تحریر: ام محمد عبدﷲ، جہانگیرہ
بابا جانی! کتنے خوبصورت دل کی شکل کے غبارے ہیں اور یہ پھول سرخ، گلابی
اور سفید یہ بھی لے لیتے ہیں۔ غبارے کاشف کے لیے اور پھول مہمانوں کی آمد
پر ڈرائنگ روم میں سجائیں گے۔ سلمان اپنے باباجانی کے ہمراہ مہمانوں کی آمد
پر خریداری کے لیے مارکیٹ جا رہا تھا کہ راستے میں جا بجا دل کی شکل کے
غبارے، کبوتر اور فاختہ کی تصاویر اور خوبصورت پھول اس کی توجہ کا مرکز بن
رہے تھے۔ نہیں! یکدم بابا جانی کے چہرے پر سنجیدگی در آئی۔ لمحہ بھر کو
سلمان کچھ حیران ہوا اور پھر یکدم اسے یاد آیا اسکول میں تفریح کے اوقات
میں کچھ بڑے لڑکے ایسے پھولوں اور غباروں کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ہاں کیا کہہ
رہے تھے وہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘۔امی، امی جان! میں صبح اسکول سرخ دوپٹہ لے کر
جاؤں گی۔ تفریح کے دوران ہم سب لڑکیاں سرخ دوپٹے اوڑھیں گی۔ امی کے ساتھ
مہمانوں کی آمد پر کام میں مدد کرواتی سائرہ کی فرمائش پر امی جان کو لگا
جیسے ان کا سانس کہیں سینے میں ہی اٹک گیا ہے۔ کیوں سائرہ کیوں سرخ دوپٹے
اوڑھیں گی آپ لوگ؟ ’’وہ کل ویلنٹائن ڈے ہے ناں امی جان‘‘، سائرہ نے نہایت
سہولت اور معصومیت سے انہیں بتایا۔
’’ویلنٹائن ڈے۔ ایک ایسا مغربی تہوار ہے۔ جو دنیا کے کسی مذہب، کسی مہذب
اور باشعور معاشرے کو قبول نہیں۔ اس کی بنیاد میں بے حیائی اور بے غیرتی کے
سوا کچھ بھی نہیں۔ محبت کے نام پر مرد اور عورت کی آزاد دوستی کا دن۔ ایسا
دن جو انہیں اشرف المخلوقات کے درجے سے گرا کر بس ایک حیوانی سطح پر لے آتا
ہے بلکہ جانور بھی کچھ اصول و ضوابط کے تحت زندگی گزارتے ہیں جب کہ
ویلنٹائن ڈے ان تمام قواعد و ضوابط کے خلاف بغاوت کا دن ہے‘‘، بابا جانی
سلمان کو بتا رہے تھے۔
’’سائرہ! ہماری بچیاں کیوں کافروں کی مشابہت میں 14 فروری کو سرخ لباس پہن
کر انہیں میں سے ہونے کا ثبوت دیں؟ پیارے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اہل
مدینہ سے فرمایا تھا، ’’تمہاری جو عیدیں ہیں ﷲ تعالی نے ان سے بہتر عیدیں
تمہیں عطا کی ہیں عید الفطر اور عیدالاضحی‘‘۔ یہ ابو داؤد اور ترمذی شریف
کی حدیث ہے۔ ان دو عیدین پر تم اپنی پسند کا لباس بھی پہننا، سہیلیوں سے
ملنا ملانا، انہیں تحفے بھی دینا، ہر طرح سے خوشی منانا، دلی خوشی بھی حاصل
ہوگی اور ثواب بھی امی جان نے سائرہ کو پیار سے سمجھایا۔
’’بابا جانی! محبت تو ایک خوبصورت جذبہ ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے کتنی محبت
کرتے ہیں۔ اگر ہم اس کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں برا اور غلط کیا ہے؟
سلمان کو اپنے باباجانی کی طرف سے یہ اعتماد حاصل تھا کہ وہ ادب و احترام
کے ساتھ اپنی ہر ذہنی الجھن سلجھا سکتا تھا‘‘۔ ’’بیٹا! بھوک ایک فطری ضرورت
ہے۔ کیا اس ضرورت کو پورا کرنے کے کچھ قواعد اور ضوابط کا خیال نہیں رکھا
جاتا؟ کیا پیاس لگنے کی صورت میں تم پانی تک رسائی چاہو گے یا پٹرول ملا تو
وہی پی جاؤ گے۔ کیا بھوک لگنے کی صورت میں گھر پہنچ کر طیب اور پاکیزہ
کھانا کھاؤ گے یا راستے میں اگی گھاس کھانے لگ جاؤگے‘‘؟ بابا جانی نے سوال
کے جواب میں الٹا سلمان ہی سے سوال کر لیا۔ جواباً وہ ہنس دیا۔ پانی اور
کھانا ہی مطلوب ہوگا بابا جانی۔
’’عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ محبت ان کی خیر خواہی اور تبادلہ تحائف
مطلوب ہے بیٹا! والدین کے ساتھ نیکی کرو۔ خالہ ماں کی جگہ ہے۔ چچا باپ کی
جگہ ہے۔ یہ اور ان جیسے تمام رشتے محبت کے متقاضی ہیں۔ میاں بیوی کا رشتہ
تو محبت و پیار کے احساس کے ساتھ ہی نبھایا جاتا ہے‘‘، باباجانی نے مسکرا
کر سلمان کو دیکھا۔ ﷲ تعالی کی شریعت میں جو چیز نامطلوب ہے۔ وہ ہے فحاشی
اور عریانی ہے یعنی بے حیائی۔ حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، ’’جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے
کرو‘‘۔ (بخاری ومسلم) یعنی شرم و حیا کا دامن جس نے چھوڑ دیا اس نے ہر
برائی سے ناطہ جوڑ لیا۔
سائرہ! مجھے اور تمہارے بابا جانی کو تم سے شرم و حیا مطلوب ہے میری شہزادی۔
ابھی تو تم چھوٹی ہو لیکن جیسے جیسے تم بڑی ہوگی اور تعلیم یا کسی اور
معاملے میں تمہیں کسی نامحرم مرد سے بات کرنا پڑے تو تم سنجیدگی کے ساتھ
بات کرو گی۔ ناز و انداز تو دور کی بات، تمہارے لب و لہجے میں نرمی بھی نہ
ہونی چاہیے کہ مبادہ کوئی دل کا روگی کوئی غلط مطلب لے سکے۔ بالکل نہ
گھبرانا اگر تمہیں کوئی اس کی وجہ سے بدمزاج یا سڑیل یا نک چڑھی جیسے
القابات سے نوازے۔ تم مطمئن رہنا کہ ﷲ کا حکم یہی ہے۔ ابدی محبت پانے کا،
کامیابی کی منزل پانے کا راستہ یہی ہے۔
ابھی تو تم بچے ہو لیکن سمجھ لو بیٹے کہ مجھے اور تمہاری امی جان کو تم سے
شرم و حیا اور پاکدامنی مطلوب ہے۔ زندگی میں تمہارا واسطہ جب کبھی نامحرم
عورتوں سے ہو تو تمہاری نگاہیں جھکی ہوں اور تم اپنے ذہن و دل میں آنے والے
افکار و خیالات کے محافظ ہو۔ ایسا کرنے سے ممکن ہے تمہیں تنقید کا نشانہ
بنایا جائے لیکن جان لو سلمان ہمیں لوگوں کی تنقید سے نہیں ڈرنا۔ ہمیں اس
بے حیائی سے ڈرنا ہے جس کا نتیجہ ﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے جہنم بتایا ہے۔
ﷲ تعالی بچوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آج توسائرہ کی فرمائش نے مجھے
ڈرا ہی دیا۔ مہمانوں کے چلے جانے کے بعد اپنے سب کام سمیٹ کر امی اور بابا
جانی آپس میں گپ شپ کے موڈ میں تھے۔ ہاں سلمان بھی ویلنٹائن ڈے سے متعلق
پوچھ رہا تھا مجھ سے۔ ابھی تو ہمارے بچے چھوٹے ہیں لیکن میں سوچتی ہوں جیسے
جیسے یہ بڑے ہوں گے۔ چاہنے اور چاہے جانے کی خواہش جنم لے گی۔ محبت کا نرم
و نازک جذبہ کسی کونپل کی مانند سر اٹھائے گا اور معاشرے میں پھیلی بے
حیائی چاروں جانب سے حملہ آور ہوگی۔ ایسے میں ہمارا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
امی جان مستقبل کا سوچ رہی تھیں۔ہم اپنے بچوں کی شادیاں اسلامی احکامات کے
مطابق مناسب عمر میں کریں گے۔ محبت کی اس کونپل کو نکاح کے تحفظ میں شجر
سایہ دار بنائیں گے۔ بابا جانی نے مسکرا کر امی جان کی جانب دیکھا۔
میں سوچ رہا ہوں ہر ماہ کچھ رقم پس انداز کر کے کچھ مدت بعد کوئی دکان یا
چھوٹا سا مکان خرید لیا جائے۔ سلمان کی تعلیم مکمل کرنے اور روزگار حاصل
کرنے تک اس کی شادی مؤخر نہ کی جائے بلکہ اس دکان یا مکان کا کرایہ اس وقت
تک سلمان کے خاندان کے لیے مختص کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ خود کسی بہتر
روزگار یا بزنس سیٹ کرنے میں کا میاب ہو جائے۔ جی ہاں سائرہ کے حوالے سے
بھی میں ایسا ہی سوچتی ہوں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری اور رشتوں
کو نبھانے کا سلیقہ میری بیٹی سیکھ جائے تو ﷲ اور اس کے رسولﷺ کا خوف رکھنے
والا کوئی مرد صالح اس کا ہمسفر ٹھہرے۔ بہت مالدار اور بہت خوبصورت کے چکر
میں ہمیں نہیں پڑنا۔ امی جان نے بھی اپنا خیال ظاہر کیا۔
قاسم بھائی نے اپنے بچوں کی شادیاں صحیح وقت پر کی ہیں۔ ان کے گھر جاؤ تو
تازگی کا سا احساس ہوتا ہے۔ دادا، پوتا، بیٹا سب جوان۔ امنگوں اور
توانائیوں سے بھرا پرا گھر۔ کوئی جنریشن گیپ نہیں۔ بابا جانی نے تبصرہ کیا۔
ان شاء ﷲ ہم بھی ایسے ہی کریں گے۔ ’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنے ازواج اور
اولاد سے آنکھوں کی ڈھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا امام بنا‘‘۔ ان دونوں
کے دل اور زبان ﷲ رب العزت کے دربار میں فریادی تھے۔ |