پاکستانی عدلیہ کے حوالے سے عوام پُراعتماد کیوں نہیں ہے
۔ اکثر یت کو عدلیہ کی سست روری کی شکایت ہے جب ایک کیس تیس سال تک چلے گا
تو پھر تو اِس تاثر کو ہی تقویت ملے گی۔ پاکستانی عدالتی تاریخ میں اچھی
روایات شائد ہی ملیں۔ ڈکٹیٹروں کا دباؤ ہو یا بدمعاشیہ کا خوف۔ پاکستانی
عدلیہ کو ہمیشہ باندھ کر فیصلے لیے جاتے رہے ہیں۔ وسیع تر قومی مفاد ہی
فوجی آمروں اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے پیش نظر رہا ہے۔ دین اسلام کی انصاف
کی روح کو جس طرح کی پامالی کا سامنا وطن عزیز میں کرنا پڑا ہے اِس کو
سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستانی سیاسی و عدالتی
تاریخ اِس حوالے سے سب کچھ آشکار کرتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے۔ زیر نظر فیصلہ
اِس لیے حق کی فتح کی غمازی کرتا ہے کہ ملزم اور متاثرہ فریق دونوں کا تعلق
قانون کے شعبے سے ہے۔ ملزم ایک صاحب حیثیت وکیل صاحب کا فرزند جبکہ شکایت
کنندہ ملزم کی وکالت کی تعلیم کے دوران کلاس فیلو تھی۔ گویا یہ کیس قانون
کے شعبہ سے منسلک افراد کے درمیان تھا۔ اگر اِن میں سے سے ایک فریق بھی
قانون کے شعبہ سے تعلق نہ رکھتا ہوتا تو پھر قانون سے تعلق رکھنے والے ملزم
کو مجرم ٹھرایا جانا ایک ایسا خواب بن جاتا کہ پھر خلق خُدا انصاف کی صورت
کو دیکھنے کو ترستی۔ چونکہ زخمی لڑکی وکیل بن چکی تھی اُس کے ساتھ اُس کے
اساتذہ اور دوسرے وکیل کلاس فیلوز کا بھر پور ساتھ تھا اِس لیے کیس جلد از
جلد تمام مراحل طے کرتا ہوا انجام پزیر ہوا اوپر سے قسمت مہربان ہوئی کہ یہ
دور سوشل میڈیا کاد ور ہے۔ زخمی وکیل لڑکی کی جانب سے سوشل میڈیا میں بھر
پور آواز اُٹھائی گئی اور بعدازاں پاکستان کے بڑے میڈیا گروپ کے اہم
پروگرام میں بھی اِس کیس کے حوالے سے بھرپور آواز اُٹھائی گئی۔ یوں یہ کیس
انصاف کے تقاضوں سے ہمکنار ہوتا ہوا اپنا رستہ خود ہی بناتا چلا گیا۔ ورنہ
زخمی طالبہ پر کیس سے دستبردار ہونے کے لیے اتنا دباؤ تھا کہ بااثر سیاسی
شخصیات درمیان میں کود پڑی تھیں۔ لیکن سوشل میڈیا اور الیکٹرانک و پرنٹ
میڈیا نے اِس کیس کو دبنے نہیں دیا۔ بااثر وکلاء کی جانب سے لاہور ہائی
کورٹ سے ملزم کو بے گناہ کروائے جانے کا عمل عوام الناس کو ہضم نہ ہوا اور
خوش قسمتی سے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان نے لاہورہائی کورٹ کے ملزم کے
رہائی کے فیصلے کا ازخود نوٹس لے لیا۔ یوں پھر بُجھے ہوئے چراغوں میں روشنی
نے ایک جُنبش لی۔ خدیجہ صدیقی کو سپریم کورٹ میں اپیل کی اجازت مرحمت
فرمادی گئی اور چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کے بعد آنے والے چیف جسٹس آف
پاکستان آصف کھوسہ نے ملزم کو پانچ سال کے لیے سزا دے کر جیل بھجوا دیا۔
وہ لاء کالج کی طالبہ تھی اُس کا صرف یہ قصور تھا کہ وہ مردوں کے معاشرے
میں ایک خاتون تھی۔ اُسے ماں باپ نے قانون کی تعلیم دلوانے کے لیے کالج
بھیجا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت سے روشن خواب
تھے۔ پھر وہی ہوا جو مردوں کے معاشرے میں بگڑئے ہوے امیر زادے کرتے ہیں۔
بگڑئے اور بااثر امیر زادے نے اُسے اپنی خواشات کی تکمیل میں رکاوٹ کی بناء
پر راستے سے ہٹا نے منصوبہ بنایا۔ اِس باعزم لڑکی کے حوصلے کے سامنے سماج
کی دیوار کھڑی کردی گئی۔ اُس امیر زادے نے اُسے بھری سڑک پرچُھڑی سے بیس سے
زائد وار کیے۔ لیکن وہ بچ نکلی اُسے اُس کے ڈرائیور نے اُس امیر زادے کے
چنگل سے آزاد کروایا جس وقت وہ امیرزادہ ہلمٹ پہنے موٹر سائکل پر سوار ہوکر
بیچ سڑک کے اُسے پر چھڑی کے وار کر رہا تھا اُس وقت اُس کی معصوم چھوٹی بہن
بھی سارا منظر دیکھ رہی تھی کہ یہ ظالم ا میر زادہ کیوں قتل کرنا
چاہتاہے۔اُس ننھی گڑیا نے بھی اُس قاتل کو ہلمٹ سرکنے پر چہرئے سے پہچان
لیا تھا۔تفصیلات کے مطابق قانون کی طالبہ خدیجہ کے وکیل نے قاتلانہ حملہ
کرنے والے ہم جماعت کے ہیلمٹ کی ڈی این اے فرانزک رپورٹ عدالت میں جمع
کرادی جس کے تحت ہیلمٹ سے ملا خون خدیجہ کے خون کے نمونوں سے جب کہ پسینوں
کے ذرات کے نمونے ملزم کے پسینے سے مطابقت رکھتے ہیں۔خیال رہے ڈی این اے
ٹیسٹ کے لیے بھیجے جانے والا ہیلمٹ قاتلانہ حملے کے وقت ملزم شاہ حسین نے
پہن رکھا تھا اور حملے کے بعد گھبراہٹ کی وجہ سے ہیلمٹ گر گیا تھا جسے
پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا اور بعد ازاں خدیجہ کے وکیل نے ہیلمٹ
کو فرانزک لیب بھیج کر ڈی این اے کروایا۔نجی لاء کالج کی طالبہ خدیجہ صدیقی
کو ہم جماعت شاہ حسین جو معروف وکیل کا بیٹا بھی ہے نے چُھریوں کے 3 2وار
کر کے شدید زخمی کردیا تھا تاہم خوش قسمتی سے مہینوں موت و زیست کی کشمکش
میں مبتلا رہنے کے بعد خدیجہ کو نئی زندگی مل گئی تھی۔تاہم قانون کی طالبہ
خدیجہ کا امتحان یہی پر بس نہیں ہوا بلکہ جب اُس نے ظلم کے خلاف آواز
اٹھانے کی کوشش کی تو اس کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ خود ملزم کے والد نے
اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خدیجہ اور اس کے خاندان کو مقدمہ سے باز
رکھنے کے ہتھکنڈے جاری رکھے۔خوش قسمتی سے سوشل میڈیا پر یہ معاملہ زور پکڑ
گیا اور پھر الیکڑانک میڈیا نے بھی اس کیس کو بھرپور انداز سے اُٹھایا اور
بلا آخر سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹس لیتے
ہوئے جوڈیشل مجسٹریٹ مبشر حسین اعوان کو روزانہ کی بنیاد پر کیس کا فیصلہ
کرنے کا حکم دیا۔ عدالت نے طالبہ خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کرنے والے
ملزم شاہ حسین کو 7 سال قید کی سزا سنا دی۔ لاہور میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی
عدالت نے طالبہ خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کرنے کا جرم ثابت ہونے پر ملزم
شاہ حسین کو سات سال قید کی سزا سنا دی تھی، جس کے بعد مجرم کو کمرہ عدالت
سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔خدیجہ کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس کوئی لینے کو تیار
نہیں تھا لیکن اﷲ کی مدد سے سرخرو ہوئے اور خدیجہ کو فوری انصاف ملا۔اس
موقع پر قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی نے مسرت بھرے لہجے میں میڈیا سے گفتگو
کرتے ہوئے کہا تھاکہ انہیں یقین نہیں آرہا کہ ان کے حق میں فیصلہ آگیا۔
خدیجہ نے کہا کہ ہم کمزورنہیں لیکن معاشرے نے ہمیں کمزور بنایا ہے، میری
کسی سے ذاتی دشمنی نہیں اور لڑائی صرف ظلم کے خلاف تھی، کیس میں جن لوگوں
نے ساتھ دیا ان سب کی شکرگزار ہوں، اﷲ تعالیٰ نے مجھے موت کے منہ سے نکالا
جس پر رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں۔
خدیجہ صدیقی حملہ کیس کا چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے انتظامی نوٹس لیا تھا
اور مقدمے کا ایک ماہ میں ٹرائل مکمل کرنیکا حکم دیا تھا۔ شاہ حسین موٹر
سائیکل پر سوار تھا اور اس نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا لیکن خدیجہ کے ڈرائیور
ریاض نے اسے پکڑنے کی کوشش کی جس کے دوران اس کا ہیلمٹ گرگیا اور وہ پہچان
لیا گیا۔اس مقدمے میں اہم موڑ اس وقت آیا جب شاہ حسین کا والد جو خود بھی
وکیل ہے اس کیس پر اثر انداز ہوا اور وکیلوں نے خدیجہ کا کیس لڑنے سے انکار
کردیا بلکہ ان پر اخلاقی بے راہ روی کے الزامات بھی لگائے گئے جس پر جس پر
سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے واقعہ کا نوٹس لیا۔ خدیجہ اور شاہ حسین
مقامی لاء کالج میں قانون کے طالب علم تھے۔ لاہور کی مقامی عدالت نے لاء
کالج کی طالبہ خدیجہ صدیقی پرہونے والے حملے کے کیس میں مجرم شاہ حسین کو
مجموعی 23 سال قید اور3 لاکھ 34 ہزارسولہ روپے جرمانے کی سزا سنا ئی۔عدالتی
حکم کے مطابق جب تک مجرم خدیجہ صدیقی کو جرمانہ ادا نہیں کرتا اس وقت تک وہ
رہا نہیں ہوسکے گا۔پراسکیوشن کی جانب سے ملزم شاہ حسین کے خلاف بارہ گواہان
پیش کیے گئے جن میں آٹھ پولیس اہلکار، لیڈی ڈاکٹر، خدیجہ صدیقی کی چھوٹی
بہن صوفیہ صدیقی اور ڈرائیور شامل تھا۔پولیس نے ملزم سے واردات میں استعمال
ہونے والی موٹر سائیکل اور چُھری بھی برآمد کی جبکہ فرانزک رپورٹ میں بھی
ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوا۔
ٹرائل عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ مجرم قانون کا ایک نوجوان طالب علم
ہے جس کے سامنے ایک شاندار مستقبل ہے مگر خدیجہ صدیقی بھی ایک نوجوان طالبہ
ہے جس پر گزرنے والے کرب کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔مجرم نے خدیجہ
صدیقی کو قتل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوٹی مگر وہ معجزانہ طورپر بچ گئی۔
مقدمے کے حالات مد نظر رکھتے ہوئے مجرم سے کوئی رعایت نہیں برتی
جاسکتی۔عدالت کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے خدیجہ صدیقی نے کہا
تھاکہ زندگی اور موت اﷲ کے ہاتھ میں ہے، یہ کیس میرے ایمان کا امتحان
تھا۔انہوں نے کہا کہ کیس کے دوران میری کردار کشی کی گئی لیکن جس اﷲ نے
زندگی دی اس نے عزت بھی دی ہے،جن لوگوں نے ساتھ دیا ان کی شکر گزار
ہوں۔خدیجہ صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ اس کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے بلکہ
اس نے 23 خنجروں کا حساب لینا تھا وہ لے لیا ہے۔
بعد ازاں جب یہ کیس اپیل میں سیشن کورٹ میں گیا توسیشن کورٹ نے بعض سزاؤں
میں تبدیلی کردی ۔ اِن سزاؤں کے خلاف ملزم کی طرف سے درخواست ضمانت دائر کی
گئی اور یوں سیشن کورٹ نے ملزم شاہ حسین کو ضمانت پر رہا کردیا۔ بعد ازاں
ملزم شاہ حسین کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل بھی کردی
گئی تھی۔ اِسی طرح ملزم شاہ حسین کی سزا میں اضافہ کیے جانے کے لیے بھی ایک
درخواست دائر ہوئی۔ 4-6-2018کو لاہور ہائی کورٹ کے جج صاحب نے ملزم شاہ
حسین کی سزا معطل کردی اور اُسے بری کردیا گیا۔جب کہ سزا بڑھائے جانے کی جو
درخواست کمپلینٹ کی طرف سے دی گئی تھی اُسے ڈسمس کردیا گیا۔موجود ہ اپیل جو
کہ سپریم کورٹ کے سامنے دائر کی گئی اُس کو سماعت سپرئم کورٹ کے لیے سماعت
کیے جانے کے لیے 13-06-2018 کو اجازت دے دی گئی۔ سپریم کورٹ میں خدیجہ
صدیقی کی جانب سے دلائل دئیے گئے کہ پراسیکیوشن کی جانب سے تین چشم دید
گواہ پیش کیے گئے جن میں خدیجہ صدیقی، صوفیہ صدیقی، اور ریاض احمد تھے ۔
انڈیپنڈیٹ گواہ ریاض کی جناب سے گواہی میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں ہے۔
دلائل میں مزید بتایا گیا کہ اِس کیس میں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے مس
ریڈنگ کی کلاسیک مثال موجود ہے۔ چشم دید گواہ صوفہ صدیقی کی جانب سے دئیے
گئے بیان کو حتیٰ کہ لاہور ہائی کورٹ نے ڈسکس کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
اور چشم دید گواہ ریاض احمد کے بیان کا بھی کوئی ذکر نہ کیا ہے۔ دلائل میں
مزید بتایا گیا کہ نہ صرف ہا ئیکورٹ نے مس ریڈ کیا بلکہ کیس کے حقائق کو
بُری طرح نظر انداز کیا۔ دلائل میں مزید کہا گیا کہ یہ وقوعہ شہر کے
انتہائی گنجان آباد علاقے میں دن کی روشنی میں ہواجسے کسی طور پر بھی
جھٹلایا نہیں جا سکتا اور اِس کیس کی ایف آئی آر بھی فوری طور پر درج ہوئی۔
دلائل میں مزید کہا گیا کہ پراسیکیوشن نے جو بھی گواہان پیش کیے گئے اُنھوں
نے ہمیشہ ملزم کو ہی قصور وار ٹھرایا ۔ جو کہ اِس واقعہ کا تنہاملزم تھا۔
میڈکل رپورٹ بھی تمام واقعات پر مہر ثبت کرتی ہے۔ ملزم اور مضروبہ کے ماضی
کے اچھے تعلقات کو دونوں پا رٹیوں نے تسلیم کیا ہے۔ اور بعدازاں تعلقات میں
خرابی کو بھی دونوں پارٹیوں نے تسلیم کیا ۔ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ کورٹ نے
ملزم شاہ حسین کو درست طور پر قصور وار قرار دیا جبکہ ہائی کورٹ نے مس
ریڈنگ کیا اور انصاف کا بُری طرح مس کیرج کیا۔ ایڈیشنل پراسکیوٹر جنرل
پنجاب نے بھی خدیجہ صدیقی کے وکیل کی جانب سے دئیے گے دلائل کی تائید کی
اور عدالت عظمیٰ سے ملزم شاہ حسین کی سزا کو بحال کرنے کی استدعا کی۔
حسین شاہ کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ پراسیکوٹر نے جو الزامات لگائے
ہیں وہ ڈوٹ فُل ہیں۔ ملزم شاہ حسین کے وکیل نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے
شاہ حسین کی سزا ختم کی تھے اُس حوالے سے بہترین وجوہات بیان کی تھیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے جن وجوہات کی بناء پر ملزم شاہ حسین کو رہاء کیا وہ درج
ذیل ہیں۔
1۔ زخمیوں کے خون آلود کپڑوں کو تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہ کیا گیا اور
نہ ہی اِن خون آلود کپڑوں کو تفتیش کا حصہ بنایا گیا۔
2 ۔ ۔ ملزم شاہ حسین اور خدیجہ صدیقی کلاس فیلو تھے اور ایک دوسرے کو بہت
اچھی طرح جانتے تھے۔ اور زخمی خدیجہ صدیقی نے پہلی مرتبہ واقعہ کے پانچ روز
کے بعد8-5-2016 کو ملزم شاہ حسین کو ملزم نامزد کیا تھا جبکہ ڈاکٹر روزینہ
جو PW11 نے ٹرائل کورٹ کو بتایا تھا کہ جب متاثرہ خدیجہ صدیقی ہسپتال پہنچی
تو اُس نے صرف یہ کہا تھا کہ اُسے ایک لڑکے نے زخمی کیا ہے۔ اور زخمی نے یہ
نہیں بتایا کہ ملزم شاہ حسین نے اُسے زخمی کیا ہے۔
3 ۔ جب خدیجہ صدیقی کا میڈیکل کیا گیا تو تو خدیجہ صدیقی کے متعلق ڈاکٹر
روزینہ نے بتایا کہ اِسے 11 زخم آے ہیں بعد ازں کہا گیا کہ 23 زخم ہیں
ڈاکٹر روزینہ نے یہ سب کچھ آپریشن نوٹس کی بنیاد پر بتایا کہ زخم گیارہ سے
بڑھے ہیں۔ جن ڈاکٹروں نے خدیجہ کا آپریشن کیا اُن ڈاکٹروں کو ٹرائل کورٹ کے
سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
4 ۔ اگر خدیجہ صدیقی کی حالت اِس واقعہ کے فوری بعد بہت خراب تھی تو پھر وہ
علاقہ مجسٹریٹ کے سامنے میڈیکل کروائے جانے کے لیے حکم لینے کی حالت میں
کیسے تھی۔
5 ۔خدیجہ صدیقی ڈسٹرکٹ سٹینڈنگ میڈیکل بورڈ کے سامنے بار بار بلانے کے
باجود پیش نہ ہوئیں۔
6 ۔ چشم دید گواہان کے بیان کے مطابق بہت زیادہ خون خدیجہ صدیقی کا کار پہ
بکھڑا پڑا تھا۔ تو پھر تفتیش کے دوران جن اشیاء پر خون لگا اُن کو قبضہ میں
کیوں نہ لیا گیا اور اِن کو خون آلود اشیاء کو ٹرائل کورٹ کے سامنے کیوں
پیش نہ کیا گیا۔
7۔ PW-5 ریاض احمد جو کہ اِس کیس کا شکایت کنندہ ہے نے خدیجہ صدیقی کے
والدین کو اِس واقعہ کے اطلاع نہ دی بلکہ خود ہی ایف آر درج کروادی۔
8۔ پراسیکیوشن کی جانب سے جو موٹیو بنایا گیا تھا وہ اُسے ثابت نہیں کرسکا
کیونکہ خدیجہ صدیقی کے مطابق ملزم شاہ حسین اُسے ہراساں کرتا تھا اور وہ
خدیجہ صدیقی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ جبکہ خدیجہ صدیقی نے اُس کی شادی کرنے
کی پرپوزل کو رد کردیا تھا۔ لیکن اُس کا یہ بیان اُس کے خط سے مختلف ہے جس
خط کو بطور DW پیش کیا گیا جس میں کہا گیا کہ وہ ازخود ملزم شاہ حسین کے
ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔
9۔ ہیلمٹ جو کہ کار کے پاس سے ملا اُس کا رنگ سرخ تھا جبکہ اصغر علی PW-10
نے ٹر ائل کورٹ میں بتایا کہ ہلمٹ کا رنگ کالا تھا۔
10 ۔ خدیجہ صدیقی اور صوفیہ صدیقی جو زخمی تھیں اُنھوں نے جو کہانی بیان کی
اُس پر وہ پُر اعتماد نہ تھیں۔
ہائی کورٹ نے جن وجوہات کو پیش نظر رکھا اور ہائی کورٹ کی جانب سے اِس
نتیجے پر پہنچنا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ وقوع پزیر ہوا ہو اور یہ بھی ہو
سکتا ہے کہ دونوں بہنوں کو زخم آئے ہوں لیکن جس انداز میں واقعہ کو بیان
کیا گیا اور اِس واقعہ کا جو پس منظر بیان کیا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اِس سے
بالکل مختلف ہو جس طرح زخمی بہنوں نے بیان کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی متزکرہ بالا وجوہات جن کی بناء پر اُس نے ملزم
شاہ حسین کو رہا کیا اُس کا ایک ایک کرکے جائزہ لیا۔ہائی کورٹ کے مطابق
زخمیوں کے خون آلود کپڑوں کو تفتیش میں پیش نہیں کیا گیا جب کہ یہ بات غلط
ہے جبکہ ٹرائل کورٹ کے سامنے بطور Exhibit-PG پیش کیا گیا۔ایک اور بات کہ
ہائی کورٹ نے یہ پوائنٹ اُٹھایا کہ ڈاکٹر روزینہ کے سامنے واضع طور پر ملزم
شاہ حسین کا نام فوری طور پرکیوں نہ لیا۔ یہ بات درست نہ ہے چونکہ ہائی
کورٹ نے درست طور پر اِس کیس کو نہ پڑھا ہے۔ ڈاکٹر روزینہ نے واضع طور پر
بیان کیاکہ جب خدیجہ صدیقی کو زخم آئے تو وہ مکمل طور پر حواس میں نہ تھی ۔
تفتیشی افسر نے بار بار اصرار کیا کہ وہ خدیجہ کا بیان لینا چاہتا ہے لیکن
جن ڈاکٹروں نے خدیجہ کا آپریشن کیا تھا اُن کا کہنا تھا کہ خدیجہ بیان دینے
کی حالت میں نہ ہے۔یہ بات دُرست ہے کہ جب خدیجہ کو ہسپتال لایا گیا تو اُس
نے کہا کہ اُسے ایک لڑکے نے زخمی کیا ہے لیکن ڈاکٹر روزینہ نے ٹرائل کورٹ
میں واضع طور بیان دیا کہ اُس وقت خدیجہ مکمل حواس میں نہ تھی اور اُس کی
حالت نازک تھی۔جب ڈاکٹر روزینہ زخمی خدیجہ سے ملزم لڑکے کا نام پو چھنا
چاہتی تھی تو ڈاکٹروں نے فوری طور پر خدیجہ کے آپریشن کا کہا کیونکہ ڈاکٹر
خدیجہ کی زندگی بچانا چاہتے تھے۔آپریشن کے بعد چند دن انتھیزیا کا اثر رہا
اور پھر چند دن بعد جب خدیجہ بہتر ہوئی تو اُس نے ملزم کا نام بتایا کہ وہ
ریسپونڈنٹ نمبر ایک شاہ حسین ہی ہے۔بدقسمتی سے ہائی کورٹ نے ڈاکٹر روزینہ
PW-11 کا بیان مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ۔ لاہور ہائی کورٹ نے بدقسمتی
سے یہ بات بھی نظر انداز کی کہ آپریشن سے پہلے گیارہ زخم تھے اور آپریشن کے
بعد مزید زخم سامنے آئے جن کی ٹوٹل تعداد 23 ہو گئی تھی۔ظاہر ہے کہ خدیجہ
کی حالت کافی خراب تھی اِس لیے آپریشن کرنا فوری طور پر ضروری تھا۔ہائی
کورٹ کی نظر انداز کیے جانے کی بدترین مثال یہ بھی ہے کہ ہائی کورٹ نے کہا
کہ زخمی حالت میں ہسپتال جانے کی بجائے پہلے علاقہ مجسٹریٹ کے پاس میڈیکل
کروائے جانے کا اجازت نامہ لینے پہنچ گی ایسانہ تھا۔ ایگزیبٹ پی این اور پی
جے واضع طور پر ظاہر کرتا ہے کہ خدیجہ صدیقی کا طبی معائنہ کے بغیر مجسٹریٹ
کی مداخلت کے 3-5-2016 کو ہوگیا تھا اور 4-5-2016 کو تفتیشی افسر نے علاقہ
مجسٹریٹ کو درخواست دی کہ اُسے میڈیکل سرٹیفکیٹ دئیے جانے کی ہدایت فرمائی
جائے۔ہائی کورٹ اِس معاملے کو درست طور پر دیکھنے میں مکمل ناکام رہی۔ ہائی
کورٹ کی جانب سے یہ کہا جانا کہ خدیجہ ڈسٹرکٹ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش
ہونے میں ناکام رہی۔ حالانکہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے۔ کہ ڈسٹرکٹ میڈیکل بورڈ
میں پیش ہونے کے حکم کو ہائی کورٹ نے معطل کردیا تھا۔ ہائی کورٹ نے اِس
معاملے میں بھی چشم پوشی کی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ
ہائی کورٹ کی جانب سے یہ کہنا کہ خون آلود اشیاء کو تفتیش کے دوران مدنظر
نہیں رکھا گیا جو کہ ہائیکورٹ کی جانب سے معاملے کو نظر انداز کیے جانے کی
بدترین مثال ہے ۔ کیوں کہ ہائی کورٹ نے تفتیشی افسر جاوید اقبال کے ٹرائل
کورٹ میں دئیے گئے بیان کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا جس میں اُس نے کہا
تھا کہ اُس نے واقعہ کے بعد خون آلود کا تجزیہ کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ کی
جانب سے یہ کہنا کہ خدیجہ کے ڈرایؤر نے خدیجہ کے والدین کو اطلاع نہ دی
بلکہ اُسے ہسپتال لے گیاا ور ایف آر بھی درج کروادی ۔ سپریم کورٹ کا کہنا
تھا کہ حالات کا تقاضا تھا کہ خدیجہ کی جان بچائی جائے اور اِس کے ساتھ
ڈرایؤر کی جانب سے فوری طور پر ایف آئی آر کا اندراج اِس بات کی دلالت ہے
کہ اُس نے کسی سے کوئی مشورہ نہیں کیا جو دیکھا اُس کا پرچہ کروادیا ۔
ہائیکورٹ نے یہ نقطہ جو اُٹھایا تھا کہ خدیجہ صدیقی شاہ حسین سے شادی کرنا
چاہتی تھی جبکہ ہائی کورٹ اِس بیان کو نظر انداز کر گئی کہ شاہ حسین اُسے
ہراساں کر رہا تھا اور اِس حوالے سے وہ اپنی ماں کو بتانا چاہتی تھی اِس
لیے ملزم نے خدیجہ صدیقی کو خاموش کرنے کا فیصلہ کیا۔ خدیجہ صدیقی کا یہ
بیان بھی موجود ہے کہ اُن کے تعلقات آپس میں اچھے نہ رہے تھے اِس لیے شاہ
حسین نے اُس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی۔
لاہو رہائی کورٹ نے ملزم اور متاثرہ فریق کا ذکر کیا ہے کہ اُنکے تعلقات تو
بہت اچھے رہے لیکن اِس بات کو بھی نوٹ کرنا چاہیے تھا کہ اِس واقعہ سے کچھ
عرصہ پہلے تک اِن تعلقات میں تناؤ آچکا تھا۔
سپریم کورٹ نے اِس بات کو بھی نوٹ کیا کہ ہائی کورٹ نے نابالغہ صوفیہ صدیقی
جس کی عمر چھ سال تھی اور جو خود بھی زخمی ہوئی اور وہ اِس واقعہ کی چشم
دید گواہ بھی تھی، کے بیان کو کیوں نظر انداز کیا گیا۔ جب ملزم عدالت میں
عبوری ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہوا تو نابالغہ نے فوری طور پر ملزم شاہ
حسین کو پہچان لیا تھا۔ حتی کہ ڈرائیور ریاض احمد نے بھی ملزم کو پہچان لیا
تھا کہ اِسی نے خدیجہ صدیقی اور صوفیہ صدیقی کو زخمی کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے
جس طرح دونوں زخمیوں کے بیانات کو نظر انداز کیا یہ کسی طور بھی قابل قبول
نہ تھا۔سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کردیا اور
ایڈیشنل سیشن جج لاہو ر 30-03-20 18 کے فیصلے کو بحال کردیا۔
قارئین آپ کی خدمت میں راقم نے زخمی خدیجہ کے کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ
کے فیصلے کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ لکھ دیا ہے۔ راقم کی انتہائی افسوس کے
ساتھ یہ گزارش ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انصاف کا حصول اتنا مشکل ہے کہ
اگر اِس کیس کے دونوں فریقوں کا تعلق شعبہ قانون کے ساتھ نہ ہوتا تو شائد
بااثر ملزم بچ نکلتا۔ لاہور ہائی کورٹ نے جس انداز میں اِس کیس کا فیصلہ
کیا۔ اِس کے حوالے سے راقم کو انتہائی دکھ ہے کہ کہ اِس قوم کے ساتھ کس طرح
کا سلوک کیا گیا۔ راقم کی چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے کہ اِس کیس کے
حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے جن ججوں نے انتہائی افسوس ناک کردار ادا کیا
اُن کا معاملے سپریم جو ڈیشل کونسل میں لے جایا جائے اور اُن کے خلاف
قانونی کاروائی کی جائے۔تاکہ اس طرح کے فیصلے کرنے والوں کو آیندہ کے لیے
کان ہوں۔ |