کسی بھی قوم کیلئے ان کی نوجوان نسل مستقبل کے معمار کے طور پر بہت اہمیت
کی حامل ہوتی ہیں۔ ان کی صحتمندانہ سرگرمیاں اور عمدہ تعلیم و تربیت ہی
انہیں معاشرے کا فعال اور کارآمد فرد بنا سکتی ہے۔ پاکستان میں حالیہ قیام
کے دوران مختلف سطح کے تعلیمی اداروں میں جانے اور انتظامیہ و تدریسی عملہ
سے ملاقات اور صورت احوال سے آگاہی کا موقع ملا۔ جہاں محنتی طلبہ کی صحتمند
اور خوشگوار سرگرمیاں قابل ستائش ہیں وہاں کچھ قباحتیں قابل مذمت اور
والدین، انتظامیہ و حکام بالا کی فوری توجہ کی مستحق بھی ہیں۔
|
|
ان میں سے ایک یہ کہ ان دنوں نوجوانوں میں "آئس" نامی قاتل نشے کا بڑھتا
ہوا رجحان حد درجہ تشویشناک ہے۔” آئس“ سمیت کئی نئے نئے نشے اب پوش علاقوں
کے نوجوانوں کی تفریح کا حصہ بن چکے ہیں۔ ”پارٹی ڈرگز“ کہلانے والی یہ
منشیات پارٹیز سے نکل کر تعلیمی اداروں میں پہنچ چکی ہیں۔ اس سے قبل ہیروئن
، چرس اور دیگر نشے عام تھے۔
" آئس“ ان ناموں میں ایک نیا اضافہ ہے جو گزشتہ دو اڑھائی سال سے ہمارے
معاشرے میں پھیل رہا ہے۔ تعلیمی اداروں اوران کے ہاسٹلز میں مقیم نوجوان
لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد مسلسل اس لعنت کا شکار ہورہی ہے۔ اس کو سگریٹ کے
ذریعے عوامی مقامات پر بھی بآسانی استعمال کیا جاتا ہے اور بدبو نہ ہونے کی
وجہ سے یہ دوسرے نشہ جات کی طرح بظاہر معیوب بھی محسوس نہیں ہوتا۔
اس نشے میں 24 سے 48 گھنٹوں تک جگانے کی خاصیت موجود ہونے کی وجہ سے پہلے
پہل طلبہ اس کی طرف اس لئے راغب ہوتے ہیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ امتحان کی
تیاری کرسکیں مگر اس بات سے لا علم ہوتے ہیں کہ اس طرح وہ ایک عذاب میں
مبتلا ہونے جارہے ہیں۔ بعد میں وہ ان کے دماغ کو کمزور اور وجود کو کمزور
کرکے انہیں جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار کردیتا ہے۔ وہ معاشرے کے
ناکارہ فرد بن کر رہ جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ICE کا نشہ amphetamine نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ
چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے
باریک شیشے سے گزار کر گرم کیا جاتاہے۔ اس کے لئے عموما بلب کے باریک شیشے
کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض افراد اسے انجکشن کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔
اس قاتل زہر کے تاجر پہلے پارٹیز میں مفت آئس دے کر نوجوانوں کو اس کا عادی
بناتے ہیں، بعد میں انہیں مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے رینجرز نے کراچی میں چھاپہ مار کر آئس بنانے والے ایک گروہ
کے آٹھ افراد کو حراست میں لیا تھا جو کراچی کے پوش علاقوں میں اس زہر کی
سپلائی کرتے تھے۔ اسی طرح لاہور کے پوش علاقوں، جامعات، ہاسٹلز اور فارم
ہاؤسز میں اس نشے کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ شہر اقتدار کی جامعات میں بھی
بآسانی یہ آئس نامی زہر قاتل دستیاب ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی
ملازمین اور دیگر افراد نوجوانوں کو آئس فراہم کرتے ہیں۔
|
|
” آئس" پشاور اور قبائلی علاقوں میں آسانی سے مل جاتی ہے اور ملک کے مختلف
حصوں میں کام کرنے والی خفیہ لیبارٹریاں بھی” آئس“ تیار کر کے فروخت کررہی
ہیں۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں ” آئس“ کو ہیروئن کی جگہ
استعمال کیا جا رہا ہے۔ بد قسمتی سے اس لت میں سب سے زیادہ مبتلا بھی "کے
پی کے" کے تعلیمی ادارے ہیں۔ ہوش اڑا دینے والی ایک حقیقت یہ کہ کثیر تعداد
میں لڑکیاں اس نشے کا شکار ہیں۔ ” آئس“ نشے کی بڑی مقدار افغانستان اور چین
سے مختلف طریقوں سے پاکستان پہنچ رہی ہے۔ چین سے پڑھ کر واپس آنے والے کئی
طلبہ میں بھی” آئس“ کی لت پائی گئی کیوں کہ چین یہ نشہ کافی عام ہورہا ہے۔
تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ” آئس“ استعمال کرنے والے بیشتر افراد
پہلے ہیروئن کے عادی رہ چکے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں بحالی نو کے مراکز
اِس نشے کے متاثرہ مریضوں کا علاج کررہے ہیں۔ یہ مراکز انتہائی محتاط طریقے
سے چلائے جارہے ہیں کیوں کہ انہیں یہاں آنے والے افراد کی شناخت کو خفیہ
رکھنا ہوتا ہے اور انہیں شرمندگی سے بھی بچانا ہوتا ہے جبکہ یہ کافی مہنگے
بھی ہیں تاہم اب تک حکومت کی طرف سے اس نشے کی روک تھام کے سسلسلے میں کوئی
قابل ذکر اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ ابھی تک خصوصی طور پر اس کے سمگلروں
اور پینے والوں کے لیے کوئی سزا مقرر کی گئی ہے حکومت کی جانب سے اس وقت اس
برائی کو روکنا اور نوجوان نسل کو اس کی لت سے بچانا انتہائی ضروری ہے۔
علاوہ ازیں لوگوں میں منشیات کی لعنت کے بارے میں آگاہی دینا بھی وقت کی
اہم ضرورت ہے کیونکہ منشیات ہی بہت سے جرائم اور سماجی برائیوں کی جڑ
ہیں۔قوم کے نوجوان تباہی کی منزلوں کی جانب گامزن ہیں مگر کوئی انہیں روکنے
والا نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئس سمیت منشیات کے خلاف آگاہی مہم
اور کارراوائی میں طلبہ تنظیمیں اور اساتذہ حکومت کا ساتھ دیں اور حکومت کو
بھی چاہیے کہ آئس نشے اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے تاکہ
یہ ناسور مزید پھیلنے سے روکا جائے. |