اگر کسی کو جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کا اتفاق ہوا
ہو تو لالہ موسےٰ کے قریب ایک میاں جی نام کا ہوٹل ہے جو شروع میں دیسی گھی
کی دال کی وجہ سے مشہور ہوا مگر اب ہر قسم کا بہترین اور اعلیٰ کوالٹی کا
کھانا وہاں میسر ہے،پرانی بلڈنگ کی طرح پرانا ذائقہ جوں کا توں موجود ہے
البتہ ا ب منرل واٹر کلاس کے لیے ساتھ ایک نئی بلڈنگ میں وی آئی پی سیٹ اپ
بھی قائم کر دیا گیا ہے،ہم نے متعدد دفعہ صرف میاں جی کی دال کے لیے لاہور
سے واپسی پر جی ٹی روڈ کو ترجیح دی حالانکہ اس طرف سے آنے کے لیے آپ کو
سوہاوہ کی بجائے مندرہ سے چکوال آنا پڑتا ہے کیوں کہ پرویز اشرف کے دور میں
شروع ہونے والا چکوال سوہاوہ پراجیکٹ لگتا ہے دوبارہ پرویز اشرف ہی آکر
مکمل کریں گے، ن غنوں نے اپنے دور حکومت میں اس سڑک کا بجٹ تین گنا بڑھا
دینے کے باوجود سوائے علاقہ مکینوں پر دھول مٹی چھڑکنے کے کچھ نہیں کیا، ہم
نے میاں جی ہوٹل سے جب آخری بار کھانا کھایا تو ریٹ کو پچھلی بار سے کافی
مختلف پایاوجہ پوچھی تو کاؤنٹر پر بیٹھے منیجر صاحب نے روایتی انداز میں
خرچوں کا رونا رویا کہ جناب اب مجبوری ہے اس کے بنا گذاراہ مشکل ہے بدلتے
حالات کے ساتھ ریٹ بدلنا مجبوری ہے ، کام کا بے پناہررش اور گاہکوں کی لائن
دیکھ ایک دفعہ تو ہمارا بھی جی للچایا کہ کیوں نہ ہم بھی یہی کام شروع کر
دیں اور ادھر ہی اسی جگہ پر شروع کر یں ،من ہی من میں سوچا کہ اگر سڑک کے
پار کھڑے ہو کر کوئی شخص جس کے باپ داد ا نے ہوٹل تو دور کی بات کبھی
کھوکھا بھی نہ چلایا ہو آوازیں لگانا شروع کر دے کہ او لوگومیاں جی والے
ظلم کر رہے ہیں دو سو کی ایک پلیٹ دال اور ساڑھے تین سو میں مٹن کی پلیٹ
کہاں کا انصاف ہے،یہ ظلم نہیں چلنے دینا یہ ہوٹل مجھے لیکر دو میں پچاس
روپے کی دال اور سو روپے میں مٹن کی پلیٹ دوں گا ایک دفعہ مجھے دو تو سہی
پھر دیکھو ،لوگ تجربے کی بجائے حلیہ دیکھ کر میاں جی ہوٹل پر ہلہ بول دیں
اور پرانی انتظامیہ کو اٹھا کر باہر پھینک کر قبضہ اس ہاہا کار مچانے والے
کو دے دیں اور کنٹرول شور مچاتی سرکار کو دے دیں ، نئے صاحب جنہیں ہوٹل دو
دور کی بات گھر کے کچن کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں انقلابی اعلان کریں کہ
دیکھو بھئی مانا کہ یہاں بہت رش ہے ایک وقت میں تین سے چار سو لوگ کھانا
کھا رہے ہوتے ہیں مگر کھلانے والا عملہ بہت زیادہ ہے ہم نے سستا کھانا
فراہم کرنا ہے جس کے لیے خرچہ کنٹرول کرنا ہے لہٰذا عملہ صرف دو بندوں پر
مشتمل ہو گا ،دیگچہ بھی ایک ہو گا جگ گلاس کے بھی صرف دو سیٹ ہوں گے ہوٹل
کی ملکیت تمام گاڑیاں اور لوڈر رکشے آج ہی نیلام ہوں گے ،بھلے کچھ ساتھی
چیختے رہیں کہ جناب دو آدمیوں سے ہوٹل نہیں چل سکتا پکائے گاکون ،کھلائے گا
کون،برتن کون دھوئے گا،پارکنگ میں کون ہو گا،پانی کا انتظام کون کرے گا،
گاڑیاں کون پارک کروائے گا،گاڑیوں کی رکھوالی کون کرے گا،لان میں لگے پودوں
کو پانی کون دے گا،بجلی کا کوئی سوئچ یا لائٹ خراب ہو گئی توکون ٹھیک
کروائے گا،جنریٹر کا انتظام کس کے پاس ہو گا روز مرہ کی خریداری کہاں سے ہو
گی کیسے ہو گی کس چیز پہ ہو گی کون جائے گا ، تندور پر کون ہو گا اس کا
ہیلپر کون ہو گا،چکن کڑاہی و مٹن کڑاہی کون بنائے گا،صفائی کون کرے
گا،گاہکوں کا دھیان کون رکھے گا کولڈ ڈرنکس اور پانی کا انتظام کدھر سے اور
کیسے ہوگا،کاؤنٹر پر کون بیٹھے گا اور تو اور جب برتن ہی نہیں ہوں گے تو کس
میں پکے گا ور کس میں سرو ہو گا،مگر نادر شاہی حکم جاری ہوا کہ جو کہہ دیا
سو کہہ دیا ملازم صرف دو ہوں گے اور کوئی گاڑی بھی نہیں ہو گی ایک رکشہ اور
موٹر سائیکل کی اجازت ہے بندے بھی صرف دو ہوں گے ،کیوں کہ مجھے تبدیلی کے
لیے اس کا مالک بنایا گیا ہے اور اس کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ،جب یہ سب ہو
جائے تو بڑی آسانی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کیسی تبدیلی آئے گی اور
کتنی آئے گی، آسان جواب شاید یہ ہو کہ ایسا ممکن ہی نہیں تو سوال یہ ہے کہ
کہ جب ایک ہوٹل دو بندوں سے نہیں چل سکتا تو وزیر اعظم ہاؤس کیسے چل سکتا
ہے ،ہوٹل چلنا ممکن ہے نہ ہی وزیر اعظم ہاؤس،مگر ماننا نہیں کیوں کہ پھر
تبدیلی سرکار پہ حرف آتا ہے ، سوال کریں تو لفافے کا الزام اور گالیوں کی
بوچھاڑ ،جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ یہ تبدیلی بالکل ویسی ہی جیسے
کوئی کھلنڈرا وآوارہ سا لڑکا کسی کالج یونیورسٹی یا روزمرہ جاب پر جاتی
لڑکی کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اسے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے
لبھا لیتا ہے دونوں شادی کے بعد کی زندگی کے حسین خواب دیکھتے ہیں،لڑکا اسے
تصورات کی دنیا میں کہیں بہت آگے لے جاتا ہے اسے بتاتا ہے کہ شادی کے بعد
ہم مری ایوبیا نتھیا گلی کے علاوہ دبئی اور انگلینڈ جائیں گے ،شاپنگ تو
سنگا پور اور پیرس کے علاوہ کہیں سے کرنی ہی نہیں ،بڑا سا گھر ہو گا ہر بچے
کے لیے الگ گاڑی ہو گی،ڈرائیور اور گارڈز اس کے علاوہ ہوں گے کچن میں تو تم
نے کام بالکل نہیں کرنا ناخن خراب ہو جاتے ہیں اس کے لیے دو دو خانساماں
ہوں گے،گرمیوں میں ہمارا گھر سنٹرکولنگ اور سردیوں میں سنٹرلی ہیٹنگ سسٹم
پر ہو گا بس ایک بار تم مجھ سے شادی کے لیے ہاں کر دو پھر دیکھنا میں آسمان
سے تاروں کی بجائے چاند اور سورج توڑ کر لے کے آؤں گا کیوں کہ بندہ اتنی
دور جائے تو اپنی محبوبہ کے لیے کوئی بڑی چیز تو لائے نا ، بس صرف ایک
مسئلہ ہے کہ ہمارے خاندان والوں کو دکھاوا پسند نہیں اس لیے شادی نہایت
سادگی سے ہو گی اور جب وہ قسمت کی ماری شادی کے لیے ہاں کر دیتی ہے دونوں
خود ہی تاریخ طے کرتے ہیں اکثر اوقات معاملات کورٹ میں مکمل ہو جاتے ہیں یا
پھر کسی عزیز کے ہمراہ ند افراد کی مختصر سی بارات آتی ہے اور شادی ہو جاتی
ہے ، رخصت ہو کر جب یہ محترمہ سسرال پہنچتی ہیں تو اگلی صبح ہی پتہ چلتا ہے
کہ راجہ جی بذات خود کسی دوست کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں اور جناب کا اپنا کوئی
گھر ہے ہی نہیں،بڑے افسر بننے کے چکر میں معمولی کام کاج میں دل نہیں لگتا
سو ابا جی نے تین مرلے کے کرائے کے گھرسے بھی فارغ کیا ہو ا ہے،بارات میں
دوست کے چچا اور شادی کرانے والی آنٹی کو امی بنا کر لائے ہوئے تھے کہ امی
ابا ملک سے باہر ہیں،بہن بھائی اپنی اپنی دکان یا چھوٹے موٹے کام دھندوں سے
اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں مو صوف دنیا میں واحد ایک کام یعنی تبدیلی
کے خواب دیکھتے ہیں،یہاں پھر سوال وہی پیدا ہوتا ہے کہ محض خواب دیکھنے سے
بغیر زمینی حقائق کا ادراک کیے کیا کوئی تبدیلی ممکن ہے،جواب ہے کہ ہر گز
نہیں،لو میرج میں جتنی تیزی سے میاں بیوی بننے کے لیے لڑکی لڑکا ایک دوسرے
کے نزدیک آتے ہیں شادی کے بعد حقیقت کھلنے پر اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ایک
دوسرے سے دور جاتے ہیں اور اکثر نتیجہ نہایت بھیانک نکلتا ہے، یہی کچھ اپنے
ہاں بھی ہوا سابقہ ستر سالوں کی لوٹ مار اور چور بازاری سے تنگ آئے عوام
اور زور آوروں نے کنٹینر پہ چڑھ کر خواب دکھانے والے کو آزمانے کا فیصلہ
کیا۔تجربے کی بجائے محض حلیہ اور وعدے قسمیں دیکھ کر اقتدار حوالے کر
دیا،اب نہ سو روپے کی دال مل رہی ہے اور نہ ہی کوئی محل اور اس میں موجود
خانسامے، حالات کا ادراک کیے بغیر تبدیلی کے گھوڑے پر سوا رہونے والوں کو
اب اندازہ ہوا کہ دور کھڑے ہو کر سستے مٹن اور دال کے نعرے لگانا آسان کام
ہے مگر اندر بیٹھ کر پکا کر لوگوں کی میز تک پہنچانا بہت مشکل ، محض شادی
کی تکمیل کے لیے یورپ ور سنگا پور کے محض خواب دکھانے پہ کوئی خرچ نہیں آتا
مگر جیب خالی ہو تو یہی خواب پورے کرنے کے لیے پیرس اور سوئٹزرلینڈ تو کیا
چھانگا مانگا جانا بھی ممکن نہیں،تبدیلی جس اسپیڈ سے آ رہی ہے اگر یہی
اسپیڈ رہی تو پانچ سال بعد نجانے یہ ملک اور اس کے باسی کہاں کھڑے ہوں
گے،حج کے اخراجات پر سو فیصد اضافہ کر کے عوام کو واعظ و نصیحت بھی جاری ہے
کہ یہ صاحب استطاعت پر فر ض ہے ہو سکتا ہے قربانی والی عید پر جانوروں کی
قیمتیں بھی اسی طرح بڑھا کر کہہ دیا جائے کہ یہ بھی صرف صاحب استطاعت پر
فرض ہے، بعد میں آنیوالوں کو یہ ایسا نادر نسخہ سمجھایا ہے تبدیلی سرکار نے
کہ جو جس طرح چاہے ریٹ بڑھا دے،چھ ماہ میں آپ تین بجٹ پیش کر چکے ہیں، جب
آپ استطاعت ہی چھین لیں تو پھر کیسی قربانی اور کیسا فرض ،آپ جو کچھ بھی
کرتے چلے جا رہے ہیں کرتے جائیں آپ کے ڈھولچی اور نمک خوار آپ کے ہر غلط
کام کی توجیح بھی پیش کرتے رہیں گے مگر یاد رکھیے گا کہ عوام نے آپ کو اپنے
حالات میں حقیقی تبدیلی کے لیے ووٹ دیے تھے،اگر حکمرانوں سے تبدیلی نہ لائی
جا سکے تو ایک وقت آتا ہے کہ عوام خود تبدیلی لے آتے ہیں،شام،لیبیاتیونس ،ترکی
اور پیرس کی مثالیں تو ابھی دھندلی بھی نہیں ہوئیں،اﷲ جب عطا کرنے پر آتا
ہے تو حیران کر دیتا ہے مگر جب لینے یعنی حقیقی تبدیلی پر آتاہے تو حیران
ہونے کا موقع بھی نہیں دیتا، زیادہ دور مت جائیے میاں نواز شریف اور پرویز
مشرف آپ کے سامنے ہی تو ہیں،،، |