لکھنے والے کیوں لکھتے ہیں ؟ یہ سوال کئی بار کیا گیا ہے
اور اس کے مختلف جواب دئیے گئے ہیں۔ کو ئی کہتا ہے کہ میں اپنی آسودگی اور
سکونِ قلب کے لئے لکھتا ہوں، کوئی معاشرے کے فکری راہنمائی کے لئے لکھتا
ہے،کوئی اس لئے لکھتا ہے کہ اسے لکھنے میں لطف آتا ہے کوئی رقم کمانے کے
لئے لکھتا ہے،کوئی ناموری اور شہرت کے لئے لکھتا ہے۔یہ سب جوابات علیحدہ
علیحدہ ہوتے ہوئے بھی پوری حقیقت کو بیان نہیں کرتے۔اصل بات یہ ہے
کہ’’احساس ‘‘اظہار پر مجبور ہوتا ہے۔جتنا ’احساس ‘ کا اظہار بہترین انداز
میں کیا جائے اتنا ہی اظہار میں سلیقہ ، اثر اور دلنشینی ہو گی ۔اگراظہار
میں اگر اندازِ تحریر درست نہ ہوگا تو ترجمانی یا ترسیلِ خیالات مکمل نہیں
ہوگا۔
جن لکھنے والوں کا احساس من کی موج سے آگے نہیں بڑھتا ان کے اظہار اور
اندازِ تحریر میں مدّو جزر ہو گا، پیچ و خم ہو گا۔راقم الحروف کسی زمانے
میں خیبر پختونخوا کے ایک معروف اخبار کے لئے معاوضہ لے کر لکھا کرتا تھا
مگر بہت جلد اس نتیجہ پر پہنچا کہ جو لوگ پیسے کمانے کے لئے لکھتے ہیں، وہ
حالات کے غلام ہو جاتے ہیں ان کی حیثّت ان ہنر مندوں جیسی ہو تی ہے جنہیں
اپنی ہنر کو بازار کی ضرورت کے سانچے میں ڈا لنا ہو تا ہے۔چونکہ مہذب اور
اصول پرست انسان بازار کی ضرورت کے سہارے نہیں جیتا،اس لئے میں نے معاوضہ
لینے کو خیر باد کہتے ہو ئے فری لانس کالم نگار کی حیثیت سے لکھنا شروع کیا
۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک کالم نگار کو ان تہذیبی قدروں کی خاطر جو اسے عزیز
ہیں اور جو انسانیت کا قابلِ قدر سرمایہ ہیں،اپنے قلم سے ایک جہاد کرنا
چاہیئے۔ اس جہاد میں وہ صرف اپنی بات لکھ کر سبکدوش نہیں ہو جاتا بلکہ
دوسروں کی میلان کو دیکھتے ہو ئے اپنی بات اس طرح لکھتا ہے کہ وہ رائیگاں
نہ جائے،محض خشک وعظ و پند نہ ہو جائے، صدا لبصحرا ثابت نہ ہو بلکہ دلوں سے
نکل کر دلوں میں بیٹھ جائے۔
اچھا لکھنے والا کبھی اپنے گردو پیش سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ، نہ وہ اس پر
قناعت کر سکتا ہے کہ چند مخصوص اہلِ نظر حضرات ہی اس کی بات سمجھتے ہیں۔ہو
سکتا ہے کہ اس کی بات تہہ دار ہو، اس کے کچھ پہلو سب پر واضح ہو جائیں لیکن
کچھ پہلو صرف خواص کے لئے ہو ں۔یہ بات کسی طرح بری نہیں مگر لکھنے والے کو
یہ کوشش ضرور کرنی چاہیئے کہ اس کے بات میں وزن ہو ، سلیقہ ہو ، تاکہ لوگ
اس کے خیالات کو سمجھ سکیں اور اس سے اثر لے سکیں۔اس لئے ضروری ہے کہ علمیت
کے نامناسب اظہار،اصلاحات کی بھر مار اور اکھڑی اکھڑی عبارت سے پرہیز کیا
جائے۔البتہ ہماری تحریر میں اپنی زبان (اردو) کی خصوصیات جلوہ گر ہونے
چاہئیں۔ہمارے پٹھان کالم نگار دوستوں میں بعض ایسے بھی ہیں جن کی مو نث ،مذکر
کا استعمال عموما استہزا کا باعث بنتا ہے ۔غالبا وہ اردو زبان کے اسالیب و
اسرار کو پوری طرح نہیں جانتے۔انہیں اپنے الفاظ کے ذخیرے سے پوری طرح کام
لینا نہیں آتا۔اس وجہ سے ان کی تحریر دل پر اثر نہیں کرتی،ذہن میں جاگزیں
نہیں ہو تی، گہرا تاثر پیدا نہیں کرتی،وہ عوام کے ذہنوں کو وہ مسرت نہیں دے
سکتی جو اچھے لکھنے والے کا انعام ہو تا ہے۔
ادب کادامن بڑا وسیع ہوتا ہے مگر بحیثت ایک ادنیٰ کالم نویس ،میں اپنے کالم
نویس بھایؤں سے گزارش کروں گا کہ جب وہ تنقید کرتے ہیں تو وہ تنقید برائے
تنقید نہیں ہو نی چا ہیئے بلکہ غیر جانبدارانہ اور مثبت تنقید ہو نی چا
ہیئے۔کیونکہ معاشرے کی ترتیب اور علمی بسالت میں آپ کے قلم کا کردار بہت
اہم ہوتا ہے،ایک کالم نگار کی مثبت تنقید جمہوریت کا حسن ہو تی ہے۔جس سے
حکومتیں اپنی اصلاح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مزید ترقی کی منازل طے کرتی ہیں
۔ایک کالم نگار کی تحریر میں ایسی چیزیں عیاں ہو نی چاہیئں جو قوم کو نہ
صرف زندہ رکھے بلکہ حکومتِ وقت کو اپنی سمت درست رکھنے میں ممد و معاون
ثابت ہو ۔کالم نگاری ایک احساس کا نام ہے، لہذا اس احساس کے اظہار کو نہایت
ذمہ داری کے ساتھ نباہنا چاہیئے۔ |