خلافت-حصہ دوئم

تاکہ معاشرتی فرد اپنے معاشرے کے لئے کارآمد رکن اور نظام کا صحیح پابند بن جائے ۔خلافت اسلامیہ کی بحالی سے ملی وحدت قائم ہوگی اور تفریق کا ماحول آئینی طور پر ختم ہوجائے گا کیونکہ تفریق کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ کہ تفریق تعصب کی پیداوار اور جاہلیت کی باقیات سے ہے ۔ خلافت اسلامیہ کی بحالی تفریق کے خاتمے تعصب کے انسداد اور جاہلیت کی رسومات کے قلع قمع کی مکمل ضمانت ہوگی ۔ خلافت اسلامیہ دستور کائنات کے مطابق اتحاد ، ترقی ، امن ، اجتماع اور ہمہ جہتی عروج کی ضمانت ہے۔ افتراق ، انتشار ، اختلاف، تفرقہ بازی ، لسانی اور گروہی تعصبات مذہبی اور مسلکی کشمکش اور منجملہ فسادات محض خلافت اسلامیہ کے نہ ہونے کی وجہ سے ہیں ۔

تاریخ اسلام اس پر گواہ ہے ۔ قرآن کریم نے اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور ذہنی وفکری،عملی آئینی ترتیب کے لئے قادر مطلق کی طرف رجوع کرتے ہوئے اجتماعیت قائم رکھنے پر زور دیا۔
واعتصموا بحبل اﷲ جمیعا و لا تفرقواo
ولا تکونواکالذین تفرقوا من بعد ما جاءھم البینات o

ان آیات کی روشنی میں اسلامی معاشرے کے قرآنی تصور کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ خالق کائنات نے ارضی نظام کی ترتیب کے لئے خلیفہ کا تقرر جس آئینی ، اصلاحی و انقلابی افادیت کی خاطر فرمایا وہ کبریاء عالم کی طرف مجتمعا رجوع کرتے ہوئے مستقلاً تفریق سے اجتناب پر دلالت ہے اسی اجتماع اور عدم تفریق کی ضمانت سے ایک اسلامی معاشرہ اور قابل نمونہ اسلامی ریاست معرض وجود میں آتی ہے ۔ خلافت اسلامیہ کے سوا ریاستی اور سیاسی تمام نظام تفریق ،جھوٹ ، نفرت ،منافی فطرت ترجیحات اور انسانی حریت کو غلامی میں بدلنے کے نظریات پر قائم ہیں ۔ ملوکیت سے آج کی جمہوریت تک خون آشام تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے تو یہ حقیقت سمجھنے میں کوئی دشواری باقی نہ رہے گی کہ فرعون و نمرود و قارون کے افکار کو نت نئے انداز سے خلافت اسلامیہ کے خاتمہ کے بعد پیش کیا جاتا رہا ہے ۔

خلافت اسلامیہ اور دستور اسلام میں خلیفہ کی حیثیت کیا ہے ؟
خلیفہ دستور حق کے مطابق ایک ایسی شخصیت ہے جو آئین کی بالادستی امن و امان کی بحالی اور معلم کائنات صلی اﷲ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم کی نیابت کی قوت سے مالا مال ہوتی ہے ۔خلیفہ کی اطاعت واجب ہے ۔ قرآنی اسلامی نظریہ خلیفہ کی بابت جن تصرفات کمالات اختیارات حقوق اور ذمہ داریوں کو آئینی بالا دستی کے حوالے سے پیش کرتا ہے۔ ذیل میں اس کامختصرسا خاکہ ہدیہ قارئین ہے ۔
.1 خلیفہ کا تقرر برائے بالادستی حاکمیت و قانون خداوندی
.2 خلیفہ کا تقرر بغرض حاکمیت حقہ اور قانون قدرت کے اصل حقدار کی دستوری علمبرداریت
.3 خالق کائنات کی حاکمیت اور اس کے قانون کو مخلوق میں نافذ کرنا
.4 خالق و مخلوق کے حقوق کی رعایت اور ان کی ادائیگی کی دستوری سبیل یقینی کرنا
.5 خالق و مخلوق کے حقوق کے علم و ہدایت و فہم کو عام کرنا
.6 خالق کی بندگی میں مخلوق کے اندر انصاف کی فوری اور مکمل فراہمی کو یقینی بنانا
.7 خالق کی اطاعت کوقائم کر کے لوگوں کو خلیفہ کی اطاعت پر پابند کرنا
.8 خلیفہ کا تقرر بطور معلم و مرشد
.9 خلیفہ کا تقرر بطور نگران و گواہ
.10 خلیفہ کا تقرر بطور عادل و داعی الی اﷲ
.11 خلیفہ کا تقرر باعث رحمت و معرفت حق
.12 حاکمیت اعلیٰ اور قانون قدرت کی دستوری پہچان کے لئے خلیفہ کا تقرر
.13 خلیفہ کے ذریعے عطائے حق سے افراد کو نوازنا
.14 خلیفہ کی ذات ،کمالات اور عادات کو اسوہ حسنہ اور نصاب ہدایت قرار دینا
.15 خلیفہ کے تقرر سے تقلید و اتباع کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنا اور فرد کمال و شرف کی پیروی کو کارآمد اور نفع مند ثابت کرنا
.16 خلیفہ کی اطاعت کو قانون کی بالادستی سے وابستہ کر دینا
.17 خلیفہ کے وجود کو منشاءحق کے ادراک اور دستور حق کے مفہوم صحیح پانے کا مرکزی ذریعہ ٹھہرانا

قرآن و سنت میں عبادات ،معاملات ، وظائف ،تجارت ، معاشرت، معیشت ،عائلی امور ،عالمی ، علاقائی و نجی معاملات ،سیاسی، سماجی ،فکری ، شرعی ، قانونی اور عدالتی حوالوں سے پیش آنے والی صورتوں پر مکمل راہنمائی اور نصاب سے ہم کنار فرمایا مگر زندگی کے نت نئے پہلوؤں سے رونما ہونے والے امور ،ان کا تصفیہ ، تقابل ، ان کی حیثیت کا تعین اور اس حوالے سے پیش آنے والی کیفیات پر دستوری تدابیر کے لئے نظام اسلام میں ایک مستقل طریقہ کار موجود ہے جسے اجتہاد و قیاس کہا جاتا ہے ۔ اجتہادو قیاس کی دستوری صورتوں سے معاملات میں شرعی امداد یقینی ہے لہٰذا خلیفہ اجتہاد و قیاس کے ذریعے مخلوق کے مسائل کو حل کرنے پر صاحب صلاحیت و با اختیار ہے ۔

اسلام میں قانون سازی کیا حیثیت ہے ؟
اسلام کی برکات اور اسکے آئینی اختیارات کا دائرہ کار کسی بھی شے کے معرض وجود میں آنے سے قبل اور اسکے مقرر کردہ انتہا کو پہنچ جانے کی حد کے بعد تک کو محیط ہے ۔ یوں ایک طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے ، شعور و تصور سے بلند حدود بھی دین حق کی آئینی حد بندیوں میں واضح کی گئی ہیں اور گمان توقع ومستقبل کی تمام حقیقتوں کو بھی اسی کے آئینی سانچے میں ڈھال رکھا ہے ۔ دین حق اسلام کے تمام احکامات ،ضوابط اور فرامین منجملہ ناقابل ترمیم ہیں ۔ آئین کا تعلق نظام ریاست سے ہے ۔ آئین میں افراد معاشرہ کی مستقل تربیت اور پرورش کی خوبی پائی جاتی ہے نہ کہ جزوی معاملات وقتی اور عارضی لوازمات حیات ومعاشرہ کی دستیابی کے لئے عارضی استعداد ۔ اسلام ایک مکمل ، مستقل اور ہمہ گیر آئین ہے جو کائنات اور کائنات کے تمام ضابطوں کے مقرر کرنے کا استحقاق حاکمیت حقہ کے لئے مقرر فرمایا گیا ہے ۔ جس میں کائنات کی مستقل دستوری بنیادوں پر درجہ بندی کے لئے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والا نظام اور اس کا مستقل طریقہ کار عطا کیا۔ اور اسلام کا تدریس کردہ طریقہ کار ہی فطری ،قطعی اور قابل نفاذ ہے مگر باعث حیرت یہ ہے کہ اسلام کے آئین صادق ہونے پر تو سب کو ایمان کی دعویداری کی صورت حاصل ہے مگر اس کے آئینی نفاذ کے طریقہ سے پس و پیش کرنا اور مظاہرہ تامل کا معمول اختیار کرنا وطیرہ بنایا ہوا ہے ۔اسلام میں قانون مقرر کرنے کا اختیار صرف اور صرف اﷲ کو ہے ۔ دنیا کا کوئی انسان قانون سازی کے لئے مختار نہیں کیونکہ وہ مخلوق ہے اور مخلوق اپنی ہم جنس کی فطرت کو کما حقہ جاننے اور اس کی کما حقہ آئینی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے لہٰذا وہ قانون سازی کی استعداد سے فطری بنیادوں پر محروم ہے ۔ جب انسانی فطرت میں قانون سازی کی استعداد ہی نہیں اور نہ ہی یہ خالق کو پسند ہے تو تمام انسانی آئینوں کی آئینی حیثیت مکمل غیر آئینی ہے کیونکہ آئین قدرت ہی آئینی ہے جس کی بالا دستی کو یقینی بنانا خلیفہ کی آئینی ذمہ داری ہے خلافت اسلامیہ میں اقتصادی نظام کیا ہے ؟

امور ریاست اور روز مرہ زندگی میں جس نظام کا گہرا متواتر اور مسلسل کردار پایا جاتا ہے وہ نظام اقتصادیات ہے ۔

اقتصادی نظام اور اس کا فہم
اقتصاد کا لفظ افریقی کلمہ سے نکلا ہے جس کے معنی تدبیر اور امور منزل کے ہیں ۔اور یہ تدبیر منزل اس طرح ترتیب پاتی ہے کہ اس کے متعلقہ افراد چیزوں کی پیداوار میں اشتراک کریں اور اس عمل کے تسلسل اور مطلوبہ نتائج کی خاطر خدمات انجام دیں ۔ اقتصادی عمل کا تسلسل اور مطلوبہ نتائج کی خاطر کی جانے والی خدمات سے معاشرہ کے تمام افراد فائدہ اٹھانے کے قابل ہو نے چاہئیں۔

اقتصادی نظام اور علم الاقتصاددونوں اقتصاد کی بابت بحث کرتے ہیں لیکن دونوں کا دائرہ معاملہ یکسر مختلف ہے ایک اگر تدبیر مادہ مال پر زور دیتا ہے تو دوسرا تدبیر تقسیم مال پر ۔ یوں وسائل اور تفکیر کی بنیاد پر دونوں کی حدود متعین ہوتی ہیں ۔ اقتصادی مشکلات ضروریات انسانی ،ان کے وسائل کی سیرابی اور انکے فائدہ حاصل کرنے کے معاملات کے گرد چکر لگاتی ہیں ۔ قدرتی وسائل تو کائنات میں پہلے سے موجود ہیں جو انسان کی کفالت اور اس کی ضروریات کی تکمیل کےلئے انتظام قدرت ہے ۔جن کی مسلسل و متواتر پیداوار اور وافر دستیابی ضروریات کی سیرابی میں کوئی بنیادی مشکل پیدا نہیں ہونے دے گی ۔

اسلام کا نظریہ اقتصاد
مادیت ،ثروت اور سرمائے کے حوالے سے اسلام کا نظریہ باقی مروجہ نظریات سے جداگانہ آفاقی اور پائیدار ہے ۔ان سے نفع حاصل ہونا ایک دوسرے نقطہ نظر سے تعلق رکھتا ہے دین حق اسلام میں وہ وسائل جن سے نفع حاصل ہو سکتا ہے جداگانہ اقتصادی حکم رکھتے ہیں اور ان سے نفع حاصل کرنے کی صورت اقتصادی اعتبار سے دوسری نوعیت ہے مال اور انسانی کاوش بنیادی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہی سے منفعت وابستہ ہے ۔دین حق اسلام ان دونوں کا جائزہ ان کے محل وقوع ، ان کی پیداوار اور ان سے نفع حاصل کرنے کی نوعیت کی بنیاد پر لگاتا ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مال اور انسانی جدوجہد کی منفعت کو سمیٹنے کے حوالے سے کیفیات جداگانہ ہیں۔ منفعت کی وہ صورتیں جو معاشرے کی کسی خاص یا منفرد اکائی کو اس طرح نفع پہنچائیں کہ جس سے اکثریت کی انسانی کاوشیں ، اقدار ، اور حقوق تلف ہونے کی مستقل یا عارضی صورتیں پیدا ہو رہی ہوں ممنوع قرار دے دی گئیں ۔ مثلاً شراب اور مرداروغیرہ سائنسی تحقیقات نے اور یورپی ممالک کے جدید مروجات نے یہ حقیقت ثابت کر دی ہے کہ اسلام کا نظریہ حلال و حرام در حقیقت آئینی ، بنیادی اور فطری ہے ۔ رسوماتی معمولات اور انفرادی ، اجتماعی ،عائلی اور جنسی حقوق میں تباہ کن غیرفطری اور غیر آئینی نفع اندوزی کے معمولات ، اطواراور رسوم ممنوع قرار دیئے گئے ۔ یوں ہی جن چیزوں کا کھانا ،پینا جسمانی و روحانی ، ظاہری و باطنی صحت کے اعتبار سے مضر باور کرایا گیا ان کے استعمال کے ساتھ ساتھ ان کی تجارت خرید و فروخت کو انسانی مفادات کے تحفظ اور حقوق کی مستقل بحالی کی خاطر حرام قرار دیا ۔

یہاں ایک امر کی وضاحت ضمناً ضروری ہے کہ جن چیزوں کی حرمت کو نافذ و قائم کیا گیا اس کے سلسلے میں کسی قسم کی خدمات کی صورت بھی حرام ہے ۔ کیونکہ مال اور انسانی کاوش و ریاضت سے فائدہ حاصل کرنے کا دستوری اعتبار اور حلال ہونے کے حکم کے نفاذ کا دارومدار انسانی کائنات کی فلاح اور حقوق کی آئینی بحالی و تحفظ پر ہے۔

اسلامی اقتصادی تصور
اقتصادی خوشحالی،مالی اور معاشی بہتر منصوبہ بندی اور تدبیر کار کے لئے اسلام نے واضح لائحہ عمل دیا۔ جانوروں کی تجارت کے ساتھ جانوروں کے شکار کی اجازت اور اس کے احکامات ، بنجر اور بے آباد زمینوں کو آباد کرنے اور اس کی ملکیت کے احکامات ، اجارہ ، مشارکہ ، مضاربہ ، ہبہ اور اس قبیل کے بہت سے معاملات اور ان کے احکامات۔ شریعت اسلامیہ نے استخراج مال کو انسانوں پر چھوڑ دیا ہے اور تحسین جہد انسانی کو بھی اسی پر چھوڑ دیا ہے ۔ روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے کھجور کے درختوں کی تلقیح (پیوند لگانا ، قلم کرنا ، نر کھجور کا شگوفہ مادہ کھجور میں ڈالنا ،اس کو لَقَاح بھی کہتے ہیں ) کے بارے میں فرمایا تھا کہ تم لوگ اپنے دنیاوی امور کو زیادہ جانتے ہو ۔ روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ و صحبہ وسلم نے دو صحابیوں کو جرش یمن کی طرف بھیجا تا کہ اسلحہ کی صنعت کو سیکھ کر آئیں۔ یہ بات اس پر دلیل ہے کہ شریعت نے مال کی پیداوار کا معاملہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنے تجربے کے مطابق جیسے چاہیں کریں۔ اس بنا پر اس سے ظاہر ہوگیا کہ اسلام نظام اقتصادی کو دیکھتا ہے علم اقتصاد کو نہیں اور دولت سے نفع اندوزی اور اس منفعت کے حصول کی کیفیت اس کی بحث کا موضوع ہے دولت کی پیداوار اور وسائل منفعت سے اس نے مطلق بحث نہیں کی ۔

نظام مملکت چلانے کےلئے اسلام کا اقتصادی تصور
نظام مملکت چلانے کے لئے اقتصادی قوت ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے ۔پرامن،پائیدار اور متوازن ریاست و معاشرہ کے لئے مربوط اور مستحکم اقتصادی نظام بنیادی ضرورت ہے ۔ دین حق اسلام نے ریاست و اہل ریاست کے معاشی و اقتصادی معاملات کو مستحکم بنانے کے لئے تجارت ، صنعت و حرفت ، شراکت ، مضاربت( حصہ پر تجارت کرنا ، دو آدمیوں کا ایک تجارت میں شریک ہونا ایک کا مال ہو اور دوسرے کی جسمانی محنت اور دونوں کا ایک معین نفع پر متفق ہونا مضاربت ہے)

شرکت عنان (دو آدمیوں کا کسی خاص مال میں شریک ہونا شرکت عِنَان کہلاتا ہے۔ یعنی دو شخصوں کا اپنے مال سے کسی کاروبار میں شراکت اختیار کرنا ۔اس شراکتی کاروبار میں دونوں کا مال اور جسمانی محنت برابر سطح پر ہونا ضروری ہے ۔اس طرح ان دونوں کا اس میں اختیار و تصرف برابر ہوگا)، شرکت ابدان( اس سے مراد ایک ایسا عمل شراکت ہے جس میں دو یا دو سے زیادہ صرف اپنی جسمانی طاقتوں سے شریک ہوں اور اس میں ان کا مال شامل نہ ہو اور عمل معین سے اپنی شرکت قائم کریں۔ شرکت کی یہ صورت فکری اور جسمانی انواع کی ہو سکتی ہے اس میں نفع آپس کے اتفاق سے ہوگا اور اس کا باہم اتفاق کے ساتھ تعین جائز ہے)، شرکت وجوہ(یہ شرکت ایک ایسی تجارتی صورت میں ہوتی ہے کہ جس میں دو افراد ایک تیسرے شخص کے مال اور اس کی کمائی کی صورتوں میں اس طرح شراکت اختیار کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنا مال صرف کرتا ہے اور دوسرے دو کو مضارب بنا لیا جاتا ہے یوں وہ اس کے مال میں نفع کے شریک ہو جاتے ہیں اب اس نفع کو تین حصوں میں کر لیا جائے گا ۔شرکت وجوہ اپنی تمام اقسام کے ساتھ جائز ہے اور یہ سنت و اجماع سے ثابت ہے کیونکہ یہ شرکتمضاربت کے معنی میں ہے عرب ملکوں میں تجارت کےلئے جو قواعد رائج ہیں وہ تقریبا اسی نوعیت کے ہیں ) ، شرکت مُفَاوِضَہ ( ایسی شرکت ہے جس میں تمام شرکاءمال ، تصرف (کسی کام میں دخل )اور دین (قرض)کے لحاظ سے برابر ہوں اور سب ایک دوسرے کے وکیل اور کفیل ہوں یہ شرکت عنان کے مقابلہ میں ہے جس میں نہ تو سب تصرف میں برابر ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی ایک دوسرے کا کفیل ہوتا ہے ۔بہر کیف ایک علمی اصطلاح بھی اسی معنی میں ہے جسے مفاوضة العلماءکہا جاتا ہے یعنی علمی مسائل میں ایسا مذاکرہ و مباحثہ کہ جس کے باعث ایک دوسرے کی تحقیق معلوم ہو ۔) ، ملکیت عامہ ، کارخانے ، بیت المال ،زکوة ، جزیہ ، خراج ، مال مفروض(اس سے مرادمال کی ایسی مد ہے جو ریاست کی ضروریات اور اہل ریاست کے بنیادی حقوق کی بحالی اور اسکے لئے اسباب کی دستیابی کے واسطے درکار ہو۔جن میں بیت المال کی رقم اور وہ وصول شدہ رقم جو غناءکے بعد اکٹھی کی جاتی ہے شامل ہے) ، انفرادی خارجی تجارت ، حکومتی خارجی تجارت ، بین الدول علاقہ نقدیہ اور حریت مبادلہ کا تصور اورنظام پیش کیا ہے۔

اقتصادی نظام میں تجارت ، سرمایہ کاری ،معاشی منصوبہ جات ، اقتصادی بہتری کے مستقل موثر اقدامات ، تجارتی ترجیحات ، تجارتی منصوبہ بندیاں ، تجارتی منڈیوں تک آسان رسائی اور اسکے متعلقاتی کثیر معاملات و امورکا صحیح تعین نہایت ضروری و توجہ طلب ہے ۔
Molana Muhammad Nasir Khan Chishti
About the Author: Molana Muhammad Nasir Khan Chishti Read More Articles by Molana Muhammad Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 195513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.