پاکستان میں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے تحت ریاستی اداروں کے
خلاف ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کا تعلق
مخصوص قومیت سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن درحقیقت مخصوص قومیت کا
ریاست کے خلاف رویہ کبھی غیر معاندانہ نہیں رہا۔ شمال مغربی علاقوں میں ہی
نہیں بلکہ پورے پاکستان میں پختون قومیت سے متعلق لوگ لاکھوں کروڑوں کی
تعداد میں رہتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف نفرت یا اشتعال انگیزی کی کسی
سازش کو کسی بھی قوم کا نام لے کر استعمال کرنے کی سازش قابل مذمت ہی قرار
دی جائے گی، اس قسم کی تحریکوں کی حمایت نہیں کی جاسکتی۔
یہاں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ریاست اپنا کردار درست ادا کررہی ہے یا
نہیں۔ اس کے مقاصد کیا ہیں اور اس کا رویہ کیوں اور کس نظریے کے تحت ہے۔
احتجاج و مظاہرے کرنا ملکی آئین کا حصہ نہیں، لیکن جمہوریت میں کسی کو بھی
حق حاصل ہے، اس کے جواب میں ریاست کیا کردار ادا کرتی ہے، اس بات کو سمجھنے
اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔ شاید ہم سب اچھی طرح سمجھ نہیں سکتے کہ مٹھی بھر
افراد پوری ریاست کی رِٹ کو چیلنج کررہے ہیں اور اس سے عام اذہان متاثر
ہورہے ہیں۔ کسی بھی مسئلے کا حل طاقت و جبر نہیں ہوسکتا۔ ریاست کو ماں کا
درجہ دیا جاتا ہے، ماں ہر اچھے، بُرے بیٹے کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے، اس
کے نزدیک اس کا کوئی بیٹا بُرا اور اچھا نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف بیٹا ہوتا
ہے۔
لیکن ’’کیا تم ماں کی مذمت سن سکتے ہو؟ وطن ماں سے عظیم تر ہے کہ ماں نہ ہو
تو وطن کی ہر ماں ہماری ماں بن سکتی ہے۔ لیکن وطن نہ ہو تو دنیا بھر کی
مائیں اس کا نعم البدل نہیں ہوسکتیں۔ آن اور جان کا یقینی تحفظ ہر وقت وطن
کے تحفظ کی خاطر آن اور جان قربان کرنے کو تیار رہنے میں ہے۔‘‘ محترم حاوی
اعظم کے یہ الفاظ میری رگوں میں سنسنی پیدا کرتے چلے گئے۔ کتنی سچائی ہے کہ
وطن کی اہمیت، ماں کی قدر سے زیادہ ہے۔ ضروری نہیں کہ اس اظہار سے ہر کس و
ناکس کو اتفاق بھی ہو، لیکن مجھے کامل یقین ہے کیونکہ اس سوچ کو اگر ہم
اپنالیں تو کروڑوں انجانے، جانے بن جاتے ہیں، ماں تو اپنی اولاد سے یکساں
محبت کرتی ہے، اولاد اس کی آنکھوں کا نور ہوتی ہے، اُس کے دل کا ٹکڑا ہوتی
ہے، اس کی تکلیف پر درد سے خود تڑپ اٹھتی ہے۔ اولاد غم زدہ ہوتو اپنے کلیجے
سے لگالیتی ہے، اولاد نافرمان بھی ہو تو اس کی آغوش پیار کے لمس و گداز کے
احساس سے موجزن ہوتی ہے، لیکن۔۔۔ اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ماں مینارِ
الفت ہو، لیکن اُس کی نافرمان اولاد مسلسل اس کی نافرمانی کرکے اسے دنیا
میں رسوا کرتی پھرے۔ بابائے قومؒ نے 14فروری 1948 کو سبی دربار میں تقریر
میں فرمایا:
’’میرے پیشِ نظر ہمیشہ اسلامی ڈیموکریسی کا اصول رہا ہے۔ یہ میرا ایمان ہے
کہ ہماری نجات کا راز اِن سنہرے اصولوں کی اتباع میں ہے، جنہیں نبی اکرم ﷺ
نے ہمیں عطا فرمایا۔ لہٰذا ہمیں اپنی ڈیمو کریسی کی بنیاد حقیقی اسلامی
نظریات اور اصولوں پر رکھنی چاہیے۔‘‘ (تقاریر گورنر جنرل صفحہ نمبر56)۔ اور
من حیث القوم حقیقی بنیاد کیا ہے، اس کا اظہار قائداعظمؒ نے 7 اپریل 1948کو
گورنمنٹ ہاؤس پشاور میں ایک قبائلی جرگہ کے ساتھ گفتگو کے دوران فرمایا:
’’ہم مسلمان، ایک خدا، ایک کتاب (قرآن مجید) اور ایک رسول ﷺ پر ایمان رکھتے
ہیں، اس لیے ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے صف بستہ کھڑے ہونا ہوگا۔‘‘
عین ممکن ہے وہی بات ہو تیرے دل میں
جس کے اظہار نے ڈالا ہے مجھے مشکل میں
جب مسلمانوں نے ایک قوم بن کر وطن حاصل کیا تو یہ خطہ اراضی پاکستانیوں کی
ماں کہلائی، لیکن جو غیر مسلم پاکستان میں رہ گئے، ریاست اُن کی بھی ماں بن
گئی اور جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے وہ ’’ماں تجھے سلام، بندے ماترم‘‘
کہہ کر اپنے خطے کو مادرِ وطن کہنے لگے۔ ہم فخر سے قوم کو ماں کی آواز
سناتے ہیں کہ ’’میں نے جنما ہے تجھ کو وطن کے لیے‘‘ اور ماں کو ہم کہتے ہیں
’’ایہہ پُتر ہٹاں تے نئیں وِکدے‘‘۔ لیکن ہم اپنی ماں کی حفاظت نہیں کرسکے،
کسی بھی بڑے سانحے میں ہم سب ایک ماں کے لیے یکجا ہوجاتے ہیں، اختلافات ختم
کردیتے ہیں، لیکن پھر سب کچھ بھول کر اپنے فروعی مفادات کے حصول میں لگ
جاتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگ کو جاری رکھنا، وطن کو ماں کا درجہ
دینے والوں کے بس سے باہر ہوتی جارہا تھا، یہی وجہ تھی کہ پھر ہماری مائیں
الگ الگ ہوگئیں، مشرقی پاکستان کے عوام کی ماں بنگلادیش ہوگئی۔ مغربی
پاکستانی ریاست، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے نئی ماں بن گئی۔
وطن کا ایک حصہ نظریہ پاکستان کو دریائے بنگال میں برد نہ کرتا، ہم ایٹمی
طاقت ہیں، اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہیں، اسلامی بلاک کا حصہ ہیں،
ہم سترہ دن تو کیا، سترہ سال، بلکہ
ستر سال تک لڑنے کو تیار ہیں، گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے، مگر
ایک ماں کے بیٹوں نے اپنی ماں کو زخمی زخمی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں
چھوڑی۔ پاکستان کے ہر صوبے سے اپنی دھرتی ماں کے خلاف صدائیں آنا شروع
ہوجاتی ہیں ہیں۔ لسانی ماں، فرقہ وارانہ ماں اورصوبائی دھرتی ماں کے نعرے
انتخابی سیاست کی ریٹنگ کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکے ہیں۔ اب ہمیں خواب غفلت
سے نکل آنا چاہیے، افیم زدہ قوم دنیا کی معاشی سپرپاور بن گئی اور ہم ابھی
تک اسلاف کے ترانے گارہے ہیں، ماں کہتی ہے کہ لسانیت، عصبیت، عدوات حاوی
ہوچکی ہے حریت، اخوت اور شجاعت پر، اس کا سدباب کریں۔ ماں کی محبت تقسیم نہ
کریں۔ اقتدار کی رسہ کشی میں ماں کو رسّی کا رومال بنانے کے بجائے حرمت کی
چادر بناکر عزت مند ماں کے قدرمند فرزند بن جائیں۔
ریاست کا درجہ بھی ایک ماں کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ ماں اپنی کوکھ میں پلنے
والے ایسے ناراض بیٹوں کی بدگمانیاں دور کرے، جس سے اس کے اور بچوں میں غلط
فہمی پیدا ہورہی ہیں۔ بچّے نافرمان ہورہے ہیں، انہیں خود سے قریب لانے کے
لیے مثبت اقدامات کرے۔ ماں کی عدم توجہ سے ناراض بچے اپنا راستہ خود چننے
لگے ہیں، انہیں سمجھانے سے پہلے ماں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اس کی چھوٹی سی
غلطی کتنے بڑے نقصان کو جنم دے سکتی ہے۔ ریاست بدگمانیوں اور ماورائے قانون
اقدامات کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنے کو ترجیح دے، کیونکہ میں
نے جنما ہے تجھ کو وطن
|