پاکستان کئی لحاظ سے دنیا کے اہم ممالک میں شامل ہے لیکن اس کا جغرافیہ اسے اہم ترین ممالک میں شمار کروا دیتا ہے اور یہی جغرافیہ ہے جو اس کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز ہو تا ہے اگر اس کی سرحدیں ایک طرف چین سے جڑی ہیں اور ایک طرح سے یہ اس طرف سے چین تک پہنچ کے لیے مغرب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو دوسری طرف ہر وقت حالتِ جنگ میں رہنے والے افغانستان سے اس کی سرحد لگی ہوئی ہے جہاں ہر طالع آزما دندناتا ہوا اس ملک پر چڑھ دوڑتا ہے اور خطہ ایک کے بعد دوبارہ اور سہ بارہ بلکہ کئی کئی بار اور مسلسل غیر متوازن ہوتا رہتا ہے۔اس وقت بھی علاقے میں اسی ملک کی وجہ سے عدم توازن موجود ہے اور دہشت گردی کا بازار بھی گرم ہے بلکہ اسے بھارت کی مدد سے دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا دیا گیا ہے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے مشرق میں بھارت جیسا چالاک ا ور عیار دشمن بھی موجود ہے جس نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا ۔برصغیر تقسیم ہوا تو بھارت کو کئی مسلم اکثریتی علاقے دے دیے گئے اور کچھ پر اُس نے قبضہ کر لیاجبکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی خواہش کے عین مطابق ایک مسلمان ملک پاکستان معرضِ وجود میں آیا جو خالصتاََ مسلمان علاقوں اور صوبوں پر مشتمل تھا اس نے کسی ہندو اکثریتی علاقے پر اپنا دعویٰ جتایا نہ قبضہ کیا لیکن اس کے باوجود بھارت نے اسے دل سے تسلیم نہیں کیا اور اس کے خلاف نہ ختم ہونے والی سازشوں کا آغاز کر لیا۔وہ مسلم اکثریتی کشمیر اور حیدرآباد پر وہاں کے باشندوں کی مرضی کے خلاف قابض ہو گیا۔ اُس نے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکا، اس کے حصے میں آنے والا جنگی سا ز و سامان اور اثاثے روکے، اس کے قیام کے بعد اس کے اندر سازشیں کیں اور کر رہا ہے۔پاکستان پر چار جنگیں مسلط کیں اورمشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوا دیا گیا۔بے تحاشہ روایتی اور غیر روایتی جنگی اسلحہ خریدا ، ایٹم بم بنایا اور بم بناتے ہی اپنا لہجہ بدل لیا،بلوچستان میں کھلم کھلا مداخلت کرتا رہا اور کر رہا ہے، اس کا حاضر سروس نیوی افسر جاسوسی کرتے ہوئے پاکستان سے پکڑا بھی گیا۔ اس جیسے بے شمار جرائم وہ پاکستان میں کرتا ہے لیکن مغرب میں کبھی کوئی واویلا نہ ہوا لیکن اگر پاکستان اس کے جواب میں بھی کچھ کرے تو اس کے خلاف آوازیں آنے لگتی ہیں اور پاک فوج تو گو یاایک ایسا کانٹا ہے جومغرب ہو یا مشرق ہر دشمن کی آنکھ میں کھٹکتا نہیں چبھتا ہے۔12جنوری2019کے اپنے شمارے میں اکانومسٹ نے پاکستان میں غربت کا ذمہ دار پاکستان آرمی کو ٹھہرایا اور بہت سارے الزامات بھی عاید کئے ہیں اُس نے لکھا کہ پاک فوج دہشت گردی کی ذمہ دار ہے اور قیا م پاکستان سے لے کر اب تک منفی طریقوں سے ریاستی نظریے کا دفاع کر رہی ہے اور اس بات پر مُصر ہے کہ پاکستان اسلام کے دفاع کے لیے قائم ہوا ہے عوام کی فلاح کے لیے نہیں اُس نے یہ بھی لکھا کہ پاک فوج ظلم و ستم کے نظریے پر ایمان رکھتی ہے۔ جریدے کے تعصب کی وجہ بھی اس کالم میں سامنے یوں آتی ہے کہ اُس نے لکھا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام نہ صرف ملک کی زبوں حالی کی وجہ ہے بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے اور یہاں بھی اُس نے پاک فوج کے خلاف اپنا بغض نکالتے ہوئے اسے مذہبی طور پر متعصب قرار دیا۔جریدے نے ان تمام باتوں میں پاکستان کا بھارت کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کیا تاہم برآمدات میں بھارت اور بنگلہ دیش کے پاکستان سے آگے ہونے کی وجہ سے موازنہ کرنا نہیں بھولا۔اگر وہ ان باقی معاملات میں بھی پاک بھارت موازنہ کرتا تو اُسے یہ معلوم ہوتا کہ پہلے ایٹم بم کس نے بنایا،اُسے یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ شدت پسندی کسے کہتے ہیں، اُسے یہ بھی پتہ چلتا کہ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کہاں ہوتا ہے اُس نے احمدیوں کے بارے میں تو اپنا نکتہء نظر بیان کیا لیکن اسلام کے خلاف اُن کی سازشوں کو بے نقاب نہیں کیا۔اُس نے بلوچستان کے حالات کو اپنے مطابق تو بیان کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہاں کون سرگرم ہے اور پاکستان کی یکجہتی کو نقصان پہنچا رہا ہے ، اُس نے تاریخ پر بھی نظر نہیں ڈالی کہ اُسے پتہ چلتا کہ بھات نے کیسے پاکستان کے اندر آکر سازش اور مسلح مداخلت کی اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا۔ اُس نے چار پاک بھارت جنگوں پر تبصرہ کیا تو بس اتناکہ بھارت کو چاروں کا فاتح بنا دیا، کیسے یہ وہ خود بھی نہیں جانتا ورنہ کشمیر کے آزاد حصے کا ذکر بھی کرتا اور واہگہ پر بھارت کے انجام پر بھی روشنی ڈالتا ۔اُس نے 1971کی بھارتی دہشت گردی کو بھارت کی طرف سے بنگالیوں کی نسل کشُی روکنے کی کو شش قرار دیا لیکن کشمیر کے معاملے پر اُس کے صفحات اندھے کی آنکھ بن گئے اور اُسے نہ تو پیلیٹ گن نظر آئی اور نہ وہ بے نور آنکھیں جو اِن بندوقوں کی نظر ہو گئیں اور نہ کشمیری بوڑھے، جوان، مرد ، عورتیں اور بچے جو بھارتی فوجیوں کی بندوقوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔اُس نے حیرت انگیز طور پربھارت کی زبان بن کر ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے 174اموات کا ماتم تو کیا لیکن پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کا ذکر کرنا جان بوجھ کر بھول گیا۔اُس نے یہ خود ساختہ انکشاف بھی کیا کہ افغان طالبان لیڈر کوئٹہ میں بنتے ہیں لیکن افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ 17بھارتی قونصلیٹوں یا با الفاظِ دیگر دہشت گرد فیکٹریوں کے بارے اُس نے اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ۔ اگر وہ یہ سارے تقابلی جائزے لیتا تو اُسے معلوم ہوتا کہ بھارت اور پاکستان دونوں ہی بھارت کے جنگی جنون کی وجہ سے اپنے وسائل اپنی ترقی کی بجائے اپنے دفاعی معاملات پر خرچ کر رہے ہیں، نہ بھارت اشتعال پھیلاتا ، نہ ایٹم بم بناتا، نہ اسلحے کے ڈھیر لگاتا ، نہ پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بنتا،نہ اِس میں دہشت گردی کرواتا، نہ کلبھوشنوں کو بھیجتا ، نہ روز روز سرحدی جھڑپیں کرتا اور نہ ہی پاکستان کو اس کے مقابلے کے لیے تیاری کرنا پڑتی۔یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں کہ دشمن آپ کے خلاف خود کو اسلحے سے لیس کرے اور آپ آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہیں۔ پاکستان ایک آزاد اور زندہ ملک ہے اور اسے اپنی آزدی کی حفاظت ہر صورت کرنی ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی افوج کو تیار نہ رکھے لہٰذا اس پر تو کوئی معذرت خواہانہ رویہ ہی نہیں ہونا چاہیے ہاں یہ اور بات ہے کہ اب بھی پاکستان کا دفاعی بجٹ بھارت سے کئی گُنا کم ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاک فوج ملکی ترقی میں اپنا اہم ترین کردار ادا کر رہی ہے بلکہ یہ وہ فوج ہے کہ ملک کو جس شعبے میں اس کی ضرورت پڑی اس نے آگے بڑھ کر اپنے فرائض سے زیادہ اپنا کردار ادا کیا۔جہاں ضرورت پڑی بہترین تعلیم فراہم کی، جہاں ضرورت پڑی صحت کی سہولت لے کر پہنچ گئی، صنعتوں کو تحفظ فراہم کیا غرض ہر شعبہء زندگی میں اپنا خون پسینہ شامل کیا اور ویسے بھی اِن غیر ملکی طاقتوں اور اِن کے زرخریدوں کو ہمارے اندرونی معاملات کے بارے میں اپنی رائے کا یوں بے جا اظہار کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اس سے کسی کو انکار نہیں اور اگر اس کی فوج اس کے نظریے کا دفاع کر رہی ہے تو یہی اس کی کامیابی ہے اس لیے کسی کو اس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہم اپنے معاملات کو بہتر سمجھ سکتے ہیں اور حل کر سکتے ہیں لہٰذا غیر قوتوں کو اس پر یوں جانبدارانہ اور متعصبانہ تبصرہ کرنے کاکوئی حق نہیں۔ |