ظلم ایک اندھیرا ہے۔ظلم ایک خوف ہے۔ظلم ایک غم ہے۔ظلم ایک
دکھ ہے۔ظلم ایک جھٹکا ہے۔ظلم ایک پریشانی ہے۔ظلم ایک درد ہے۔ظلم ایک حقیقت
ہے۔ظلم ایک مرض ہے۔ظلم ایک ناانصافی ہے۔
اس ظلم نے کئی لوگ اندھے پن میں مبتلا کردئیے۔کئی لوگ بہرے بنا دئیے۔کئی
لوگ گونگے کر ڈالے۔کئی لوگ لنگڑے کر ڈالے۔کئی لوگ معذور بنا ڈالے۔
اس ظلم کی وحشی موجوں نے کئیں مائیں اپنے پیاروں سے جدا کرڈالیں۔اس ظلم نے
کئی بچے یتیم کر ڈالے۔اس ظلم کی تپتی دھوپ نے کئیں گھر اجاڑ ڈالے۔اس ظلم کی
جاری ہوا نے کئیں دیس اکھاڑ پھینکے۔اس ظلم کی راہوں نے کئیں ملک پلٹا ڈالے۔
جب کوئی ظلم کرنے لگ جاتا ہے۔تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس ظلم کا کیا
بھیانک انجام ہوگا۔وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس سے کئیں وابستہ امیدیں اور
تمنائیں ختم ہوجائیں گی۔وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس ظلم سے کتنے درد
آنکھیں کھولیں گے۔وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس ظلم سے کتنی آہیں جنم لیں
گی۔ وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس ظلم سے کتنے غم پھوٹیں گے۔وہ یہ بھی بھول
جاتا ہے کہ اس ظلم سے کتنے ظلم اور نکلیں گے۔وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس
ظلم سے کتنے جھگڑے ہونگے۔ظلم تو ظلم ہے۔ظلم کرنے والا کبھی خوش نہیں رہ
سکتا۔ظلم کرنے والا خوشی کی بہاریں کم ہی دیکھتا ہے۔ظلم کرنے والا مایوسی
کی راہیں متعین کرنے والا ہوتا ہے۔ظلم کرنے والا سکھ کے سانس لینے میں
دشواری محسوس کرتا رہتا ہے۔ظلم کرنے والا اندھیرا بانٹتا رہتا ہے۔ظلم کرنے
والا اندھیرے والی زندگی جی رہا ہوتا ہے۔ظلم کرنے والا روشنیوں سے محروم
رہتا ہے۔ظلم کرنے والا اندر سے کھوکھلا ہوجاتا ہے۔ظلم کرنے والا سکون سے
محروم ہوتا ہے۔ظلم کرنے والا بے چینی کو فروغ دیتا ہے۔ظلم کرنے والا کانٹے
بچھانے والا ہوتا ہے۔ ایک دن آتا ہے کہ ظلم کرنے والا بھی مر جاتا ہے۔
دنیا نے کئی ظالم مرتے دیکھے،کئی ظالم پیدا ہوتے دیکھے،کئی ظالم شکست کھاتے
دیکھے،کئی ظالم روتے دیکھے،کئی ظالم خوف کی آگ میں جلتے دیکھے،کئی ظالم ظلم
سے لوٹتے دیکھے اور کئی ظالم بھیک مانگتے بھی دیکھے۔
ایک تصویر ہے جو بہت بولتی ھے اس کی آواز مجھے سونے نہیں دیتی۔دل مضطر کی
ھر سسکی کے ساتھ آنکھ کی نمی اور دل کا حبس اور بڑھ جاتاھے۔ایک بوڑھا معذور
شخص ہے۔ایک بیوی ہے جو پاگل ہے ہوش و حواس کھو چکی ہے۔اس کے دو بیٹے تھے جو
کسی ظالم نے درندگی سے قتل کرڈالے۔میرے بس میں ہوتا تو میں ان تڑپتے بزرگوں
کو ان کے مرجھائے ہوئے پھول لوٹا دیتا۔انہیں ان کی زندگی جینے کی آس لوٹا
دیتا۔نجانے قدرت نے اس میں کیا بھلائی رکھی کہ ان بے سہاروں کا ظاہری سہارا
چھین لیا۔نجانے ایسا کیوں کیا؟میں ان کی دکھی آنکھوں والی تصویر دیکھتا ہوں
تو دل دھڑک جاتا ہے۔میرے جسم پر خوف کا بوجھ طاری ہوجاتا ہے۔میرے قلم میں
کچھ لکھنے کا یارا نہیں رہتا۔ان کے دکھ پر میری آنکھ بھر آتی ہے۔سوچتا ہوں
کہ کیوں کسی مسلمان کی غیرت نہیں جاگی کہ انہیں انصاف دلاسکے؟ کیا مسلمانوں
میں غیرت و حمیت باقی نہیں رہی کہ وہ ان مظلموں کو انصاف دلاسکیں؟ مسلمان
مائیں اب محمد بن قاسم جیسا بہادر کیوں نہیں جنم دیتیں کہ جو داد رسی کے
لیے آتا تھا؟کیا کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو جذبہ اخوت سے سر شار ہو؟
ہماری ریاست انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ریاست کے رکھوالے اپنے
مسائل میں الجھ بیٹھے ہیں۔ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے فرصت ہی نہیں۔
انہیں یہ فرصت ہی نہیں کہ قوم سے کیا ہورہا ہے۔کون مظلوم ہے اور کون ظالم
ہے۔جب ریاست انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو بغاوت جنم لیتی
ہے۔انتقام کا جذبہ ہر کوئی رکھتا ہے۔ظاہر ہے اگر ریاست اپنا کام نہیں کرے
گی تو لوگ خود کرنے لگ جائیں گے اور پہر فتنہ فساد کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ان
مظلوم بزرگوں کو انصاف دلانے کے لیے ہر آدمی کوشش کرے،اس کے لیے متعلقہ
فورم پر آواز اٹھائے،میڈیا پر یہ خبر پھیلائے،تعلقات کا استعمال کرے،اس پر
خاموش تماشائی بننے کے بجائے اس کے لیے ایک موثر آواز بنیں۔
یہ جس کے ساتھ ظلم ہوا ہے ان کا یہ مختصر تعارف ہے۔جو کہ کالم نگار "عامر
ہزراوی"کی تحریر سے ماخوذ ہے۔ گل رحمان بابا بکروال ہیں ، اصل بٹگرام الائی
کے ہیں ، اب ہری پور رہتے ہیں شادی گاوں میں ، اسی سال کے ہیں ، خود معذور
ہیں ، بیوی معذور بھی ہے اور پاگل بھی ، ایک بیٹی بھی پاگل ہے ، دوسری
سلامت ہے ، دو بیٹے تھے دونوں قتل کر دیے گئے اور قاتل تین سو بھیڑیں
بکریاں ساتھ لے گئے ، انکا والی وارث کوئی نہیں ہے ، بیٹے تھانہ ٹیکسلا کی
حدود میں قتل کیے گئے ہفتہ ہو گیا قاتلوں کا کوئی علم نہ ہو سکا. ان کا دکھ
شاید یہ بتا رہاہے کہ اس دھرتی پر انہیں انصاف دلانے والا کوئی نہیں۔ریاست
مدینہ کا نعرہ لگانے والے انصاف کے تقاضے بھول چکے ہیں۔یہ گل رحمان بابا
اسی لیے خاموش ہیں کہ انہیں شاید معلوم ہوگا کہ یہاں مظلوم کا کوئی داد رسی
کرنے والا نہیں،کوئی مظلوم کو انصاف دلانے والا نہیں،کوئی غریب و مظلوم کی
ہم آواز بننے والا نہیں،پولیس انہیں انصاف دلانے کے بجائے انہیں مزید
اذیتیں دینے میں کوئی کسر ہاتھ سے جانے نہ دے۔۔
|