غریب کی استطاعت ہی کیا تو وہ خواہشات پالے اور فراٸض کی
تکمیل کا سوچے۔خواہشات پالنے کا کام اصحاب استطاعت اور صاحبان ثروت کو زیبا
ہیں۔تاہم میں نے غربت کے باوجود بھی خواہشات پالی ہوٸی ہیں۔جن کے لیے بچپن
سے بلکہ بلوغت سے قبل ہی بیقراری کے عالم میں دعاٸیں کی۔ میں نے صرف چار
خواہشات اور تمناٸیں پالی تھیں۔
*١۔ کسی بھی صورت میں حرمین شریفین اور روضہ اقدس کی زیارت*
*٢۔ پروفیسر اور مدرس بننا*
*٣۔ٹوٹ کر چاہنے والی صاحب علم شریک حیات*
*٤۔اور والدین کی زندگی تاکہ ان کی خدمت کرسکوں*
أپ یقین کیجے یہ بہت ہی چھوٹی اور سچی خواہشات ہیں۔ ان کی تکمیل کے لیے میں
نے اللہ سے رو رو کر دعاٸیں بھی کی ہیں۔
میری والدہ بستر علالت پر ہے۔میں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر ان کا علاج
کرایا اور اتنی ہی خدمت بھی کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔الحمدللہ
میری چاہت تھی کہ والدہ کی زندگی میں ہی اس کی حج ادا کی جاوے۔میری ایک سگی
پھوپھی ہے جس کا پہلا رشتہ شادی کے فوراً بعد ٹوٹا پھر دوسری شادی کے لیے
اس وقت اس نے رضامندی دی جب بچے پیدا کرنے کی عمر گزر چکی تھی۔میں ہی
پھوپھی کا سب سے بڑا بھتیجا ہوں اور صاحب روزگار بھی۔ میری چھوٹی پھوپھی کی
کوٸی اولاد نہیں۔میں نے انہیں صاف بتادیا کہ *میں أپ کا بیٹا بھی ہوں بیٹی
بھی۔أپ اور میری والدہ میرے لیے برابر ہیں۔*
میں حتی الامکان کوشش کرتا کہ اس کو اولاد کا احساس ہونے نہ دوں۔اس لیے
والدہ کی حج کے ساتھ پھوپھی کی حج کا ارادہ بھی کرلیا اور تیاری پکڑ
لی۔ہمارے دیکھا دیکھی میرے ماموں اور اس کی واٸف(وہ بھی میری سگی پھوپھی
ہے) نے بھی سال 2019میں حج کا ارادہ کیا۔۔یوں ہم نے سال 2018 میں پیٹ کاٹ
کر 12 لاکھ روپے جمع کیے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ کچھ رقم بڑھا دی جاوے گی۔ اگر
فی کس زیادہ بڑھایا تو 20 ہزار سے زیادہ تو کسی صورت نہیں بڑھاٸیں گے۔لیکن
میرے اوسان اس وقت خطا ٕ ہوٸے جب 31 جنوری رات 10بجے حج پالیسی کی تفصیلات
پڑھی۔أپ یقین کیجے۔ میں سکتے کے عالم میں ہوں۔أگے کچھ سمجھ نہیں أرہا
ہے۔میں اور کزن(ماموں کے بیٹے) نے بچا بچا کر اور کچھ قرضے بھی لے کر 12
لاکھ روپے جمع کیے تھے۔ اب مزید ساڑھے 6 لاکھ روپے جمع کرنے ہیں۔اب أپ ہی
بتاٸیں کہ ہم چھ لاکھ کہاں سے لاٸیں۔ پورے سال کی پلاننگ چوپٹ ہوگٸی۔صاحب
خدا کے لیے مجھے استطاعت کا درس یا مسٸلہ مت بتاٸے گا۔یہاں مسٸلہ ہی محبت
کا ہے۔محبت میں استطاعت کا سوال ہی نہیں۔
میں علم سیاسیات کیساتھ دینیات کا بھی طالب علم ہوں۔ ادیان عالم اور علم
سیاسیات کی رو سے ریاستیں اور حکومتیں اپنے شہریوں سے استطاعت چھینتی نہیں
بلکہ رفاہی اور فلاہی ریاستوں میں شہریوں کو خود کفیل اور استطاعت والا
بنایا جاتا۔أپ مجھ سے ضرور اختلاف کیجے لیکن میرے جذبات اور چاہت و محبت کا
بھی قدر کیجے۔
صاحب أپ نے سنا ہوگا کہ
*عشق اور محبت میں سب کچھ جاٸز ہوتا*
یہ مقام ہی ایسا ہے کہ یہاں استطاعت اور فرض عین وکفایہ کو نہیں دیکھا
جاتا۔بس کر گزرنا ہوتا ہے۔ ان شا ٕ اللہ اگر اللہ نے نصیب میں لکھا ہے تو
کچھ بھی کرکے ہم دیار حبیب ﷺ میں پہنچ جاٸیں گے۔سچ یہ ہے کہ حکومت حج کو
کاروبار نہ بناٸے تو ڈھاٸی لاکھ سے بھی حج ہوسکتا ہے۔یہی راٸے کاروباری اور
معاشی ماہرین نے بھی ظاہر کی ہے۔
*کیا عازمین حج سے ہی پرافٹ کمانا ضروری ہے۔؟*
یہ جان لیجے۔چاہتوں اور محبتوں کے کاروبار میں نقصان اور خسارے کا سوال ہی
پیدا نہیں ہوتا۔
نقصان اور خساروں کے تخمینے وہاں لگتے ہیں جہاں قتل وغارت اور نفرتوں کا
کاروبار ہو۔
میں ہی جانتا ہوں کہ میرا تہجد گزار اور سفید ریش ضعیف ابا جان ، والدہ اور
پھوپھی کی حج کے لیے کیا کوششیں کرتے رہے ہیں سال بھر۔جب سے حج پالیسی کا
اعلان ہوا ہے میں سفر میں ہوں۔والدمکرم سے ملاقات نہیں ہوٸی ہے۔لیکن میں
سمجھ سکتا ہوں کہ یقیناً وہ تہجد کے وقت سب سے چھپ کر رویا ہوگا۔ کیونکہ
مجھ سے زیادہ کنٹربیوشن اپنی علیل شریک حیات اور بے اولا چھوٹی بہن کے لیے
والد گرامی کی ہے۔ وہ چھ ماہ سے مسلسل پاٸی پاٸی جوڑ رہے ہیں۔ والد صاحب
اپنی حج سے پہلے والدہ اور پھوپھی کی حج کے لیے بیقرار ہیں۔
یا اللہ!
غریب عاشقان رسول ﷺ نے کیا سوچا ہوگا پورا سال اور أخر میں ان کے ساتھ
ریاست مدینہ کے دعویداروں نے کیا کیا۔أپ ہزاروں سرکاری اور سیاسی لوگوں کو
مفت حج کرانے کا حرام کاروبار ضرور بند کیجے اور یہ روایت ختم کیجے مگر
صاحب !
غریب سے اس کی استطاعت نہ چھینے۔یہ تلخ حقیقت ہے کہ غریب کی اسطاعت تھی مگر
اب حکومت نے چھین لی ہے۔سبسڈی کا سوال ہی نے۔مجتہدانہ اور فقیہانہ راٸے یہی
ہے کہ لاکھوں شہریوں سے سبسڈی ختم کرنے کے عنوان سے ان کا بینادی حق چھین
لیا گیا اور ان کو بے استطاعت کردیا گیا۔اسلام کیا کوٸی جمہوری ملک بھی اس
کی اجازت نہیں دیتا۔اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کا چارٹر اور أٸین پاکستان
کی پہلی 20 دفعات ہی دیکھ لی جاوے اور سمجھا جاوے۔سب عیاں ہوجاٸے گا۔
اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ کسی کو یاد ہوکہ نہیں مگر مجھے یاد
ہے۔یوسف رضا گیلانی صاحب کے دور میں بھی حجاج کیساتھ ظلم ہوا تھا۔یاد کیجے
کرپشن کے ذریعے ظلم کا بازار گرم کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔کیا کیا
دھکے کھاتے رہے ہیں۔
ارے یار! حجاج کی خدمت تو مشرکین مکہ بھی کیا کرتے تھے اور ان کی بدعاٸیوں
سے ڈرتے تھے۔قزاق حجاج کرام کو صرف اس لیے نہیں لوٹتے کہ وہ بیت اللہ کے
مہمان تھے۔ لیکن خیر
عشاق مصطفی ﷺ اور بیت اللہ کے پرستار کسی طرح پہنچ ہی پاٸیں گے۔ عشق کی
منزلیں ایسے ہی طے ہوتی ہیں۔سخت گھاٹیاں أجاتی ہیں۔مشکلات راستہ کاٹ ہی
لیتی ہیں۔أپ ﷺ کو بھی تو حج سے روکا گیا تھا مگر پھر کیا ہوا۔ تاریخ عیاں
ہے۔اللہ ہم سب کا حامی ناصر ہو۔أپ سے مشورے نہیں چاہیے اور نہ ہی فقہی
نکتوں کی تشریح۔ کرسکتے ہیں تو دعا کیجے کہ اللہ أسانی کا معاملہ فرماٸے۔
تو
احباب کیا کہتے ہیں؟ |