عاقب نے پوچھا کہ حضور اکرم ﷺ کی
رحمت سے آج کی قومیں کیسے فائدہ اٹھا سکتی ہیں ؟ آپ ﷺ تو چودہ سو سال پہلے
دنیا سے تشریف لے گئے ۔ ابو نے کہا کہ آپ ﷺ کی تعلیمات ہمارے پاس موجود ہیں،
حضور اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی جماعت صحابہ نے جس طرح قرآن حکیم تعلیمات پر عمل
کیا ، جس طرح ظلم کا مقابلہ کیا ، ابو جہل کے ظلم کو ختم کیا ، قیصر ( روم
کا بادشاہ ) اور کسریٰ ( ایران کا بادشاہ ) کو شکست دے کر دنیا میں امن
قائم کیا ، معاشرہ کو ترقی دی ، عدل قائم کیا ، پوری دنیا میں خوشحالی پیدا
ہوگئی ، خوف اور دہشت کا خاتمہ ہوگیا اور امن عام ہوگیا ، آج بھی ہم اپنے
معاشرہ سے بھوک ختم کریں ، خوشحالی لائیں ، دہشت گردی ختم کریں، امن لائیں،
اس طرح آپ کی تعلیمات ہمارے لئے رحمت بن جائیں گی ۔ عاقب نے پوچھا ابو جان
جب انسانیت ایسے مصیبت میں گھری ہو ،جس طرح کہ ہمارا وطن سیلاب کی تباہ
کاریوں سے دو چار ہے تو حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات ہمارے لئے کیا راہنمائی
کرتی ہیں ؟
عاقب کے ابو نے کہا کہ اس پیارے ملک میں رہنے والے لوگ سب مسلمان ہیں ،
مسلمان کے مسلمان پر بہت زیادہ حقوق تو ہیں ، دین اسلام کی تعلیمات اور
حضور اکرم ﷺ کی سنت تو ہمیں غیر مسلموں کے حقوق بھی بتلاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ
اور آپ ﷺ کی جماعت صحابہ جب ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ گئے تو مکہ سے آنے
والے لوگوں کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، یہ اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ آئے تھے ،
حضور اکرم ﷺ نے مہاجرین ( ہجرت کرنے والے ) اور انصار ( مدینہ میں رہنے
والے جنہوں نے صحابہ کی مدد کی ) میں مواخاة ( بھائی چارہ ، ایک دوسرے کا
بھائی بن جانا ) کرو ا دیں، مدینہ کے انصار نے اپنا تمام مال مکہ سے آنے
والے بھائیوں کے درمیان آدھا آدھا بانٹ لیا ۔اسی طرح مکہ کے یہود اور مشرک
قبائل کے ساتھ بھی معاہدہ کیا۔ جس مدینہ کے پورے علاقہ میں امن قائم ہوگیا۔
ایک مرتبہ مکہ میں قحط آگیا ۔ قریش بہت پریشان ہوگئے حالت یہاں تک ہوگئی کہ
کئی کئی دن بھوکا رہنا پڑتا ، قریش مکہ کو کسی طرف سے غلہ نہیں مل رہا تھا،
ان دنوں میں ایک ہی جگہ سے غلہ مل سکتا تھا، وہ حبشہ کا علاقہ تھا، جہاں کا
بادشاہ نجاشی تھا ، نجاشی حضور اکرم ﷺ سے محبت اور عقیدت رکھتا تھا ، ابو
سفیان نے حضور اکرم ﷺ کے پاس اپنے لوگوں کو بھیجا کہ ہماری مدد کریں ، ابو
سفیان اور مکہ کے لوگوں نے حضور اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ پر بہت ظلم ڈھائے
تھے ، صحابہ کو کوئلوں پر لٹایا گیا ، سولی پر چڑھایا گیا، تکلیفیں دے کر
شہید کیا گیا ، مارا پیٹا گیا ، تین سال تک مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت
کو ایک وادی میں بند کر دیا گیا اور کسی قسم کا کھانا پینا دینے پر پابندی
لگا دی اور تمام تعلقات کو ختم کر دیا گیا ،تین سال تک آپ ﷺ اور آپ کی
جماعت بھوکی پیاسی رہی ،تکلیفیں دینے کا یہ سلسلہ رکا نہیں۔ آخر کار اللہ
کے حکم سے آپ ﷺ اور آپ کی جماعت نے مکہ سے ہجرت کی۔
لیکن مکہ میں قحط پڑنے پر ،مصیبت کی اس گھڑی میں،جب ابو سفیان نے مدد کی
درخواست کی تو آپ نے اللہ سے قحط ختم کرنے کی دعا مانگی ، نجاشی کو سفارش
بھی کی ،نجاشی نے مکہ والوں کو غلہ بھجوایا ،جب مکہ فتح ہوا تو حضور اکرم ﷺ
نے عام معافی کا اعلان کر دیا ، آپ ﷺ کی رحمت سب کے لئے عام تھی ، ابو نے
عاقب کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ہماری بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس
رحمت کے جذبہ کو معاشرے میں عام کریں ،ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں ،
کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کریں، ہر ایک دوسرے کا حق دے، اسی دور کی بات ہے
کہ ایک اشعری قبیلہ تھا ، جو مسلمان نہیں تھا ، حضور اکرم ﷺ نے انکی تعریف
کرتے ہوئے فرمایا کہ اشعری بہت اچھے لوگ ہیں ، اگر ان کو مشکل آتی ہے تو یہ
مل جل کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں اگر مال اور کھانے پینے کی تنگی آئے تو یہ
لوگ اپنا تمام مال و اسباب اکٹھا کر لیتے ہیں اور پھر آپس میں برابر تقسیم
کر لیتے ہیں ، ہم مسلمان ہیں ایک ملک میں رہتے ہیں ، ہمارے وطن کے لوگ
سیلاب کی مصیبت سے دو چار ہیں یہاں حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات ہماری راہنمائی
کرتی ہیں کہ یہاں کے حکمران اور امیر لوگ اپنی دولت معاشرے میں تقسیم کر
دیں تاکہ سب لوگ خوشحال ہو جائیں۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمیں اس معاشرے میں
حضور ﷺ کے جذبہ رحمت کو پھیلانے کیلئے آپ کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا ،
پھر اللہ کی رحمت کا نظام جو حضور ﷺ نے ہمیں سمجھایا،اسے معاشرے میں غالب
کرنا ہوگا ۔ |