تحریر: امداد اﷲ خان نعمانی
شعلے کسی عفریت کی طرح لمبی سرخ زبان کی طرح ہر طرف سے لپک رہے تھے۔
یونیورسٹی کے سامنے والی پوری عمارت آگ کی لپیٹ میں تھی۔ آگ لگنے کی خبر
جنگل کی آگ کے مانند ساری یونیورسٹی میں پھیل گئی۔ جس کسی کو خبر ملتی وہ
بھاگم بھاگ اپنے ڈیپارٹمنٹ سے عمارت کے قریب پہنچ جاتا۔ اس طرح ایک مجمع لگ
گیا۔ لوگ اِدھر اْدھر ٹولیوں میں کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے۔ جو بھی آتا، سب
سے پہلے سوال کرتا کہ آگ کیسے لگی، اس سوال کا یقینی جواب کسی کے پاس نہیں
تھا۔ ا س لیے ہر شخص یہی کہتا کہ، ’’پتا نہیں، میں تو ابھی آیا ہوں‘‘۔
پھر مچھلی بازار جیسا شور شرابا شروع ہوا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شارٹ سرکٹ کی
وجہ سے آگ لگی ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی نے جلتی ہوئی سگریٹ پھینک دی ہو،
شاید گیس کی پائپ لائن لیک ہوگئی ہو یا گیس سلنڈر پھٹ گیا ہو۔آگ بھڑکتی رہی،
مجمع بڑھتا گیا۔ لوگوں کی باتیں جاری رہیں۔ ’’آگ بیک وقت دونوں منزلوں میں
کیسے لگی‘‘؟ ہاں یہ بھی قابل غور بات ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک ساتھ دونوں
منزلوں میں نہ لگی ہو۔ ایک منزل میں لگنے کے بعد آہستہ آہستہ دوسری منزل تک
پہنچی ہو۔آگ اوپر منزل سے نیچے کی منزل تک پہنچی یا نیچے کی منزل سے اوپر
منزل کی طرف گئی؟ ہاں۔یہ بھی اہم سوال ہے۔ ’’کیا اہم سوال ہے؟ یہ سب بیکار
کی بحث ہے‘‘، مجمع میں سے ایک لمبا تڑنگا مقصود نامی نوجوان آگے آیا اور
دھاڑتی ہوئی آواز میں بولا۔
’’سب لوگ تماشا دیکھ رہے ہیں۔کیا کسی نے فائر بریگیڈ کو اطلاع دی؟‘‘، دلاور
نامی نوجوان نے منحنی سی آواز میں پوچھا۔ ’’میں نے فون کیا تھا لیکن وہاں
کوئی فون نہیں اٹھا رہا‘‘، اسامہ نے کہا۔ ’’پھر فون کرو‘‘، لمبے تڑنگے
مقصود نامی نوجوان نے بلند آواز میں کہا۔ ’’ٹھیک ہے میں فون ملاتا
ہوں‘‘۔فون اٹھانے پر کچھ یوں جواب ملا کہ ابھی اس وقت کوئی گاڑی موجود نہیں
ہے آتے ہی بھجوا دی جائے گی۔ مجمع بڑھتا رہا، آگ بھڑکتی رہی۔ لوگ آپس میں
باتیں کرتے رہے۔ باسط نامی نوجوان نے کہا، ’’یہاں تو انتظام ہی نرالا ہے۔
ہمارے گاؤں کے ایک گھر میں ایک دفعہ آگ لگی تھی، گاؤں کے سب لوگ دوڑے دوڑے
آئے اور ڈول ڈول پانی ڈال کر تھوڑی دیر میں آگ بجھادی‘‘۔ ’’ارے بڑے میاں،
یہ گاؤں نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کنواں ہے‘‘، آصف نے باسط کو مخاطب کرکے کہا۔
خیال آرائیاں جاری رہیں۔
’’ہوسکتا ہے آگ لگی نہ ہو، لگوائی گئی ہو‘‘، فہد نے اپنا خیال پیش کیا۔
’’ہاں یہ بھی ممکن ہے۔ اس میں آگ لگوانے والے کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور
ہوگا‘‘، مدثر نے کہا۔’’اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا، یہ خاندانی
دشمنی کا نتیجہ ہو‘‘، جنید نے قیاس ظاہر کیا۔ ’’کیا بکواس ہے۔ ہر حادثے میں
لوگوں کو آج کل دہشت گردی اور خاندانی دشمنی جیسے وجوہات نظر آتے ہیں اور
بھائی یہ کوئی چوپال نہیں ہے کہ تم لوگ قصے کہانیاں سنانے میں لگ گئے۔ فائر
بریگیڈ کو فون کرو‘‘۔
’’فون کرنے سے کیا ہوگا؟ اوّل تو کوئی فون اٹھاتا نہیں اور اگر اٹھاتا بھی
ہے تو کوئی بہانہ بنادیتا ہے‘‘، اسامہ بولا۔ جلدی کرو۔ آگ پھیلتی جارہی ہے۔
اب آس پاس کے مکانوں کو بھی لپیٹ میں لے لیگی‘‘، حماد گھبرائی ہوئی آواز
میں چلایا۔’’اندر سے گھٹی گھٹی چیخوں اور کراہنے کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔
شاید کچھ لوگ عمارت اب بھی زندہ موجود ہیں‘‘، فہد نے پھر اپنا خیال ظاہر
کیا۔’’فائر بریگیڈ کی گاڑی آخر کب آئے گی۔ جب سب جل کر راکھ ہوجائے گا؟
فائر بریگیڈ والوں نے تو کافی دیر پہلے ہی کہا تھا کہ کئی دوسری جگہوں پر
بھی آگ لگی ہوئی ہے۔ سب گاڑیاں ادھر ادھر ہوگئی ہیں۔ بھئی ایک بار پھر فون
ملا کر بات کرلینی چاہئیے‘‘، رمشا نے گرج دار لہجے میں کہا۔ لیکن اس بار جب
فون کرکے بات کی گئی تو لوگوں کو بتایا گیا کہ ’’فائر بریگیڈ والے کہہ رہے
ہیں کہ گاڑی تو آگئی ہے مگر وہاں پانی نہیں ہے‘‘۔
کیا کہا، پانی نہیں ہے؟ ہاں! پانی نہیں ہے۔ پانی کا مسئلہ بے حد سنگین ہے۔
یہاں کے مکین تو گذشتہ کئی مہینوں سے پانی کی بوند بوند کے لیے ترس رہے ہیں
اور کہا جاتا ہے کہ آئندہ عالمی جنگ بھی پانی ہی کے لیے ہوگی‘‘۔ ’’اب کیا
کیا جائے‘‘؟ ’’کیا کیا جاسکتا ہے‘‘؟ شعلے کسی عفریت کی لمبی سْرخ زبان کی
طرح ہر طرف لپک رہے ہیں۔آس پاس کی دوسری عمارتیں بھی زد میں ہیں۔ |