تحریر: زید حارث
قرآن مجید ہمارے لئے ایک ضابطہ حیات اور نظام زندگی ہیاور ہمیں ہر مسئلے
اور پریشانی حل فراہم کرتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید ہمارے معاشرے کے امن کا
ضامن بھی ہے لیکن افسوس کہ ہمیں اس قرآن کے ترجمے و تفسیر سے محروم کر دیا
گیا۔حالانکہ انسانی زندگی کے ہر مسئلے کا حل اس کتاب میں موجود ہے۔خوش نصیب
ہیں وہ لوگ جو اس کو سمجھ لیتے ہیں اور وہ معاشرہ امن کی مثال ہوتا ہے جس
کے رہنے والے قرآن کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔حالیہ دنوں میں پیش آنے
والا سانحہ ساہیوال کربناک اور افسوسناک ہے ہر زندہ دل رکھنے والا اس واقعے
سے لرز چکا ہے یہ واقعہ سوال ہے حکومت اور ریاستی اداروں کے لیے۔
یہ واقعہ سوال ہے ملک کی پولیس کے لئے۔
یہ واقعہ سوال ہے ملک کے عدالتی نظام کے لئے۔
یہ واقعی سوال ہے ملک کے قانون نافذ کرنے والوں اداروں کے لیے۔
یہ واقعہ سوال ہے اقتدار میں بیٹھے ان اشخاص کے لیے جو اس ملک کو ریاست
مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا عزم رکھتے ہین۔
لیکن ہمارا رویہ ایسے سوانح و حادثات میں کیا ہونا چاہئے؟
آئیے اس حوالے سے قرآن مجید سے رہنمائی لیتے ہیں۔
اﷲ تعالی فرماتے ہیں۔
النساء۔83
ترجمہ:اور جب ان کے پاس کوئی امن یا خوف کی خبر آتی ہے وہ اس کو مشہور کرتے
ہیں اور اگر وہ اس کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور ذمہ داران کہ طرف لوٹاتے تو
یقینا اس کو وہ لوگ جان لیتے جو ان میں سے اس کی تحقیق کرتے ہیں۔اور اگر اﷲ
کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے چند کے علاوہ تم شیطان کی
پیروی کرتے۔
اﷲ تعالی ہمیں اس آیت میں ایک اصول سمجھا رہے ہیں کہ معاشرے میں پھیلنے
والی ہر خبر پہ جں ہر شخص تجزیہ و تبصرہ کرے گا تو معاشرے کا امن فساد اور
اطمینان انتشار میں بدل جائے گا۔اﷲ تعالیٰ یہ بھی سمجھا رہے ہیں کہ یہ
منافقوں کی نشانی ہے۔
اور یہ بھی سمجھا رہے ہیں کہ تحقیقات سلطنت، ریاست اور معاشرے کے ذمہ داروں
پر یہ واجب ہے کہ وہ اس کی تحقیق کریں اور اس معاملے کی حقیقت تک پہنچیں۔
اور اﷲ تعالی یہ بھی سمجھا رہے ہیں کہ معاملے کی تحقیق کرنا مقرر کیے گئے
چند لوگوں کی ذمہ داری ہے۔
اور یہ بھی سمجھا رہے ہیں کہ معاملے تحقیق کئے بغیر تم جو فساد پھیلاتے ہو
اگر اﷲ تم پہ اپنا فضل نہ کرے تو تم شیطان کے پیچھے چلو اور تباہ و برباد
ہو جائے۔
یقینا ہر معاشرے اور ہر ادارے میں کچھ ناسور ہوتے ہیں۔
ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ناسور بعض اداروں میں زیادہ اور بعض میں کم
ہیں۔ہر گھر اور ہر خاندان میں ناسور ہوتے ہیں۔
کیا ان ناسوروں کی وجہ سے سارا گھر اور سارا خاندان گندا کرنا عقلمندی اور
انصاف ہے؟
ان ناسوروں کی وجہ سے سب کے کردار پہ دھبہ لگا دینا عدل ہے؟
کیا ان ناسوروں کی وجہ سے باقی سب اچھے کاموں کو خرابی کے گھڑے میں ڈال
دینا انصاف ہے؟
ہمارے حکمران اپنی بے شمار غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود بار بار اس بات
کی یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ انصاف کیا جائے گا۔ملک کے ذمہ دار ادارے اس
کے لئے کوشاں ہیں۔
پہلی ہی رپورٹ سے تحقیقات سامنے آگئیں۔ان تحقیقات پر صوبے کے وزیر اعلیٰ نے
بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا اور دوبارہ پھر تحقیقات جاری ہیں۔
اور پھر اس پاکستان کے منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ میں اپوزیشن
بھی موجود ہے جو ایسے حادثات پہ حکومت کو اس کا فرض یاد کرواتی اور اپنی
ذمہ داری ادا کرتی ہے۔ وہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کو اس کا کردار ادا کرنے
کے لئے جھنجوڑ رہی ہیں اور حکومت کو اس مسئلہ میں کسی مفاہمت و مداہنت سے
کام نہ لینے پہ مسلسل یاد دہانی کروا رہی ہیں۔
میڈیا کے ذمہ دار حکومت کے ذمہ داران کو مسلسل اس حادثہ کی تحقیقات پہ سوال
کر رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم تجزیہ و تبصرہ اور سوشل میڈیا پہ انتشار
پھیلانے میں اپنا حق کیوں سمجھتیہیں۔ہمیں ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے
کر ملک کے نظام اور قانون کو دنیا میں مزاح بنانے کا سبب نہیں بننا چاہئے۔
ہمیں ایک سلیقہ مند قوم اور ایک مہذب معاشرہ اور ایک ایسی کمیونٹی ہونے کا
ثبوت دینا چاہئے جن کے ہر رویے سے قرآن کی تعلیمات جھلکتی اور ٹپکتی نظر
آئیں۔
ہم مسلمان ہیں۔
ہم مہذب قوم ہیں۔
ہمارا تمدن سب سے اعلی ہے۔
ہماری عادات و اطوار و اخلاق و کردار و تعاملات بھی سب سے اعلی ہونا چاہئے
اور اپنے اندر مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں اہل ایمان کی صفات پیدا کرنی
چاہئیں اور منافقین کی صفات سے اپنے آپ کو صاف کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں ملک
کی عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور صاحب اقتدار افراد کی زمہ داری
بنتی ہے کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی سے مکمل شفاف تحقیقات کرکے متعلقہ
واقعے پر جاں بحق افراد کے لواحقین کو انصاف فراہم کرئے تاکہ ملک کی عوام
کو بھی اپنے اداروں، عدلیہ اور حکومت پر مکمل اعتماد قائم ہو اور آئندہ
ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
|