بہترین اندازِ گفتگو اور مزاج ِمنصفانہ
تقریبا تیرا سو سال پہلے عرب میں خاندان عباسیہ کا دوسرا بادشاہ خلیفہ ابو
جعفر منصور گزرا ہے جس کی مدت خلافت ۷۵۳ء سے ۷۶۰ء تک رہی ۔ یہ بادشاہ سخت
مزاج اور نہایت بخیل تھا لیکن ان اوصاف کے علاوہ وہ عادل اور منصف مزاج بھی
تھا۔ اگر اس کا کوئی گورنر یا وزیر بھی کوئی غلطی کرتا تو اس کوبھی سزا
دیتے ہوئے اس کے عہدے کا لحاظ نہ کرتا تھا۔ اس کے عہد میں اس کے ایک گورنر
نے ایک شخص کی زمین پر زبردستی قبضہ کر لیا ۔ اس نے بہت فریاد کی لیکن کسی
نے کوئی توجہ نہ دی ۔ ہر طرف سے ناامید ہو کر بادشاہ کی خدمت میں عدل و
انصاف کا مطالبہ کرنے پہنچ گیا ، لیکن بادشاہ سے ملنا کوئی آسان کام نہ تھا
وہ اسی معاملہ میں وزیروں کے پاس بھٹکتا رہا۔ بالآخر وہ بادشاہ تک پہنچ ہی
گیا۔ بادشاہ نے کہا ، کہو کیوں آئے ہو۔۔؟ جواب میں اس شخص نے کہا حکم ہو تو
پہلے اپنا مقصد بیان کروں یا مقصد بیان کرنے سے پہلے کوئی مثال حضور کی
خدمت میں پیش کروں۔
خلیفہ نے کہا بہت خوب پہلے مثال بیان کر لو۔
وہ کہنے لگا بادشاہ سلامت بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو اپنے دکھ درد اپنی ماں
کو سناتا ہے، کیونکہ وہ اپنی سمجھ کے مطابق ماں کو ہی سب سے زیادہ مہربان و
شفیق جانتا ہے۔ پھر تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو اس کو معلوم ہوتا ہے کہ کہ ماں کے
علاوہ ایک اور شفیق ہستی موجود ہے جس کووہ باپ کے نام سے پکارتا ہے، پس وہ
اپنی فریاد ماں کے بعد باپ کے پاس لے جاتا ہے۔ لیکن جب وہ اور بڑا ہوتا ہے
تو اپنی شکایتیں شہر کے حاکم کی عدالت میں لے جاتا ہے۔ کیونکہ قانونی طور
پر یہ ادارہ ہی سب سے زیادہ قوی ہوتا ہے، لیکن اگر شہر کا حاکم بھی انصاف
نہیں کرتا اور غرور و تکبر میں آکر اس کو حقیر سمجھتا ہے، تو پھر وہ مظلوم
شخص بادشاہ کے حضور حاضر ہونے کی کوشش کرتا ہے اور بادشاہ تک پہنچنے کے لئے
بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کیونکہ کبھی باشاہ کے رعب سے ڈرایا جاتا ہے تو
کبھی انصاف کے حصول کے لئے اسے مایوس کر کے اس کی ہمت توڑ دی جاتی ہے۔ مگر
جب اس بد نصیب مظلوم کی پکار بادشاہ بھی نہیں سنتا تو پھر وہ اپنی عاجزانہ
دعاؤں کے ساتھ گڑگڑا کر اپنی فریاد اس بادشاہوں کے بادشاہ کے حضور پیش کرتا
ہے جس کے نزدیک امیر غریب ، حاکم محکوم سب برابر ہوتے ہیں ، جو نہ تو کسی
کے رعب و دبدے کو دیکھتا ہے اور نہ کسی کے رتبے کو وہ اگر دیکھتا ہے تو صرف
اعمال کو دیکھتا ہے۔ اگر کسی شخص کے اعمال دنیا میں اچھے رہےکسی کا دل نہیں
دکھایا کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی تو وہ ضرور اس ذات پاک کا قرب حاصل
کرے گا خواہ وہ ادنیٰ سا فقیر ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر وہ اپنی حکومت پر
گھمنڈ کرتے ہوئے غریبوں کا دل دکھاتا ہے۔ دولت کو عیش و عشرت میں اڑاتا ہے
اور غریب رعایا پر ظلم کرتا ہے ۔تو وہ خدا کے نزدیک ایک چوہڑے چمار جو
برائی نہیں کرتا اس سے بھی کم درجہ رکھتا ہے۔
خلیفہ کے دل پر اس تقریر کا ا یسا اثر ہوا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے
اور اس کا دل لرز اٹھا اور اسی کیفیت میں کہا کہ اے شخص اپنی تقریر بند کرو
میں اس کو سننے کی طاقت نہیں رکھتا، یہ بتاؤ کہ تیرے ساتھ کیا ظلم ہو
اہے۔۔؟
اس شخص نے کہا ۔۔۔اے امیر المومنین ۔۔! میرے قبضہ میں زمین کا ایک بہت
زرخیز رقبہ تھا، جس کی شادابی دیکھ کر آپ کے گورنر نے مجھ پر ستم توڑ دیے،
یہاں تک کے اپنے ماتحتوں کے ذریعے وہ وسیع رقبہ اپنے قبضہ میں کر لیا ۔ میں
ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا دربدر پھر رہا ہوں، کوئی میری فریاد تک نہیں
سنتا۔ اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کیا آپ انصاف کریں گے یا میں اس حاکم
کے پاس چلا جاؤں جو مظلوموں کی فریاد کے استقبال کرنے کو اپنی قبولیت کو
بھج دیتا ہے۔
خلیفہ نے اس کو اطمینان دلایا کہ میں اس معاملہ میں ضرور انصاف کروں گا۔
اور پھر خشک انصاف کا نعرہ ہی نہیں لگایا بلکہ کر دکھایا اور بغیر کسی
کمیٹی کے بنائے کہ وہ اس پر تحقیق کرتی گورنر کو حکم بھیجا کہ فورا اس شخص
کی زمین واپس کی جائے۔
اس واقعہ میں ایک تو اس بے سہارا مظلوم کا انداز گفتگو قابل دید ہے، جس سے
یہ پتا چلتا ہے کہ اگر ہماری گفتگو کا طریقہ اچھا ہو تو یہ ہماری کامیابی
کی راہ ہموار کر سکتا ہے، اور ہماری منزل مقصود کے درمیان حائل رکاوٹوں کو
زائل کر سکتا ہے۔دوسری بات یہ کہ بادشاہ کا منصف مزاج ہونا کسی قوم کے لئے
بہت بڑی نعمت ہوتی ہے ، وہ مظلوموں کا رسیا ہوتا ہے، ظلم کے راستے پر چلنے
والا کوئی شخص اس کا قریبی اور معاون نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اس ظلم کو
چھوڑ نہ دے۔
جہاں بہترین انداز گفتگو اور مزاج منصفانہ کسی قوم و معاشرے کو ترقی و
بلندی کے پروانے تھمانے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں وہیں ان کا فقدان
کسی معاشرے کی تباہی کا سب بھی بنتا ہے۔ حکمران ظلم کی پشت پناہی کرنے
لگیں، رعایا کی زبانیں زہر اگلنے لگیں تو پھر اس ملک و قوم کے بلندی کی طرف
بڑھتے قدم پستی کا رخ اختیار کر لیتے ہیں اور اس معاشرے کی بقا خطرے میں پڑ
جاتی ہے اور اگر بالفرض وہ باقی رہ بھی جائے تو اس کا شمار کسی اچھے معاشرے
میں کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان دو باتوں کی
ضرورت اس وقت ہمارے ملک میں شدت سے محسوس کی جا رہی ہے تو شاید یہ غلط نہ
ہوگا ۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں ان دونوں چیزوں کی کمی کو پورا فرماتے
ہوئے ہمارے ملک کو ہر اعتبار سے ترقی نصیب فرمائے۔۔(آمین) |