اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ !
محترم قارٸین آج آپ کے سامنے برادرم تنزیل صدیقی صاحب کا شکریہ ادا کرتے
ہوۓ حاظ عبداللہ غازی پوری رحمةاللہ علیہ کی زندگی کا ایک واقعہ پیش کرنا
چاہتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے موجودہ دور کے تمام علما کو
ایسا بنا دے آمین
استاذ الاساتذہ حافظ عبد اللہ غازی پوری رحمہ اللہ کی زندگی کا ایک حیرت
انگیز واقعہ
"دبستانِ نذیریہ" جلد دوم سے ایک ورق
حافظ صاحب کو اشاعت و دعوتِ دین کی کیسی لگن تھی اس کا اندازہ اس غیر
معمولی واقعے سے ہوتا ہے جو ان زندگی میں رونما ہوا۔ اگر یہ واقعہ کسی ایسے
عالم کی زندگی میں رونما ہوتا جس کے دل میں دنیا کی معمولی سی طلب بھی اپنی
جگہ رکھتی ہے تو واقعے کی ہیئت اور اس کا نتیجہ بالکل بدل کر رہ جاتا لیکن
حافظ صاحب کے طرزِ عمل اور اس طرزِ عمل سے پیدا ہونے والے نتائج نے ثابت کر
دیا کہ وہ ایک بے غرض اور صحیح معنوں میں ولی اللہ تھے جو اس عہدِ ظلمت میں
لوگوں کی رشد و ہدایت کے لیے تشریف لائے تھے۔ یہ واقعہ مولانا مختار احمد
ندوی نے حضرت حافظ صاحب کے ایک شاگرد سیّد منظور الحسن آروی (مالک ستارہ
ہند پریس کلکتہ) کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے۔(۱) بعد میں اسی واقعے کو
معمولی سی تبدیلی کے ساتھ مولانا مولانا ابو علی اثری نے بھی اپنے مضمون
میں نقل کیا ہے۔(۲) ہم یہاں اس واقعے کو اپنے الفاظ میں نقل کر رہے ہیں۔
’’زباں میرا ہے بات ان کی‘‘
حضرت محدث غازی پوری جب آرہ میں فرائض تدریس انجام دے رہے تھے اور ان کے
زہد و اخلاق کا شہرہ پورے بہار میں تھا تو پٹنہ کے مشہورِ انام بیرسٹر علی
امام اور ان کے چند قریبی دوستوں نے ان کی اخلاقی قوت کی آزمائش کا ارادہ
کیا۔ پروگرام کے مطابق ان کو خط لکھا گیا:
’’ہم سب آپ سے کچھ فیض حاصل کرنے کے مشتاق ہیں۔ اگر آپ تکلیف کر کے پٹنہ
تشریف لائیں تو آپ کا بڑا کرم ہو گا۔ آپ اپنی تشریف آوری کے لیے جو تاریخ
اور وقت مقرر فرمائیں گے، ہم سراپا انتظار رہیں گے۔‘‘
یہ خط ملتے ہی حافظ صاحب نے انھیں جواب لکھا اور اپنی آمد کی تاریخ سے
آگاہ کیا۔ وقتِ مقررہ مدرسے سے چھٹی لی اور ہاتھ میں عصا اور کچھ زادِ راہ
لے کر روانہ ہو گئے۔ مدرسے کے کچھ طلبا بھی اسٹیشن تک پہنچانے کے لیے
باصرار ساتھ ہو گئے۔ طلبا نے راستے میں عرض کی کہ شہر سے اسٹیشن تک سواری
کا کرایہ صرف ایک آنہ ہے، آپ یکہ پر بیٹھ جائیں۔ فرمایا: ہاں بھائی تم صحیح
کہتے ہو۔ اس طرح ان کو باتوں میں ٹالتے ہوئے پیدل ہی ان تمام طلبا کے ساتھ
اسٹیشن پہنچ گئے اور وہ ایک آنہ جو یکہ کی سواری میں صرف ہوتا، جیب سے نکال
کر ایک فقیر کو دے دیا۔ حافظ صاحب کی نظر میں اپنی جسمانی راحت و آرام سے
زیادہ کسی مفلوک الحال کی دل جوئی عزیز تھی۔ گاڑی آئی طلبا کو روانہ کیا
اور پٹنہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ پٹنہ اسٹیشن پہنچے تو خلافِ توقع بلانے
والوں میں سے کوئی بھی ان کو لینے کے لیے موجود نہیں تھا۔ سخت متردد اور
پریشان ہوئے، لیکن پھر خیالات کو جھٹکتے ہوئے پٹنہ کے اس مشہور بیرسٹر کا
پتہ پوچھتے ہوئے چل دیے جو ان کی ’’اخلاقی آزمائش‘‘ کی تیاری کرکے بیٹھا
تھا۔ بالآخر سر علی امام کی عالی شان کوٹھی کے سامنے پہنچ گئے اور تعلیمِ
اسلام کے عین مطابق دربان کو جو کھڑا پھاٹک پر پہرہ دے رہا تھا، بآواز بلند
السلام علیکم کہا۔ دربان جس کی پوری زندگی ادب و سلام اور صاحب و سلامت
کرتے کرتے گزر رہی تھی، ایک ملکوتی صورت نووراد کی زبان سے اپنی عزت و قدر
افزائی سن کر بہت خوش ہوا۔ پھر حافظ صاحب نے بڑی عزت اور محبت سے دربان سے
پوچھا: بھائی بیرسٹر صاحب کا مکان یہی ہے نا، میں ان سے ملنے آیا ہوں۔
دربان نے اندر اطلاع کی اور آپ فوراً بلوائے گئے۔ سوچی سمجھی اسکیم کے
مطابق اندر سر علی امام اور ان کے تمام رفقا بیٹھے گپ شپ میں مشغول تھے۔
حافظ صاحب اندر تشریف لے گئے اور حسبِ عادت و طریقِ اسلام، سلام و مصافحہ
کر کے کھڑے ہو گئے۔ پروگرام کے مطابق ان میں سے کسی نے ذرہ برابر حافظ صاحب
کی طرف اپنی توجہ منعطف نہیں کی، در خور اعتنا نہیں سمجھا۔ ذرا چشم تصور
میں اس مجلس کو ذہن میں لائیے۔ ایک طرف بہار ہی نہیں متحدہ ہندوستان کی ایک
بہت بڑی دینی درس گاہ کا صدر مدرس کھڑا ہے اور دوسری طرف اسے بلانے والے
آپس میں ہنسی مذاق اور مخول کی مجلس جمائے بیٹھے ہیں۔ جب حافظ صاحب نے
دیکھا کہ کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں ہو رہا تو فرمایا:
’’بھائی! آپ نے مجھ کو خط لکھ کر پٹنہ بلایا تھا، لہٰذا میں حاضر ہو گیا
ہوں، کیا حکم ہے؟‘‘
لیکن مجلس پر گویا اس کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ مجلسِ عیش و طرب اور طنز و
مزاح اسی طرح برقرار رہی۔ نہ ہی پوچھے گئے سوال کا کسی نے جواب دیا۔ وقت کا
یہ جلیل القدر محدث اسی طرح کھڑا ہے، کسی نے بیٹھنے کے لیے بھی نہیں کہا،
وقت آہستہ آہستہ سرکتا رہا یہاں تک کہ پٹنہ سے آرہ جانے والی ٹرین کا وقت
آگیا۔ حافظ صاحب نے واپس جانے کی اجازت چاہی تو انتہائی بے رخی کے ساتھ
جواب ملا ’’ آپ جا سکتے ہیں۔‘‘
حافظ صاحب نے الوداعی سلام کیا اور اسی طرح ہنسی خوشی آرہ واپس چلے آئے کہ
گویا کوئی واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں۔ نہ طبیعت میں کوئی انقباض اور نہ مزاج
میں کسی قسم کی کوئی گرانی۔
اس واقعہ پر چند دن اسی بے فکری کے ساتھ گزر گئے گویا اس واقعہ کو حافظ
صاحب اپنے گوشۂ حفظ سے محو کر چکے ہوں کہ ایک دن اچانک پھر ان ہی سر علی
امام کا خط آیا جس میں بڑے ادب و احترام اور اعتراف شرم و ندامت کے ساتھ
درخواست کی گئی تھی کہ آپ تشریف لائے لیکن ہم اپنی بد نصیبی کے باعث
مستفید نہ ہو سکے، آپ دوبارہ تشریف لائیے اور اپنے فیوض و برکات سے مستفید
فرمانے کا موقع دیجیے۔ دوسرا کوئی ہوتا تو اس کھلے مذاق پر خط چاک کر دیتا،
لیکن حافظ صاحب اپنی شانِ للّٰہیت کے ساتھ، دل میں تبلیغ و اشاعت دین کا
جذبہ لیے عازم پٹنہ ہوئے۔ لیکن اس بار جب پٹنہ اسٹیشن پہنچے تو وہاں سر علی
امام، ان کے رفقا اور دیگر عمائدین شہر حافظ صاحب کے لیے چشم براہ تھے۔
لوگوں پر حافظ صاحب کی اس غیر معمولی اخلاقی طاقت نے اس قدر اثر کیا کہ
احساسِ ندامت سے اکثر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے اور اپنی گستاخی کی
معافی مانگ رہے تھے۔ لوگ حافظ صاحب کو عزت و تکریم کے ساتھ گھر لائے، خاطر
و مدارات کی اور عرض کیا:
’’ہم نے عہد سلف کے بزرگوں کی علمی و اخلاقی قوت کے قصے کتابوں میں پڑھے
تھے۔ آپ کے اتباع سنت، تقویٰ و للّٰہیت کا شہرہ کئی دن سے سن رہے تھے، بس
ہم نے آپ کو آزمانے کے لیے ہی تکلیف دی تھی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ آپ ہمارے
وہم و گمان سے کہیں بڑھ کر نکلے۔ سچ ہے کہ ہم آپ کے فیوض و برکات کو ذریعہ
سعادت سمجھیں گے۔‘‘
حافظ صاحب کی اس غیر معمولی اخلاقی قوت نے کتنوں کے دل بدل دیے اور صرف یہ
ایک عمل اپنی تاثیر میں کتنے ہی مواعظ و نصائح پر بھاری رہا۔
حواشی
(1) ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (دہلی): یکم مئی ۱۹۶۲ء
(2) ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (لاہور): ۲ نومبر ۱۹۶۲ء
|