آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے
:
"بندہ مال حرام کما کر( جب ) اس میں سے اللہ کے راستے میں کچھ خرچ کرتاہے
تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جاتا۔(مشکوٰة:۲)
ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر مذہبی رویوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور
جذباتی عدم توازن لمحہ فکریہ ہیں ۔آخر مسلکی اختلافات کو نفرت کی بنیاد
کیوں بنادیا گیا ہے۔
اس پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔
کہیں کالا دھن یا بلیک منی ہی تو ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا موجب نہیں؟
کیا یہ کالا دھن ہی تو معاشرے میں بڑھتی فرقہ واریت کا ذمہ دار نہیں ؟
ایسا ہونا عین قرین قیاس ہے۔۔
کیونکہ اکثر و بیشتر کاروباری حضرات حلال و حرام کی پرواہ کئے بنا پیسہ
کمانے کی دوڑ میں جٹے رہتے ہیں ۔
اسمگلنگ ، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی ااور ہیرا پھیری کے ذریعے دولت کمانا عام ہے
۔
وہ رشوت دیکر حکومتی اداروں کو تو رام کرلیتے ہیں ۔مگر لاشعور میں چھپا
احساس ندامت انکے ضمیر کو کچوکے لگاتا رہتا ہے۔
وہ شعوری طور پر تو اعتراف گناہ کر نہیں سکتے لیکن لاشعور میں چھپی ضمیر کی
خلش کو دور کرنے
کیلئے مذہب کی آڑ لیتے ہیں جیسے عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق پادری کے سامنے
اعتراف گناہ کرنے سے گناہ کا بوجھ ختم ہوجاتا ہے۔
تقریبا اسی نظریہ کو ہمارے اہل وطن نے قریب قریب اپنا لیا ہے۔ وہ اپنے ضمیر
کو مطمئن کرنے کے لیے دل کھول کر مساجد ومدارس میں اپنا کالا دھن خرچ کرتے
ہیں ۔ ان ہی مدارس میں کہ جہاں غریب و نادار بچے تعلیم حاصل کرکے مستقبل کے
علماء اور مفتی بنتے ہیں ۔
یہ نکتہ غور طلب ہے۔
ہمارے مولوی صاحبان کی اکثریت بچپن میں محرومیوں کا شکار رہی ہوتی ہے وہ
مخیر حضرات کی نوازشوں کو انکی ذرائع آمدنی جانے بغیر اپنی مالی آسودگی کا
وسیلہ جان کر نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ ایسے عناصر کو مذہبی شیلڈ بھی
فراہم کرتے ہیں۔
ایک طرح سے یہ باہمی مفادات کے تحفظ کا لیں دین ہوتا ہے۔
غیر قانونی ذرائع سے حاصل شدہ آمدنی کو جائز ثابت کرنے کے لئے ایسے علماء
سو سے اپنےحق میں من چاہا فتوی لینا چنداں دشوار نہیں ہوتا۔یہ کسی ماہر
وکیل کی طرح ایسی تاویلیں تراشتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
ایک بار کسی شکاری کے جال میں کبوتروں کے ساتھ کوا بھی پھنس گیا۔وہ بھی
کبوتروں کے ساتھ مل کر رونے لگا۔کبوتر وں نے حیران ہوکر پوچھا کہ تم تو
حرام ہو تمھیں تو شکاری اڑا دے گا پھر کیوں روتے ہو۔
اس پر کوا بولا کہ تم نہیں جانتے
یہ جال ایک مولوی کا ہے
وہ کوئی نہ کوئی فتوی دیکر مجھے حلال کرلیگا۔
مولوی صاحبان کے طرز عمل کا ہلکا سا اندازہ آپ انکے نمازیوں سے مصافحہ کے
انداز سے بخوبی لگا سکتے ہیں انکی گرمجوشی نمازی کی مالی اور سماجی حیثیت
کے مطابق گٹھتی بڑھتی رہتی ہے۔ موٹی آسامی ہوتو دونوں ہاتھوں سے مصافحہ
کرتے ہیں زیادہ موٹی ہو توبغلگیر ہونے میں دیر نہیں لگاتے ورنہ بیچارے ہم
جیسے غریب غربا تو خود ہی ہاتھوں کو چوم چاٹ کر الٹے قدم لوٹ جاتے ہیں ۔
ہماری محلہ کی مسجد کے صدر صاحب شہر کے مشہورومعروف سنار تھے۔
نمازجمعہ کے بعد پورا خاندان نہایت عاجزی و انکساری سے صندوقچیاں لیکر چندہ
جمع کرتا اور پھر مسجد کے صحن میں بیٹھ کر صنوقچیاں کھول کر پیسے گنتا تھا۔
یہ حضرات مبینہ طور پر سونے کے بہت بڑے اسمگلر تھے۔
ذیادہ تر مساجد کے انتظامی معاملات کاروباری لوگ ہی سنبھالتے ہیں ۔مسجد
کمیٹی کے صرر ؛سیکٹری جنرل خزانچئ جیسے عہدوں پر یہی جملہ کاروباری حضرات
متمکن ہوتے ہیں ۔
برسبیل تذکرہ زیادہ تر جھگڑے بھی انھی عہدوں اور اختیارات کے حصول کی دوڑ
کے لے ہوتے ہیں ۔
یہ ایک طرح کا اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔
عین قرین قیاس ہے کہ عہدہ انسان میں تکبر پیدا کردیتا ہے۔لہزا مساجد میں ان
انتظامی عہدوں کو خادمین کا نام دینا چاہیے تاکہ یہ عہدے تکبر کے بجائے
عجزو انکساری کا مظہر بن سکیں ۔
بڑی بڑی کاروباری شخصیات جوکہ مساجد کے اخراجات و معاملات میں بڑھ چڑھ کر
حصہ لیتی ہیں وہ بنیادی طور پر مذہبی تعلیم سے ناآشنا ہوتی ہیں لیکن اس بات
کی خواہش مند ہوتی ہیں کہ تمام مزہبی امور انکی منشا کے مطابق ادا ہوں۔امام
اور دیگر معلمین کے ساتھ انکا رویہ حاکمانہ ہوتاہے۔وہ دینی معاملات کو اپنے
ذہنی اور فکری معیار کے مطابق چلاتےہیں جس سے بسا اوقات نہایت عامیانہ اور
غیر علمی ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔مثلا
مقدس ایام میں مساجد کی تزئین آرائش جسطرح رنگ برنگی جھنڈیوں اور عامیانہ
انداز سے کی جاتی ہے وہ بہت سطحی محسوس ہوتی ہے اور حس لطیف پر گراں گزرتی
ہے۔
نعت خوانی کا تقدس پامال ہوچکا ہے۔پچانوے فیصد نعت خواں میراثی ہیں ۔جن کا
سارا زور آقا کی مدحت سرائئ کے بجائے سر تال لگانے پر ہوتا ہے تاکہ خوب نوٹ
کمائے جاسکیں ۔
پہلے نعت خواں کا پر سوز کلام کانوں سے دل میں اترتا محسوس ہوتا تھا اور
اشکوں کی صورت آنکھوں سے رواں ہوجاتا تھا مگر ہائے افسوس بدزوق عناصر نے
اسے فقط سماع خراشی بنا ڈالا ہے۔۔محفل میلاد اب صرف پروگرام کہلانے لگی ہیں
جو رات گئے جاری رہتا ہے ۔
روحانی غذا مفقود ہوتی یے اور اصل مطمع نظر لذت کام و دہن ہی ہوتا ہے۔
مولوی صاحبان چونکہ مسجد کمیٹی کے تنخواہ دار ہوتے ہیں حق گوئی کی صورت میں
مالی مفاد کو زک پہنچنے کا خطرہ اور نوکری بھی جانے کا احتمال ہوتا ہے لہڈا
یہ مصلحتا خاموش ہی رہتے ہیں مبادا کوئی بات انتظامیہ کی طبع نازک پر گراں
نہ گزر جائے ۔
جو مولوی صاحبان ہوشیار اور تیز طرار ہوتے ہیں جنکے مستقبل کے بلند عزائم
ہوتے ہیں وہ آہستہ آہستہ اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہیں پھر تمام انتظامی
معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔
یہ شعلہ بیان مقرر ہوتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے عوام خصوصا نوجوانوں کے
جذبات کو exspolite کرکے ایسا مضبوط حلقہ ارادت قائم کرلیں کہ جو ان پر جان
نثار کرتا ہو اس مقصد کے لے یہ زیادہ سے زیادہ اختلافی باتیں کرتے ہیں ۔
مسلکی اور فروعی اختلافات پر عقیدہ کی بنیاد رکھتے ہیں ۔اور فروعی اختلاف
کو ہوادیتے ہیں تاکہ اپنی دکانداری چمکا سکیں۔
بسا اوقات اس گناہ گار کو ایسے علما دکاندار لگتے ہیں جو اپنی اپنی دکانوں
پر اپنا سودا بیچ رہے ہیں جو جتنا اچھا سیلز مین ہے اتنا کامیاب ہے اور
عوام میں مقبول ۔
ایسے مولوی حضرات کاروباری ذہن بھی رکھتے ہیں ان کی مارکیٹنگ اسٹریٹیجی یہ
ہوتی ہے کہ نئے سے نیا مسئلہ،
نئی نئی گھتیاں الجھائی جاہئں تاکہ لوگ انھیں سلجھانے کے لے ان کا رخ کریں
۔
یہ بخوبی جانتے ہیں کہ لوگوں کو اپنے ساتھ کس طرح انگیج رکھا جاے۔
وہ اپنے ذاتی عزائم کے حصول کے لیے لوگوں کے جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے
فن میں ید طولی رکھتے ہیں۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے علما جلد سیاست میں آکر اقتدار کی غلام گردشوں کا
جزو لانفیک بن جاتے ہیں اور پھر جب اپنی منزل کو پالیتے ہیں تو وہی کروفر ،
بود و باش ٹھاٹ باٹ اختیار کرلیتے ہیں جوکہ ہمارے یہاں جاگیردار اور سرمایہ
داروں کا خاصہ ہوتا ہے۔
انتظامیہ ان کے تابع ہوجاتی ہے ، صاحبان اقتدار ہاتھ باندھ کر ان کے پیچھے
چلتے ہیں ۔ یعنی دین کی خدمت تو ثانوی ہوجاتی ہے دراصل اپنی ان محرومیوں کا
ازالہ کررہے ہوتے ہیں جن سے وہ بچپن میں دوچار رہے۔
پیارے نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے
: ”لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا ،جس میں انسان اس بات کی طرف دھیان نہیں
دے گا کہ وہ جو مال حاصل کررہاہے؛ حلال ہے یا حرام ۔“(مشکوٰة:۲۴۱)
درویش صفت علماء کرام گمنامی اور گوشہ نشینی میں ساری زندگی بسر کر دیتے
ہیں۔
خدا ترس لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو بغیر کسی صلے اور نمود ونمائش کے اپنی
تمام جمع پونجی راہ خدا میں خرچ کردیتے ہیں ۔
پہلے جامعات اور دارالعلوم وسیع تھے ۔طلبہ کی ذہنی وفکری سطح بھی بہت بلند
ہوتی تھی ،
جوں جوں مدارس کے سائز مختصر ہونے شروع ہوے ان سے فارغ التحصیل طلبہ کی
سوچیں اور فکر وعمل بھی پست ہوتے گئے ۔
وسعت نطری اور روشن خیالی پر تنگ نظری فرقہ واریت اور شخصیت پرستی غالب
آگئی۔
کیا یہی وجوہات تو نہیں کہ آج ازانیں تو سنائی دیتی ہیں مگر روح بلالی نہیں
سجدوں میں لطافت نہیں
دعاوں میں تاثیر نہیں
رقت آمیز دعاوں میں بھی اثر نہیں
یہی احساس غم تو نہ تھا کہ اقبال تڑپ کر بول اٹھے تھے~
وہ سجدہ زمین جس سے کانپ جاتی تھی
آج تڑپنے ہیں اس کو مسجد منبر ومحراب
|