڑانا پسند کرتے ہیں ۔اکثر
بچے پتنگ اڑاتے ہوئے اتنا کھو جاتے ہیں کہ چھت سے گر جاتے ہیں یا کئی کٹی
ہوئی پتنگ کو لوٹنے کے لئے منہ اوپر اٹھائے اس طرح چھتوں پہ بھاگتے ہیں کہ
گر جاتے ہیں اور سڑکوں پہ بھی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
اس تہوار پہ جو شیشہ لگی ڈور استعمال کی جاتی ہے وہ کتنی جانیں لے جاتی ہے
۔
لوگ ڈور کو تیز تر کرنے کے چکر میں، اپنی پتنگ بچانے اور دوسروں کی کاٹنے
کے شوق میں ایسی ڈور تیار کراتے ہیں جیسے بلیڈ ہو ۔اور پھر جب اس ڈور کی
کوئی پتنگ کٹ جائے تو ڈور اکثر بائیک پر جاتے لوگوں کے گلے کاٹتی چلی جاتی
ہے ۔اس وقت پہ جانوں کا ضیاع شروع ہوچکا ہے ۔کچھ دن پہلے ایک طالب علم جو
بائیک پہ جا رہا تھا اسی ظالم ڈور کا شکار ہو گیا ۔لوگ حیران ہو کر دیکھ
رہے تھے کیا ہوا جو خون و خون ہو گیا ہے کچھ دور جا کر وہ گر گیا اور لوگوں
کو پتہ چلا کہ قاتل بسنت نے اس کی جان لے لی ہے۔اسی ظالم تہوار نے کسی کے
گھر کا چراغ گل کر دیا تھا، کسی ماں کے دل کو نوچ لیا، کسی باپ کی آنکھوں
کی ٹھنڈک اور مستقبل کے لیے دیکھے گئے جوان اولاد کے سہانے خواب چھین لیے
تھے ،
یہ ظالم تہوار بہنوں کی آنکھوں کے تارے بھائیوں کا قاتل پے ۔
ماں باپ کی زندگی برباد کردینے والے ۔بچوں کو یتیم کردینے والے ، اور
بیویوں کے سہاگ چھیننے والے اس تہوار پہ ہرصورت پابندی ہونی چاہیئے۔
آخر ہمارے ملک میں اتنے کھیل کھیلے جاتے ہیں، اتنے طریقے نکالے جاتے ہیں
ہنسنے کھیلنے اور خوش ہونے کے ایک یہ قاتل تہوار نہ بھی منائیں گے ،یہ قاتل
کھیل نہ بھی کھیلیں گے تو کون سی قیامت آ جائے گی |