اکیسویں صدی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ماس کمیونیکیشن کی
ترقی اور شہرہ آفاقی کی صدی ہے۔ میڈیا ہاوسز کی بہتات اور کمیونیکیشن ٹولز
میں جدت اس عہد کا خاصہ ہے۔ روایتی صحافتی عمل کی ترقی کے ساتھ ساتھ "عوامی
صحافت" کی نئی اصطلاح بھی سامنے آئی۔ جس کے ذریعے عوام الناس سوشل میڈیا
ٹولز کو اپنی روزمرہ کے احوال شئیر کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل اور ان
میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو اجاگر کر سکتے ہیں۔ یقینا عوامی حلقوں میں
یہ بات پسندیدہ ہے کہ لوگ اپنے اردگرد کے مسائل کو سوشل میڈیا کی وساطت سے
مقتدر حلقوں تک پہنچا سکتے ہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے فوری شنوائی اور
ان مسائل کا تدارک بھی سامنے آتا رہا ہے۔
ابھی یہ بات اتنی پرانی نہیں ہوئی تھی اور عوامی حلقوں میں اس کی اہمیت کا
احساس پوری طرح پیدا نہ ہوا تھا کہ اپنے آپ کو حقوق انسانی کے چیمپئن اور
آزادی اظہار رائے کے علمبردار طبقہ نے اس عوامی حق کو سلب کرنا شروع کر دیا۔
مذہب اور جغرافیائی حدود کی بنا پر معاملات میں تخصیص کر دی گئی اور مبینہ
طور پر ایسی پالیسیاں بنائی گئیں کہ مسلم دنیا پر ہونے والا ظلم بیان کرنا
ایک جرم قرار دے دیا گیا۔ جس کی پاداش میں لوگ اپنے سوشل اکاؤنٹس سے ہاتھ
دھو بیٹھتے ہیں۔ اس طرح ایک مخصوص لابی اپنا پروپیگنڈہ پورا کر سکے گی اور
دیگر تمام افراد اس لابی کی طرف سے طے شدہ ناجائز مبینہ قوانین کی بھینٹ
چڑھتے رہیں گے۔
میڈیا میں کام کرنے کا اولین اصول غیر جانبداری ہے مگر صد افسوس کہ اس وقت
جو لوگ میڈیا پر قابض ہیں وہ من پسند زاویہ سے حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنے
کو اپنا کمالِ فن سمجھتے ہیں۔ اور عوام میں سے بھی کوئی اگر حقیقت سے پردہ
ہٹانے کی کوشش کرے تو اس کا سنگین نتیجہ اپنے سوشل اکاؤنٹس کھو دینے کی
صورت میں ملتا ہے۔ اب تک ہزاروں افراد اپنے فیس بک اکاؤنٹ کھو چکے ہیں۔ بعض
تو اتنے بد دل ہوئے کہ دوبارہ فیس بک کا نام لینے سے بھی تائب ہو گئے اور
کچھ افراد آئے روز نیا فیس بک اکاؤنٹ بنانے میں لطف محسوس کرنے لگے ہیں۔
اور اب واٹس ایپ نے بھی خربوزے کی طرح رنگ پکڑ لیا ہے اور آئے روز صارفین
کے اکاؤنٹ سسپینڈ (suspend) کرنے شروع کر دیے ہیں۔ مگر ایسا کب تک چلے گا ؟
آخر کب تک لوگ بار بار نئے اکاؤنٹ بناتے رہیں گے اور دوستوں کو نئے واٹس
ایپ نمبر بھیجتے رہیں گے۔
اس کا واحد موزوں حل یہ ہے کہ سوشل میڈیا سائٹس کے ذمہ داران غیر جانبداری
کا مظاہرہ کریں اور اپنی پسند اور ناپسند کو صارفین پر زبردستی مسلط نہ
کریں۔ اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ حق بجانب ہیں تو اپنی پالیسی واضح کریں
مگر تنگ نظری یا تعصب سے بالاتر ہو کر پالیسیاں مرتب کریں ورنہ اگر لوگ
سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سماجی مظالم اور ناانصافیوں کو اجاگر کرنے میں
ایسے ہی رکاوٹوں کا شکار رہے تو یقینا وہ ان ٹولز کا استعمال ترک کر دیں گے
اور کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ |