ویلنٹائن ڈے کی حقیقت

ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔‘‘

اس کے علاوہ ایک اور معروف واقعہ جو ویلنٹائن نامی شخص کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اس کے بارے میں بھی عطائاﷲ صدیقی مرحوم لکھتے ہیں’’اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلنٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلنٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے ان خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرآتش کردیا جس پر ویلنٹائن کارڈ فروخت ہو رہے تھے۔یہ تھے وہ واقعات جو عام طور پر ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے مشہور ہیں۔

دین اسلام اور تہوار
ہر مذہب اپنے اندر کچھ تہوار رکھتا ہے۔دین اسلام میں بھی نبی کریم ﷺ نے اپنی قوم کو دو تہوار دیئے۔حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ دورِ جاہلیت میں مدینہ کے لوگ سال میں دو تہوار منایا کرتے تھے۔ جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے تو (صحابہ کرام سے) فرمایا:‘اﷲ تعالیٰ نے تمہیں ان دونوں تہواروں کے بدلہ میں دو اور تہوار عطاکردیئے ہیں جو ان سے بہتر ہیں اور وہ ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی۔‘‘ (صحیح سنن نسائی؛ ۵۶۴۱)غیر مسلموں کے رسم و رواج اور تہواروں کے بارے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کس قدر سنجیدہ اور دور رس نگاہ رکھنے والے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی آئے اور کہنے لگے کہ میں نے ’بوانہ‘ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے (کیا میں اسے پورا کروں؟) آپ نے فرمایا: کیا دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا’’کیا وہاں مشرکین کے تہواروں /میلوں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟‘‘ انہوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ ’’پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اﷲ کی نافرمانی کا عنصر پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں۔‘‘ (ابوداؤد:۳۱۳۳)اس واقعہ سے اندازہ ہوا کہ ایسی جگہوں پہ جانا بھی ممنوع جہاں اس طرح کے کام سرانجام پاتے۔

ثقافت اور مذہب کے درمیان فرق
اب یہاں پہ آکر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے جو بہت بلغ اور دقیق بھی ہے۔وہ یہ کہ ترقی پسند طبقہ کا خیال ہے کہ وہ رسم ورواج جو معاشرے میں پھل پھول جائے ان کو منا لینے میں کیا حرج ہے؟

تو اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ ثقافت حالات کے مطابق نموپزیر ہوتی رہتی جبکہ مذہب کے احکامات اٹل ہوتے،ان میں اگر تغیروتبدل کر دیا جائے تو اپنی اصل شکل میں برقرار نہیں رہتے۔اگرچہ مذاہب میں بھی اتنی نرمی ہوتی مگر اتنی نہیں کہ اس کے بنیادی احکامات کو ہی توڑ مروڑ دیا جائے۔مذہب اور ثقافت اپنی اصل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں،اور ان میں کشمکش چلتی رہتی جیسا کہ ویلنٹائین ہی کی مثال لے لیں تو خود عیسائی مذہب اس کے خلاف ہے۔لہذا ثابت ہوا کہ ہر لچھڑپن کو ثقافت کا لبادہ اوڑھا کر حلال نہیں کیا جا سکتا۔اس کے علاوہ‘‘ویلنٹائن ڈے’’کے ممنوع ہونے کی اخلاقی اور سماجی وجوہات بھی ہیں جو اس تہوار کو منانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتیں فحاشی ہر مذہب میں ایک قبیح فعل ہے فحاشی اور عریانی کو ہر مذہب نے حرام قرار دیا ہے۔دین اسلام تو ہے ہی پاکیزہ اور صالح لوگوں کا دین،قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’یقینا ً جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش (و بے حیائی) پھیلے وہ دنیا اورآخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔‘‘(النور:۹۱)جبکہ ویلنٹائن تو ہے ہی بے حیائی اور فحاشی کا دن۔لہذا اسے کسی صورت بھی ایک صالح معاشرہ اختیار نہیں کر سکتا۔دین اسلام مین غیر مسلموں کی مشابہت اور ان کے طورطریقوں سے بچنے کا درس دیا گیا ہے۔حدیث مبارکہ ہے
’’جس نے غیروں کی مشابہت کی وہ انہیں میں سے ہے۔‘‘ (ابوداؤد:۱۳۰۴)

خلاصہ کلام
ویلنٹائن ڈے کو منانا مذہبی،اخلاقی اور معاشرتی سطح پر غلط اور ممنوع ہے۔اسلام نہ صرف برائی کا سد باب کرتا ہے بلکہ برائی کی طرف جانے والے ہر راستے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ویلنٹائن ڈے فحاشی کا دوسرا نام ہے۔اسے معاشرے میں رواج دینا فحاشی کا دروازہ کھولنا ہے۔مغربی معاشرے کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں بن بیاہی مائیں اور بغیر باپ کے بچے فروغ پا رہے ہیں۔
اﷲ ہمیں سیدھے راستے پہ چلنے کی توفیق دے۔
 

Muhammad Salman Usmani
About the Author: Muhammad Salman Usmani Read More Articles by Muhammad Salman Usmani: 182 Articles with 157741 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.