پاکستان میں شہرت پانے کا سب سے آسان طریقہ کم ازکم پچھلی
دو دہائیوں سے یہ ہے کہ پاک فوج کے خلاف کچھ لکھ لو اور اُسے بین الاقوامی
میڈیا میں پرنٹ ہونے کا شرف حاصل ہو جائے تو پھر تو نہ صرف شہرت بلکہ کئی
اعلیٰ ایوارڈ بھی آپ کی جھولی میںآگرتے ہیں اور ساتھ ہی آپ کے پاس دولت کی
بھی ریل پیل ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر آپ جس ملک کے اخبارات کی زینت بن رہے ہیں
اُسی کے خلاف لکھ دیں تو وہ آپ کو بغیر کسی معذرت کے شائع کرنا چھوڑ دیتے
ہیں ۔اس کا ذاتی تجربہ مجھے یوں ہوا کہ بھارت کے ایک اخبار نے مجھ سے میرے
کالم بھیجنے کی درخواست کی مجھے ڈیئرمسلم سِسٹر کہہ کر مخاطب کیاگیا دو
مضامین میں نے بھیجے جو شائع کر دیے گئے جب تیسرا اور پھر چوتھا بھارت کے
خلاف لکھ کر بھیجا تو اسے شائع ہونے کی سعادت نہیں مل سکی اور پوچھنے پر
صاف طور پر کہا گیا کہ ہم بھارت میں رہ کر بھارت کے خلاف آپ کے مضامین شائع
نہیں کر سکتے اور یہ سلسلہ فوراً ختم ہوگیا لیکن وہی پاکستان جس کے صحافی
اپنے اوپر پابندیوں کا رونا روتے ہیں اِن میں سے کچھ بڑے دھڑلے سے غیر ملکی
میڈیا میں اپنے ملک کوصرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد ،شہرت اور دولت کے لئے بد
نام کرنے سے نہیں چوکتے۔ یہ صحافی اس چیز کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیتے
ہیں کہ ان کالکھا ملک کے اندر اور باہر ملک کے لئے کون کونسے مسائل پیدا
کرتاہے بلکہ یوں وہ خود کو بے باک صحافت کا علمبردار ثابت کرنے کی کوشش
کرتے ہیں جبکہ سچ یہ ہے کہ اگر یہ اپنے ملک سے مخلص ہوں تو یہ مسائل اپنے
ملک میں اٹھائیں کیونکہ ان کو حل کرنے کے لئے نہ تو امریکہ آئے گا نہ
برطانیہ نہ فرانس نہ یورپ نہ عرب۔ لہٰذا اس رویے کا مقصد صرف شہرت اور دولت
کا حصول ہوتا ہے مسائل کا حل نہیں۔ ایسے ہی اچانک مشہور ہونے والے ایک
صحافی طہٰ صدیقی بھی ہیں جو تعلیم کے لحاظ سے ایم بی اے ہیں اور انہی
معاملات کے حساب سے وہ صحافت سے منسلک ہوئے ا ور CNBCچینل میں کام شروع
کیا۔طہٰ صدیقی نے فرانس کے چینل 24 کے لئے پولیو کے خلاف جنگ کے موضوع پر
ایک ڈاکومینٹری بنائی اورظاہر ہے یہ فلم پاکستان کے تناظر میں بنی لہٰذا
اسے خوب پذیرائی ملی اور اُسے فرانس میں صحافت کا سب سے بڑا ایوارڈ البرٹ
لونڈرز پرائز ملا۔ اس نے ملکی اور غیر ملکی مختلف اخبارات اور میڈیا گروپ
کے لئے کا م کیا اور آج کل بھارتی ٹی وی چینل WIONکے پاکستان میں بیورو چیف
ہیں۔طہٰ صدیقی پاک فوج کے سخت ناقد بلکہ خلاف ہیں اور اسی لئے نوازے ہوئے
ہیں۔ اس وقت شاید فوج کی مخالفت میں ہی وہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کی
آواز بنے ہوئے ہیں۔بقول اُس کے اور سوشل میڈیا کے وہ جنگ زدہ فاٹا کے اکثر
اوقات دورے کرتے رہتے ہیں لیکن حقیقت میں منظور پشتین کے معاون و مددگار
بننے کی کوشش میں رہتے ہیں اور اسے بر حق ثابت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں الجزیرہ میں اپنا ایک مضمون شائع کروایا جس کا عنوان
تھا’’Another Bangladesh In Making‘‘یعنی ایک اور بنگلہ دیش بننے جا رہاہے۔
اس مضمون میں اس نے پاک فو ج کے اوپر تنقید کرتے ہوئے نہ صرف اُس کی دہشت
گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی کو مشکوک بنانے کی کو شش کی ہے بلکہ یہ بھی
ثابت کرنے پر پورا زور لگایا ہے کہ آپریشنز میں دہشتگردوں سے زیادہ مقامی
آبادی متاثر ہوئی ہے جسکی وجہ سے ہی منظور پشتین جیسے انسانی حقوق کے
علمبردارآگے بڑھے اور پشتونو ں کے حق میں بولنے لگے۔ انہوں نے خود لکھا کہ
پشتین نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد اُبھر کر سامنے آیا یعنی اس نے طہٰ
صدیقی کے پسندیدہ قول یعنی ’’اگر موقع نہ ملے تو اُس کے لئے خود دروازہ بنا
لو ‘‘کے مصداق پشتین نے مظلوم نقیب اللہ محسود کو اپنے لئے دروازہ بنا لیا
اور لیڈری کے شوق کی خاطر ملک کے خلاف جُت گیا۔ اگرطہٰ صدیقی یہ کہتا ہے کہ
پشتین محب وطن ہے تو اُسے ایک اوربنگلہ دیش کیوں بنتانظر آرہا ہے ا گر چہ
اسکی نظر میں بنگلہ دیش کا بننا بھی بالکل درست ہے جیسا کہ اسکی تنظیمSAATH
میں یہ قرار داد پیش کی گئی کہ پاکستانی مشرقی پاکستان میں کئے گئے اپنے
مظالم کی بنگالیوں سے معافی مانگے جبکہ وہ یہ بھول گئے کہ مشرقی پاکستان
میں کس طرح سے مغربی پاکستانیوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ اس بات سے انکار نہیں
کہ ہمارے ہاں صوبائی تعصب ہے اور ایک صوبے والے دوسرے صوبے والوں کو ہی
اپنی محرومی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن یہ باتیں پھیلانے والے خاص لوگوں
کے خاص ایجنڈا پر کا م کرتے ہیں۔ طہٰ صدیقی کا دعویٰ ہے کہ وہ اکثر اوقات
جنگ زدہ علاقوں کو دورہ کرتا ہے لیکن کیا وہ ایسے لوگوں سے نہیں ملا جو یہ
کہتے ہیں کہ اُن کے علاقوں میں دہشتگردوں نے کیسی کیسی تباہی نہیں مچائی
اور کیسے کیسے مظالم نہیں ڈھائے۔ ان علاقوں کے لوگ انتہائی محب وطن ہیں
اگرطہٰ صدیقی کی ملاقات ایسے لوگوں سے نہیں ہوئی جو پاک فوج کے ممنون ہیں
تو میں اسکا اہتمام کرواسکتی ہوں لیکن اگر وہ ایک ہی طبقے سے ملے گا کیونکہ
اُسے فوج کے خلاف لکھ کر اور بول کر شہرت اور دولت کمانی ہے تو پھر اُس کے
قومی جُرم کے حجم میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ اگر پاک فوج واقعی دہشتگردی کر
رہی ہے تو اُس نے پشتین کی تعلیم کا بندوبست کیوں کیا اور وہ بنوں کے اے پی
ایس سے پڑھ کر لیڈر بن گیا اور اب بھی کیوں ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے کی
تعلیم کا اہتمام کرنے کے لئے فوج تعلیمی اداروں کا جال بچھا رہی ہے ، کیوں
فو ج کے تعلیمی اداروں میں سینکڑوں طلباء کو مفت تعلیم بمعہ رہائش دی جارہی
ہے۔ صحت کی بہتر سہولتوں کے لئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں سڑکوں پر توجہ دی
جارہی ہے لیکن طہٰ صدیقی جیسے لوگ اس طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں تاکہ
ان کے ایجنڈا میں خلل نہ پڑے۔ یہ کہنا کہ پشتین کے مطالبات مانے جائیں تو
اُ س کے کچھ مطالبات کو تسلیم بھی کیا گیا لیکن یہ بھی ذہن میں رہے کہ
مطالبہ کرنے والا ہمیشہ خود کو حق بجانب سمجھتا ہے اور اگر یوں ہر ایک کی
ہر بات کو مان لیا جائے تو کیا مسائل میں مزید اضافہ نہیں ہوگا کیا مزید
گروہ نہ اُٹھ کھڑے ہوتے جائیں گے اور پشتین جیسے لوگ دشمن کے ایجنڈے پر کام
کرتے ہوئے ملک میں نفرت پھیلاتے نہ رہیں گے۔ پشتین جس دہشتگردی کا رونا رو
رہا ہے اور اس کا ذمہ دار وردی کو ٹھراتا ہے کیا وہ اُس میں فوج کی مداخلت
کے بعد کمی نہیں دیکھ رہا اور کیا اُس نے کبھی اپنے علاقے میں وحشت و
بربریت کا سامان گرم کئے رکھنے والے دہشتگردوں کے خلاف بھی کو ئی تحریک
چلائی کیا اسے اِن کے کئے ہوئے پر کوئی اعتراض تھا اگر تھا تو بولا کیوں
نہیں اور کیا اب اس سے وزیرستان اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں ترقی دیکھی
نہیں جارہی۔جہاں تک طہٰ صدیقی کے بقول اس کے جلسے جلوسوں پر پابندی
اورمیڈیا بلیک آؤٹ ہے تو کیا کوئی بھی ملک ریاست اور حکومت کے خلاف
سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ خود وہ جس ترقی یافتہ فرانس میں خود
ساختہ جلاوطنی لیکر اپنا کاروبار اپنے ملک کے خلاف چلارہا ہے اُس میں حکومت
پیلی جیکٹ تحریک سے جس سختی سے نمٹ رہی ہے کیا اُس پر اُس نے کبھی کچھ لکھا
اور کہا ،کیا اُسے فرانس میں یہ اجازت ہے یاصرف یہی اجازت ہے کہ وہ پاکستان
اور پاک فوج کے خلاف زہر اُگلتا رہے اور کبھی فاٹا اور کبھی بلوچستان کو
خطرے کی آخری سرحد پر بتا کر عوام کو گمراہ کرتا رہے اور دہشتگردوں کو
حوصلہ دیتارہے اور دنیا میں پاکستان کو ایک دہشتگرد ملک بنا کر پیش کرتا
رہے۔طہٰ صدیقی اور اس جیسے دوسرے لوگ جو باہر بیٹھ کر اپنے ہی ملک کو بدنام
کرتے ہیں اُن کا مقصد سوائے دولت و شہرت کے حصول کے اور کچھ نہیں ہوتا لیکن
کاش کہ ہمار ا میڈیا ایسے لوگوں کا توڑ کرنے کے لئے یکجا ہوجائے اور لوگوں
کو حقائق کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی اصلیت بھی بتاتارہے تا کہ طہٰ اور پشتین
جیسے لوگ نوجوان نسل کو گمراہ نہ کر سکیں۔
|