(اس مضمون کے بنیادی خیال اور ترتیب میں سوشل میڈیا پر
وائرل تحاریر سے استفادہ کیا گیا ہے)
پاکستان اپنے عازمین حج کی زیادہ تعداد کے لئے دنیا بھر میں ایک ممتاز مقام
رکھتا ہے. حج و عمرہ زائرین اللہ کے مہمان ہوتے ہیں اور بعثت اسلام سے قبل
سے لے کر اسلام کے خیر القرون خلفاء اور مابعد ادوار کے سبھی حکمران زائرین
کعبہ کی خدمت اور سہولت رسانی کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے رہے ہیں.
موجودہ دور میں بھی سرکاری سرپرستی میں باسہولت حج کے انتظامات اکیلا
پاکستان نہیں کرتا بلکہ دنیا بھر کے امیر و غریب ممالک اپنے عازمین حج کے
لئے خصوصی مراعات اور کرایہ سبسڈی کی پرانی روایت رکھتے ہیں. انڈونیشیا،
ایران، بنگلہ دیش، ملائشیا اور غیر مسلم بھارت، سری لنکا، چائنہ اور
برطانیہ بھی اپنے حجاج کرام کے لئے سہولیاتی پیکج اور خصوصی فیاضی کا
مظاہرہ کرتے ہیں. لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے حاجی صاحبان نہ صرف
برادر ملک سعودی عرب کے لئے ایک بڑا معاشی سہارا ہیں بلکہ اپنے اپنے ممالک
کی حکومتوں کے لئے بھی اچھی خاصی خیر و آمدن کا باعث بنتے ہیں.
خلقِ خدا نے سادہ سا سوال اٹھایا تھا کہ حج اتنا مہنگا کیوں کر دیا گیا اور
سبسڈی رعایت کیوں واپس لی؟ پھر کیا تھا کہ ملک الشعراء نے سبسڈی کی قوالی
ہی چھیڑ دی ؛...
صاحب کیا سبسڈی لے کر حج کرو گے؟ کیا سبسڈی پر حج ہو سکتا ہے؟ جب استطاعت
نہیں ہو تو حج کی خواہش ہی کیوں رکھتے ہو؟ کیا ہم بھی سابق حکومت کی طرح بے
دریغ سبسڈی دیں؟ کیا ہم بھی قومی خزانہ لٹا دیں ؟
تو جناب حج کے لیے تنکا تنکا جمع کرنے والوں کی جانے بلا کہ سبسڈی کیا ہوتی
ہے... عام آدمی کا سوال یہ ہے کہ نئے پاکستان میں حج اتنا مہنگا کیوں ہو
گیا اور مدینے کی ریاست میں مدینے کی مسافت اتنی طویل کیسے ہو گئی ؟
کیا حکومت کو معلوم ہے کہ ہمارے لوگوں کی حج سے وابستگی کیسی ہے اور اس
مسئلے پر معاشرے کی حساسیت کا عالم کیا ہے؟
اس حکومت کو اپنے فارن کوالیفائیڈ مشیران کرام کی ولائتی پیشہ وارانہ
صلاحیتوں پر شاید اتنا زعم اور بھروسہ ہو چلا ہے کہ اب سماج سے لا تعلق ہو
کر یوں بےدریغ فیصلے بھی کئے جا رہے ہیں. حیرت ہوتی ہے اور دکھ بھی ، کس
برفاب اور بے رحم لہجے میں کہہ دیا جاتا ہے کہ استطاعت نہیں ہے تو حج نہ
کرو ۔ کیا استطاعت کی شرط کا مطلب یہ ہے کہ جتنا چاہو حج اخراجات بڑھا دو
کوئی سوال نہ کرے ۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو عوامی اکثریت زندگی میں ایک
بار ہی کرتی ہے اور اس ایک حج کے لیے یہاں کے لوگ ساری عمر پائی پائی اکٹھی
کرتے رہتے ہیں ۔ متمول صاحبان استطاعت تو سپانسر کے بغیر بھی مہنگے حج پیکج
بخوشی قبول کرلیتے ہیں. بات ایک پسماندہ ملک کے عوام کی ہو رہی ہے کہ بین
الاقوامی حج اخراجات اور سفری فیسوں کے بوجھ کو حکومت اگر اپنے عوام کے لئے
کچھ کم رکھ سکتی ہے تو کیوں نہیں ایسی اسکیم جاری رکھتی. کتنے لوگوں نے اس
بار بھی برسوں کی خواہشات کا گلا گھونٹ کر کچھ روپے اکٹھے کیے ہوں گے ۔ اب
اچانک انہیں بتایا جا رہا ہے کہ خرچ تقریباً ڈیڑھ گنا ہوگا. آپ کے پاس
اضافی پیسوں کا انتظام نہیں ہے تو گھر بیٹھیں ، کیونکہ استطاعت نہیں تو حج
پر جانے کی کیا ضرورت ہے ۔ یعنی یہ لوگ اب آئندہ حج کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ پائی
جوڑیں گے اور کچھ بعید نہیں کہ اگلے سال حج مزید مہنگا کر دیا جائے اور وہ
ایک بار پھر اس سے محروم رہ جائیں.
حکومت کو حج پر رعایت یا سبسڈی دینا گوارا نہیں ہے تو فرٹیلائزر ، ٹیکسٹائل
وغیرہ انڈسٹری مالکان کو سرچارج کے 125ارب روپے معاف کیوں کیے گئے؟ حج پر
سبسڈی دی بھی جاتی تو صرف 9 ارب کے قریب رقم بنتی ہے ۔ نو ارب کا ریلیف
دینا گوارا نہیں تو ایک سو پچیس ارب کیوں معاف کر دیے گئے؟
محترم وزیر خزانہ پر ایک کڑی تنقید یہ بھی ہے کہ روزنامہ 92 نیوز میں سہیل
اقبال بھٹی کی رپورٹ کے مطابق صرف اینگرو فرٹیلائزرز کو 16 ارب روپے کا
سرچارج معاف کر دیا گیا۔ یہ اینگرو وہی ادارہ ہے جس میں موجودہ وزیر خزانہ
جناب اسد عمر کسی زمانے میں ملازمت کیا کرتے تھے ۔ پوری قوم کے حجاج کو 9
ارب کا ریلیف نہ دینے والے اسد عمر بتانا پسند کریں گے کہ اینگرو کو 16 ارب
کیسے اور کیوں معاف کیے گئے جب کہ سرچارج کی یہ رقم اینگرو عوام سے تو وصول
کر چکی ہے مگر خزانے میں جمع نہیں کرا رہی اور معاف کرنے والوں نے متعلقہ
وزارتوں اور اداروں سے رائے لیے بغیر اور کابینہ ایجنڈے میں شامل نہ ہونے
کے باوجود یہ معافی کیسے دے دی؟
اگر حج صرف صاحب استطاعت پر فرض ہے تو اینگرو کے مالی معاملات سے چشم پوشی
کرنا اور انڈسٹری کو سرچارج کے 125 روپے معاف کرنا, کب سے فرض عین ہو چکا
ہے؟ ہمارے پیسوں سے اگرحج میں سبسڈی نہیں دی جا سکتی تو ہمارے پیسے اینگرو
کو کیسے معاف کیے جا سکتے ہیں ؟
صرف سبسڈی پر سوال نہیں سوال خلوص نیت کا بھی ہے۔ کیا حکومت نے حج اخراجات
کم کرنے کے لیے کوئی اور سنجیدہ کوشش کی ہے؟ گذشتہ حج کے موقع پر یہاں سے
ایک وفد سعودی عرب گیا اور رہائش کے اخراجات 3800 ریال سے کم ہو کر 1700
ریال ہو گئے ۔ کیا موجودہ حکومت نے بھی ایسی کوئی کوشش کی؟ کہاں لکھا ہے کہ
سعودی عرب میں حجاج کے قیام کا دورانیہ کم نہیں ہو سکتا ؟ اس دورانیے کے کم
ہونے میں کس کا مفاد رکاؤٹ ہے؟ حج اور عمرہ کے شعبے سے وابستہ لوگوں کا
دعوی ہے افراط زر اور مہنگائی کے تناسب سے آج حج کے اخراجات 3 لاکھ40 ہزار
سے زائد نہیں ہونے چاہییں ۔ کیا کوئی حکومتی مشیر وضاحت فرمائیں گے کہ
حکومت نے ساڑھے چار لاکھ کا فیصلہ کیسے کر لیا ؟ یہ کب کہاں اور کیسے طے کر
لیا گیا کہ حج اخراجات کا حکومتی بوجھ کم کرنے کا واحد راستہ سبسڈی ختم کر
دینا ہی تھا؟
اب ایک اور افسوس ناک حقیقت کی طرف آتے ہیں. یہاں پاکستان میں حج معاملات
اور انتظامات حکومت نے اپنے کنٹرول میں رکھے ہیں اور اس مقصد کے لئے
باقاعدہ وزارت اور سیکرٹیرییٹ موجود ہے. لیکن روایت یہ رہی ہے کہ حج کے
سیزن میں کرایہ جات اور تمام سرکاری خدمات درخواست فیس وغیرہ کے ریٹ ویسے
ہی بڑھا دئیے جاتے ہیں. مثال کے طور پر جدہ کے لئے عام کمرشل پرواز 2018ء
تک اوسطاً پچیس ہزار روپے یکطرفہ کرایہ یعنی لگ بھگ دو-طرفہ پچاس ہزار، اس
کے مقابلے میں عمرہ ٹکٹ دو-طرفہ پچھتر ہزار روپے اور حج کی خصوصی پروازوں
کے لئے تقریباً ایک لاکھ روپے تک ٹکٹ مقرر مقرر ہے. یعنی منزل بھی وہی ہے
سواری بھی وہی صرف موقع کے فرق سے کرایہ میں اضافہ کردیا جاتا ہے. ابھی اس
سال اس حج کرایہ میں کتنا اضافہ کیا جاتا ہے نئے حکمنامے کی قوم منتظر ہے.
آپ دیکھیں کہ صرف حج پروازوں پر حکومت اپنے مقرر کردہ نرخوں پر کئی گنا
ٹیکس اضافے سے ہی اربوں روپے کمائی کرلیتی ہے. ائرلائنز کا تعین اور منظوری
بھی حکومت ہی کرتی ہے اور ایسا سال ہا سال سے ہورہا ہے. وہ الگ بات ہے کہ
حرمین شریفین کی حاضری اور ادائیگی فرض کے جذبہ سے سرشار حاجی حضرات ان
اضافوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتے اور اسے بھاؤ تاؤ کا موقع نہیں جانتے. اس
طرح ہرسال ہمارے لاکھوں زائرین عمرہ و حج نہ صرف اپنی حکومت بلکہ مقامی
ائرلائنز اور مالیاتی اداروں کے لئے بھی خطیر منافع کا مضبوط ذریعہ ہیں.
لیکن اس کے علاوہ بھی حکومت ہمیشہ ایک چور دروازے سے ہر سال حج درخواستوں
کی مد میں اربوں روپے کمائی کر لیتی ہے، کیسے؟ یہ وضاحت ذرا آگے چل کر کرتے
ہیں.
ایک غور طلب سوال یہ بھی ہے کہ حکومت حج کے معاملات میں سہولت نہیں دے سکتی
تو حج انتظامات پر سرکاری کنٹرول اور اجارہ داری کیوں قائم رکھے ہوئے ہے؟
اس شعبہ کو بھی پرائیویٹ کرکے حج معاملات پرائیویٹ اداروں کو کیوں نہیں
دیکھنے دئیے جاتے ۔ نجی شعبہ اسے دیکھے گا توہو سکتا ہے کہ سابقہ وزارت حج
اور متعلقہ بیوروکریسی جیسی لوٹ مار کی خوفناک کہانیوں سے حاجیوں کو نجات
مل جائے اور آزاد تجارتی خدمات اور مسابقت کے ماحول میں خود ہی قیمتیں نیچے
آ جائیں اور کچھ شفافیت پیدا ہو سکے ۔ لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ حکومتوں
نے حج کو نہ صرف کاروبار بلکہ لوٹ مار کا ذریعہ سمجھے رکھا ہے ۔ حکومتیں
اپنی ذمہ داری بھی ادا نہیں کرتیں اور اس نفع بخش کاروبار سے دست بردار بھی
نہیں ہوتیں ۔ حج ایک عبادت ہے اور آئین پاکستان کی رو سے حکومت پابند ہے کہ
لوگوں کو اس باب میں سہولیات فراہم کرے ۔ اگر حکومت نے یہ کام نہیں کرنا تو
حج اور مذہبی امور کی وزارت کیوں قائم کی گئی ہے اور اس پر اخراجات کیوں
اٹھائے جا رہے ہیں ۔ وزارت مذہبی امور حج اور عمرے کے علاوہ آخر کرتی ہی
کیا ہے ؟ سال میں ایک حج کے معاملات بھی اگر یہ محکمہ اچھے طریقے سے نہیں
دیکھ سکتا تو اس کی افادیت کیا ہے؟
اب انتظامات حج سے حکومتی آمدن کے چور دروازے کی طرف آتے ہیں. یہ عجیب
تماشا ہے کہ حج کے نام پر ہر حکومت کھاتی اور کماتی تو بہت ہے لیکن ریلیف
دیتے وقت احسان جتاتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ حاجیوں سے سارے پیسے درخواستوں
کے ساتھ ہی وصول کر لیے جاتے ہیں جبکہ قرعہ اندازی مہینوں بعد ہوتی ہے اور
ناکام امیدوار کو رقم کی واپسی اور بھی تاخیر سے ہوتی ہے۔ یہ تجویز بارہا
دی گئی کہ حج امیدواروں سے ساری رقم درخواستوں کے ساتھ نہ لی جائے ۔ کچھ
رقم لے لی جائے اور کچھ رقم اس وقت وصول کی جائے جب قرعہ اندازی میں نام آ
جائے لیکن وزارت مذہبی امور اور حج سیکرٹیریٹ اسے ماننے کو تیار نہیں۔ ایک
وفاقی وزیر مذہبی امور سے نجی طور پر یہی سوال جب پوچھا گیا تو انہوں نے
رہنمائی فرمائی کہ یہ سارے پیسے بنک میں رکھ کر وزارت مذہبی امور اس پر سود
وصول کرتی ہے۔ گذشتہ سال سوا تین لاکھ لوگوں نے درخواستیں جمع کرائیں ۔ اگر
اتنے ہی لوگ اس سال درخواستیں جمع کرائیں تو یہ ایک کھرب اڑتیس ارب بارہ
کروڑ روپے بنتے ہیں ۔ یہ رقم چار پانچ ماہ بنکوں میں پڑی رہے گی تو اندازہ
لگائیں کہ حکومت اس پر کتنا سود بینکوں سے وصول کرے گی اور بینک علیحدہ سے
اس پر کتنا منافع کمائیں گے۔ اس رقم پر صرف ایک فیصد ماہانہ سود بھی حکومت
کو ہر سال سات آٹھ ارب روپے کی سود وصولی کروا دیتا ہے.
اب سوال یہ ہے اگر سبسڈی دینا گوارا نہیں تو حاجیوں کے پیسوں پر سود کھانا
کیوں گوارا ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس رقم پر جتنا سود وصول فرمایا جائے گا کیا اتنی
سبسڈی بھی نہیں دی جا سکتی؟
بات خزانے کی بچت اور اخراجات کی نہیں ہے بلکہ ترجیحات کی ہے. ہمارے محترم
وزیراعظم معاشرے کے مہمل اور بے گھر افراد کی کفالت اور خدمت سے ملنے والی
دعاؤں کی برکت پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ان کی کابینہ اسی
ربّ مستجاب الدعوات کے در پر حاضری کے متمنی حضرات کے فریضہ حج میں مالی
تعاون کو خزانہ کے بوجھل اسراف سے تعبیر کر رہی ہے؟ کیا زائرین حرمین
شریفین انسان ہونے کے ناطے انسانی خدمت پر اپنے حکمرانوں کے حق میں صحن بیت
اللہ میں دعاگو نہیں ہوتے ہوں گے. بات وہی ترجیحات کی ہے کہ آپ مذہبی
رسومات و مناسک کی ادائیگی کو کتنا اہم سمجھتے ہیں. اگر یہی طور اطوار روا
رکھے گئے تو کل کلاں ذبیحہ قربانی پر بھی استطاعت کے نام پر قربانی محصول
لگنے کا امکان ہے!
|