بِلو کی پریشانیاں

’’آج تم اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہو؟‘‘۔صائمہ نے اپنی سہیلی سے پوچھا۔
’’بات ہی کچھ ایسی ہے۔اب تمہیں کیا بتاؤں ۔ٹینشن سے میر ی تو طبیعت خراب ہورہی ہے‘‘۔بِلو نے کہا ۔
’’ٹینشن میں تو تم ہمیشہ رہتی ہوں لیکن آج کی بات تو بتاؤ ۔ کیا ایسا مسلۂ ہو گیا جس کی وجہ سے تم اتنی پریشان ہو‘‘۔
’’وہ میر ے ساتھ کام کرتی ہے نا ۔ شمائلہ اس کی اپنے شوہر سے لڑائی ہوگئی ہے اور وہ تو گھر چھوڑنے ہی والی ہے‘‘۔
’’تمہیں چاہیے تھا کہ اس کو سمجھاتی کہ ایسا نہ کرے۔ لڑائی تو ہر گھر میں ہوتی ہے۔اب گھر تو نہیں چھوڑے جاتے‘‘۔
’’میں نے تو کافی سمجھایا۔ لیکن وہ کہتی ہے اب بہت ہو گئی اب میں نے ایک دن نہیں رہنا اس بندے کے ساتھ۔ میں اس کو سمجھا ہی رہی تھی کہ ایک اور بہت بڑا مسلۂ ہو گیا‘‘۔
’’اور کونسا مسلۂ ہوگیا‘‘۔
’’میری بڑی نند کا فون آگیا۔ اس کا بیٹا سیڑھیوں سے گر گیا۔کافی چوٹیں آئی ہیں اسے۔ میں تو اتنی پریشان ہوئی کہ میر اسر گھومنے لگ گیا‘‘۔
’’زندگی میں تو یہ سب مسائل چلتے ہی رہتے ہیں ۔ ہر بات کی اتنی ٹینشن لو گی تو زندگی بڑی مشکل ہو جائے گی‘‘۔
’’میں کب ٹینشن لیتی ہوں ۔میر ا بلڈ پریشر تو پہلے ہی نارمل نہیں رہتا۔ اس کی وجہ سے مجھے تو لگتا ہے مجھے شوگر ہو گئی ہے‘‘۔
’’ابھی پیچھلے ہفتے تو ٹیسٹ کروا تھا شوگر کا۔ تمہیں شوگر کیسے ہو سکتی ہے‘‘۔
’’اس موذی مرض کا کیا پتہ چلتا ہے۔ یہ تو بیٹھے بیٹھائے ہو جاتی ہے۔بس اﷲ بچا ئے اس سے۔ وہ میر ی ہمسائی جمیلہ اسی بیماری کی وجہ سے فوت ہوئی تھی ۔تب سے مجھے تو بہت ڈر لگتا ہے۔میرے تو پِتے میں بھی بہت درد رہتی ہے‘‘۔
’’اب تمہارے پِتے کو کیا ہو گیا ۔تم بھی تو کھانے پینے کا کوئی پرہیز نہیں کرتیں‘‘۔
’’ارے اس کمبخت بلڈ پریشر کی بیماری نے تو میرا سب کچھ چھڑوا دیا ہے ورنہ میں تو بہت خوش خوراک تھی ‘‘۔
’’ہاں یہ تو مجھے پتہ ہے۔‘‘
’’ابھی کل کی مجھے ایک نئی پریشانی لگی ہوئی ہے۔ میں تو اپنے بچوں کی طرف سے بہت پریشان رہتی ہوں ۔خود ان کو سکول چھوڑ کر آتی ہوں اور واپسی پر ایک محلے والے کا رکشہ لگوایا ہو ا ہے وہ بڑی ذمہ داری سے بچو ں کو گھر لے کر آتا ہے۔ آجکل تو اغوا ہی بہت ہو رہے ہیں۔اﷲ سب کے بچوں کی حفاظت کرے‘‘۔
’’بس پاکستا ن کے حالات ایسے ہی ہیں۔ہم کیا کریں۔تمام والدین اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کی کوشش تو کرتے ہی ہیں۔ باقی سب اﷲ کے سپر دہے‘‘۔
’’حفاظت تو اﷲ نے ہی کرنی ہوتی ہے میں تو ان کو ساتھ والی دوکان پر بھی کوئی چیز لینے نہیں بھیجتی‘‘۔
’’اچھا تمہاری بڑی بہن کا کیا حال ہے؟‘‘۔
’’اس کی طرف سے بھی خاصی پریشانی ہے۔ ایک بیماری جان چھوڑتی ہے تو دوسری پکڑ لیتی ہے۔ بیچاری وہ تو اپنا سب کچھ ڈاکٹروں پر ہی لُٹا کر بیٹھ گئی ہے۔‘‘
’’ہاں اس کی شادی کو بھی تو پانچ سال ہو گئے ہیں اور ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہے‘‘۔
’’بس اس کے بارے میں سوچ سوچ کر تو رات کو نیند نہیں آتی۔ اگر آنکھ لگ بھی جائے تو خواب میں بھی وہی نظر آتی ہے‘‘۔
’’تمہیں تو ہر کسی کی پریشانی ہے بھئی‘‘۔
’’بس کیا کروں رشتے ہی ایسے ہیں ۔خیال تو کرنا پڑتا ہے۔ابھی میر ے بھائی کی شادی بھی تو کرنی ہے‘‘۔
’’اچھا تو کیا رشتے دیکھ رہی ہو آجکل‘‘۔
’’ہاں وہ تو دیکھ ہی رہی ہوں لیکن کوئی لڑکی پسند نہیں آرہی۔کوئی پڑ ھی لکھی نہیں ہے تو کسی کو گھرداری نہیں آتی۔ اب کوئی کر ے بھی تو کیا کرے‘‘۔
’’یہ تو ایک مشکل کام ہے‘‘۔
’’بہت مشکل کام ہے۔ سارا دن گھر کے کام کروساتھ میں اپنے میکے اور سسرال کا بھی خیال رکھنا بھی صرف عورت ہی کی ذمہ داری ہے۔اتنی ذیادہ پریشانیوں کی وجہ سے میر ا تو کولسٹرول بھی ہائی ہو گیا ہے۔کمر میں ہر وقت درد رہتی ہے۔ ناجانے کب بلاوا آجائے‘‘۔
’’آپ اس طر ح کیوں سوچتی ہوں ۔ جب اس دنیا میں آئے ہیں تو جانا تو سبھی نے ہے۔ جس اﷲ نے یہ مشکلات پیدا کی ہیں اس کے پاس ان کا حل بھی اُسی کا پاس ہے۔ ہمیں ہماری زندگی پرسکون انداز میں گزارنی چاہیے۔ اپنے گھر کے معاملات پر توجہ دینی چاہیے ناکہ دوسروں کے مسائل کو اپنے گھر میں لاکر اپنا سکون برباد کرلیا جائے۔ دوسروں کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ ہما رے بارے میں سرے سے سوچتے ہی نہ ہوں۔ان کے مسائل کے حل کے لیئے بھی اﷲ سے دعا ضرور کرنی چاہیے۔لیکن ان پریشانیوں کو اپنے سر پر سوار کرکے اپنے آپ کو تما م بیماریوں کی آماجگاہ بنا نا غلط ہے۔اپنے آپ کو صرف اتنا ہی سٹریس دو جتنا آپ برداشت کر سکو۔مسائل کا حل صرف پریشان ہو نے میں نہیں ہے بلکہ ان کا حل تلاش کرنے میں ہے۔اگر پرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہوتو چھوٹے چھوٹے مسائل کو زندگی کا روگ مت بناؤ۔جتنا آپ کسی مسلئے کے بارے میں سوچتے جائیں گے وہ اتنا ہی گھمبیر ہو تا جائے گا۔مسائل کو کبھی بھی خود پر سوار مت کریں بلکہ اپنا وقت ان کا حل ڈھونڈنے میں لگائیں اور دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کریں ‘‘۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 80691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.