آخر ہم کس سمت جا رہے ہیں؟

قارئین کرام! گزشتہ روز ایک ساتھی کالم نگار نے پاکستانی معاشرے میں برائی و بے حیائی کا سارے کا سارا قصور انڈیا اور انڈین میڈیا پر لگا دیا۔ مجھ اس کالم نگار کی باتوں پر ہنسی بھی بہت آئی اور اپنی قسمت پر رونا بھی بہت آیا۔ ہنسی اس بات کی کہ کیا انڈیا والوں نے خود آکر آپ کو کہا ہے کہ ہماری فلموں کو اپنی بہو، بیٹیوں اور بیویوں کو دکھاﺅ، انہوں نے تو نہیں کہا کہ اپنی بیٹیوں اور بچوں کو اس طرح کا لباس خرید کر دو، جس طرح کا ہمارے معاشرے میں پہنایا جاتا ہے، انڈیا تو وہ ملک ہے یہ سب کلچر ہے، انہوں نے تو نہیں کہا کہ آپ اپنی شادی بیاہ کی تقاریب میں ان کے گانوں کو ڈانس کرو اور اپنی بیٹیوں کو اس بات کی اجازت دو کہ شادی بیاہ میں غیر مردوں کے ساتھ ڈانس کرے۔۔۔

اور اپنی قسمت پر رونا اس لیے آیا کہ ہماری قوم کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ کرتی خود ہے اور پھر الزام دوسروں پر لگا دیتی ہے۔ ہم اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے کیا کھو دیا ہے، ہمارے دین اسلام میں عورت کے لیے ایسے ایسے اصول بنائے گئے ہیں، جو دنیا کے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ہے، لیکن آج ہماری عورتیں یہ کہتی ہیں کہ اسلام Rigidمذہب ہے، اس میں عورت کے لئے آزادی نہیں ہے، آخر یہ سب کیوں ہے؟؟؟؟

کیونکہ آج ہم دین اسلام سے دور ہوتے جارہے ہیں، ہم نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے راستے کو چھوڑ دیا ہے، آج ہم نے غیر مسلموں کا ہاتھ تھام کر ان کے راستے پر چلنا شروع کر دیا ہے، جن کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل فرما دیا تھا کہ یہ یہود و نصاریٰ تمہارے کبھی دوست نہیں ہو سکتے، مگر آج ہم ان ہی کی دوستی کا رونا روتے رہتے ہیں، جبکہ وہ دوست بھی کہتے ہیں اور پھر ہم پر ہی حملے بھی کرتے ہیں، ہمارے ہی بندوں کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے دوست ہیں۔

قارئین کرام! آج ہمارے معاشرے میں ہر طرف بے حیائی ہی بے حیائی ہے، جس سڑک اور گلی سے گزریں آپ کو عورتیں آدھے لباس میں دکھائی دیں گی اور عورت کے سر پر چادر ہو یہ بہت پرانا رواج ہوگیا ہے۔ آج ہمیں اسلام کے اصولوں کا کوئی خیال نہیں ہے، اسلام نے ہمیں اتنے سنہری اصول بتائے ہیں کہ جن پر ہمارے آباﺅ اجداد نے عمل کیا تو انہوں نے پوری دنیا پر حکومت کی اور آج ہم نے ان کو چھوڑ دیا تو آج ہم پر پوری دنیا حکومت کر رہی ہے، کسی بھی اسلامی ملک کو دیکھ لیں اس میں غیر مسلموں کا راج ہے۔ اسلامی تشخص کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم نے مسلمان ہونے کا صرف لبادہ اوڑھا ہوا ہے، درحقیقت میں ہم میں مسلمان بہت کم بچ گئے ہیں، آج مسلمانوں کو چھ کلمے تو دور کی بات دوسرا کلمہ تک نہیں آتا، نماز پڑھنی نہیں آتی، کئی کئی مہینوں تو ہمارے نوجوان مساجد میں داخل نہیں ہوتے، جبکہ روزانہ اگر وہ رات کو ایک ڈانس پارٹی نہ کر لیں تو ان کو نیند نہیں آتی، اذان ہو رہی ہوتی ہے اور ہمارے گھروں میں اونچی اونچی آواز میں میوزک بج رہا ہوتا ہے اور کسی کو اذان اور نماز کا خیال تک نہیں آتا اور پھر ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ ان سب میں زیادہ قصور والدین کا ہے، جو بچوں کو نہ تو نماز اور روزہ کی تربیت کرتے ہیں اور اوپر سے ان کو غلط کاموں سے منع بھی نہیں کرتے اور جب بیٹا غلط کام کرتا ہے تو آگے سے خوش ہوتے ہیں۔۔۔۔مگر مجھے ان والدین کی قسمت پر بھی رونا آتا ہے کیونکہ جن بچوں کے لئے آج وہ سب کچھ کر رہے ہیں، بروز قیامت وہی بچے انہیں ان کے گریبان سے پکڑیں گے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کریں گے کہ اللہ پاک! یہ ہمارے والدین ہیں، انہوں نے ہماری صحیح تربیت نہیں کی، انہوں نے ہمیں نماز اور روزہ کی طرف نہیں بھیجا، بلکہ انہوں نے ہمیں غلط راستہ دکھایا۔

قارئین کرام! ہمارے ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے حیائی بڑھتی جارہی ہے، اس کو ختم کرنے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لانی ہوگی، اپنے گھر میں تبدیلی لانی ہوگی، پھر ممکن ہے کہ ہم اپنے ملک میں، اپنے گھر میں اور اپنے اوپر اسلامی اصول لاگو کر سکیں گے اور دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکیں گے۔۔۔۔
Muhammad Atif Saeed
About the Author: Muhammad Atif Saeed Read More Articles by Muhammad Atif Saeed: 2 Articles with 1972 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.