ان دنوں میں عاقب کا ذہن ایک ہی
بات سوچ رہا تھا، کہ وہ اس سال رمضان المبارک کے تمام روزے رکھے گا ، وہ
روزانہ اپنی والدہ کے سامنے یہ بات دہراتا، ابھی رمضان المبارک کی آمد میں
10 دن باقی تھے، موسم بھی بہت اچھا تھا، جوں جوں دن گزرتے گئے اس کا ارادہ
مضبوط ہوتا گیا ،پچھلے سال رمضان المبارک کی اہمیت اور اس کی فضیلت پر اس
کی امی نے جو کچھ بتایا تھا وہ سب باتیں اسے یاد تھیں ۔
رمضان المبارک کا چاند نظر آیا تو عاقب کی خوشی کی انتہاء نہ تھی ، اس نے
رات کو جلدی سونا شروع کر دیا ،تا کہ سحری میں جلد آنکھ کھل جائے ، ابھی
پانچ یا چھ روزے ہی گزرے تھے ،کہ گرمی بڑھنے لگ گئی ۔بارہویں روز ہ میں عا
قب کی گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہو گئیں، اب تو روزے کے ساتھ سکو ل بھی جانا
ہوتا تھا ۔عا قب کی امی کو فکر ہو ئی کہ اس کی صحت کمزور ہے ،پھر سکول
ٹیوشن،ہو م ورک کی مصرو فیات اور گر می بھی بڑھتی جا رہی ہے۔وہ اسے سمجھا
تیں کہ ایک دو روزے چھو ڑ دو ۔ مگر عا قب کسی صو رت بھی روزہ چھو ڑنے کو
تیا ر نہ تھا ۔
انہی دنو ں میں پیا رے پاکستا ن پر ایک ناگہانی آفت آگئی ۔ہر طرف سیلاب ہی
سیلاب کی خبریں تھیں،کئی لو گو ں کے گھر گر گئے ۔کئی لو گ اس پانی میں ڈوب
گئے ۔کا شتکارو ں اور کسانو ں کی فصیلں تباہ ہو گئیں۔ ان کے ما ل مو
یشی(گائے ،بھینس،بکری وغیرہ)پا نی بہا کر اپنے ساتھ لے گیا ۔عا قب کی امی
یہ سب کچھ خبر و ں میں سنتی تھیں،عا قب کو بھی بتاتی تھیں۔عا قب کے ذہن میں
اب یہی سو ال رہتے کہ، جن کے گھر ختم ہو گئے، وہ اس گرمی میں کہاں رہتے ہو
ں گے۔ کھانا کیسے کھا تے ہوں گے ؟چھو ٹے ننھے منے بچوں کو دودھ کو ن دیتا
ہو گا؟
ایک دن عا قب سکو ل سے واپس آیا تو اس کا پیا س سے بر ا حا ل تھا ۔اس روز
دھو پ بھی بہت سخت تھی۔ عا قب کی امی نے کہا کہ روزہ توڑ لو ۔تم ابھی چھو
ٹے ہو ، تم پر روزے فرض نہیں ہوئے،پہلے تو ما نا نہیں۔لیکن جب اس کی امی نے
زیادہ زور دے کر کہا ،اس کے سا منے پا نی اور کھا نا لا کر رکھا، تو رو زہ
کھولنے کیلئے وہ تیار ہو گیا ۔ابھی اس نے پا نی کا گلا س منہ کے قریب ہی
کیا تھا ،کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک خیا ل آیا ،اس نے امی سے پو چھا کہ
امی جا ن سیلاب کی وجہ سے مصیبت میں گھر ے ہو ئے لوگوں کا کیا حا ل ہو گا ؟
میں نے تو را ت بھی کھا نا کھا یا، صبح بھی کھا نا کھایا ، اس وقت میں اپنے
گھر میں ہو ں،پنکھا چل رہا ہے ۔ائر کنڈیشنڈ میں سوتا ہوں۔ ضررو ت پڑ نے پر
نہا لیتا ہو ں،کپڑے بھی تبدیل کرتا ہو ں۔ مجھے یہ بھی تسلی ہے کہ شا م کا
کھا نا بھی کھا ﺅ ں گا ۔مگر سیلا ب میں گھرے بچو ں کے پا س کچھ بھی نہیں ہے
۔ وہ کیسے گزارہ کر تے ہو ں گے ۔اس نے اپنی امی سے کہا کہ آپ ہی نے تو
بتایا تھا ،روزہ کی عبادت تو ہمارے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے ،کہ ہم نے
ان کمزور اور بے سہارا لو گو ں کیلئے دکھ درد کو سمجھیں،جو پو را سا ل بھوک
کی کیفت میں گزارتے ہیں۔ ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں تو دوسرے وقت کا نہیں
ملتا ۔ایک ایک لبا س میں کئی کئی دن گزارتے ہیں ،نہانا تو دور کی بات انہیں
پینے کیلئے صا ف پا نی بھی نہیں ملتا ۔اس کا ذہن انہی سوچو ں میں گم ہو گیا
۔کچھ دیر کے بعد اس نے اپنی امی کو فیصلہ سنایا کہ میں روزہ پورا کروں گا ۔تا
کہ مجھے اپنے سیلا ب زدہ بہن بھائیوں کا احساس ہو ۔وہ کھا نے کے پاس سے اٹھ
گیا۔
عا قب کے ابو بھی اپنے دفترسے فارغ ہو کر سیلا ب ز د گا ن کی امداد کیلئے
لو گو ں کے پا س جا تے ۔لو گو ں کو اس مصیبت کی گھڑی میں اپنے مسلمان
بھائیوں کی مدد کرنے پر تیا ر کرتے ۔سا تھ ہی لو گو ں کی بے حسی کو دیکھ کر
بہت زیادہ کُڑھتے تھے ۔اللہ نے کتنا ما ل دولت دیا ہے ،ہم خود کو مسلما ن
بھی کہتے ہیں۔یہ ملک بھی کلمہ کے نا م پر ہی بنایا لیکن ہم اپنے مال سے
دوسروں کا حصہ دینے کو تیار نہیں۔ایک رات تر اویح کے بعد عاقب کے ابو خبریں
سن رہے تھے ۔تو سیلا ب کی صورتحال اور لو گو ں کی مصیبتو ں کو دیکھ کر ،
عاقب نے پوچھا کہ ابو جان ہمارے معاشر ے میں کتنے امیر لو گ ہیں۔جو روزانہ
کروڑوں رو پیہ کماتے ہیں۔ ان کے ایک سے زیا دہ گھر ہیں ۔ مہنگی سے مہنگی
رنگ برنگی گاڑیا ں ہیں۔ یہ لو گ غریبو ں کا احساس کیو ں نہیں کرتے ؟ دین
اسلام کی تعلیمات اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتی ہیں؟عا قب نے اپنے
ذہن میں آنے والے خیا لات اور سوالات ابو کو بتلائے ۔
ابو نے کہا کہ ہمارا رب رحمن و رحیم ہے ۔ رب العامین ہے ،ہمارا دین دین
رحمت ہے ،اللہ تعالیٰ نے اس دین کو حضور اکرمﷺ پر نازل کیا ،آپﷺ نے دین کا
پیغام ساری انسا نیت تک پہنچایا ۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمت العالمین بنا
کر بھیجا۔اسی طرح ہماری مقدس کتاب قرآن مجیدتمام انسانو ں کیلئے ہدایت
ہے۔عاقب نے ابو سے پوچھا کہ رحمت العالمین کا کیا مطلب ہے؟یہ دونو ں لفظ
عربی کے ہیں ،رحمت کا لفظ تو ہمیں کچھ سمجھ آتا ہے۔ عالمین سے کیا مراد ہے؟
عاقب کے ابو نے اسے بتایا کہ العالمین کے عربی میں دو معنی لئے جاتے ہیں ،
العالمین کا ایک معنی تمام جہان ہیں ، انسان اس دنیا میں ہے ،مرنے کے بعد
قبر میں جائے گا ، پھر قیامت آئے گی ،تمام لوگ میدان حشر میں جمع ہوں گے،
اپنے دنیا میں کئے گئے عملوں کا حساب دیں گے ، ان سے پوچھ گوچھ ہوگی جنت
دوزخ کا فیصلہ ہوگا ، حضور اکرم ﷺ ان تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں ، آپ ﷺ نے
ہمیں دنیا میں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ۔ آپ کے طریقے پر جو زندگی
گزارے گا،وہ ہر جہان میں کامیاب ہو گا ۔
عربی میں العالمین کا دوسرا معنی اقوام ہیں ، اس دنیا میں بہت سی قومیں
بستی ہیں ۔ گورے ، کالے ، سانولے ، سرخ ، مختلف زبانیں بولنے والے ، مختلف
علاقوں میں رہنے والے۔ ایک علاقے میں اکٹھے رہنے والے لوگ ایک قوم کہلاتے
ہیں ۔ آپ دنیا کی تمام اقوام کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں ، حضور اکرم
ﷺ کے طریقوں اور ہدایت پر دنیا کی کوئی بھی قوم عمل کرے گی، وہ اس رحمت سے
فائدہ اٹھائے گی ، یعنی آپ ﷺ تمام جہانوں اور تمام قوموں کیلئے رحمت بنا کر
بھیجے گئے ہیں ۔
[جاری ہے] |