جنس (sex) کا داعیہ ایک بنیادی انسانی جبلت (Instinct) ہے۔
انسانی زندگی میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ جنسی جذبے کے بغیر نسل انسانی آگے
نہیں بڑھ سکتی۔ جنس کے بغیر صرف ایک نسل کے بعد پوری انسانیت دم توڑدے
گی۔یہی جذبہ مردو عورت کو مجبور کرتا ہے کہ وہ باہم اکٹھے ہوں اور خاندان
کا ادارہ تشکیل دیں۔ خاندان نہ ہو تو معصوم بچے اور ناتواں بزرگ زمانے کی
سختیوں کو جھیلنے کے لیے تنہا رہ جائیں گے۔ مرد و زن کے اس تعلق کی ایک اور
بڑی اہمیت بھی ہے۔ دوسری تمام نعمتوں کی طرح یہ بھی انسانوں کو خالق کائنات
کی ان بے کراں عنایات کا ایک ادنیٰ سا تعارف کراتا ہے جو اس نے جنت کی ابدی
زندگی میں ان کے لیے تیار کر رکھی ہیں۔
مگر انسانوں میں جنس کا یہ داعیہ (Motivation)اپنے ان مقاصد تک محدود نہیں
رہتا۔شیطان انسان کی راہ میں بیٹھتا ہے اور خود اس جذبے کو ایک مقصود
بنادیتا ہے۔اس کا سب سے بڑا نمونہ مغربی معاشروں کی شکل میں ہمارے سامنے
موجود ہے۔ وہاں حیا کا فطری جذبہ بہت محدود اور عفت و عصمت (Chastity) ایک
قدر کے طور پر باقی نہیں رہے۔میاں بیوی کا محدود اور پاکیزہ تعلق مرد و زن
کے بے قید شہوانی تعلق میں بدل چکا ہے۔اس تعلق میں دو انسان’’ شہوانی خواہش
کی تکمیل ‘‘کے لیے باہم ملاقات کرتے ہیں اور دل بھر جانے کے بعد اگلے سفر
پر روانہ ہوجاتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے اسی آزاد تعلق کو منانے کا دن ہے۔اس کی ابتدا کے متعلق یقین سے
نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بت پرست رومی تہذیب سے شروع ہوا یا تثلیث کے فرزندوں
کی پیداوار ہے ، مگر اس کا فروغ ایک ایسے معاشرے میں ہوا جہاں حیا کی موت
نے ہر ’Love Affair‘ کو ’Lust Affair‘ میں بدل دیا ہے۔ مغرب کا یہ تحفہ اب
کرسمس کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ مقبول تہوار بن چکا ہے۔ہر گزرتے سال ،
میڈیا کے زیر اثر، ہمارے ملک میں بھی اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جارہا
ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بے حیائی کو عام کرنے والایہ شرمناک تہوار انسانی تہذیب کے
ساتھ ہماری مشرقی اقدار کو بھی مسخ کرنے میں کا میاب ہوتا نظر آ رہا
ہے۔نتیجہ کار مغرب میں ’’یومِ محبت‘‘ کے طور پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے
منایا جانے والا یہ تہوارگزشتہ چندبرسوں سے ہندوستان کے مثالی سماج میں بھی
دیمک کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس دن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا
دعویدار ہے اسے پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا ہے۔ اب دعویٰ اپنے اندر مروت
ووفاداری کے جذبات سے لبریز ہے یا اس کا مقصد صرف ہوس کی پیاس بجھانا ہے یہ
ایک قابل غور پہلو ہے۔ حیران کن اور عجیب بات یہ ہے کہ یہ تہوار منانے والے
ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ یہ دن منانے کی وجہ کیاہے۔
ہمیں اس سے قطع نظر اس نام نہادتہوار یعنی ’’یوم عشاق ‘‘ کے مفاسد کیا ہیں
اور اس سے ہماری تہذیب اور مریا داؤں کا کس طرح خون کیا جارہا ہے اس پر
روشنی ڈالنا بے حد ضروری ہے۔ کوئی بھی باغیرت اور باحمیت شخص کبھی یہ گوارا
نہیں کرے گا کہ کوئی راہ چلتا شخص اس کی بیٹی کو پھولوں کا گل دستہ پیش
کرتا پھرے۔ اسی طرح کوئی بھی باحیا، با غیرت اور پاکدامن لڑکی کبھی یہ پسند
نہیں کرے گی کہ اس کا کلاس فیلو، یونیورسٹی فیلو یا کوئی بھی راہ چلتا
نوجوان اسے پھول پیش کرے اور محبت کی پینگیں بڑھائے۔ انسانیت کو سلام کہہ
چکے جدید یت پر جان لٹادینے والے نئے معاشرہ کا جس میں جدید اور عصری دانش
گاہوں میں مغربی طرز معاشرت کا اسیربن چکے طبقہ کی تعداد زیادہ ہے، اگر ان
کی فکروں کو ٹٹولیں تو یہ جان کر آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے کہ بظاہر
روشن خیال باور کرانے والا یہ طبقہ دوسروں کی عصمت سے کھیلنے کیلئے تو
لبرلزم کا حامی ہے۔ مگر بات اپنی بہن، بیٹیوں یا ماؤں پر آ جائے تو اس کے
پیروں تلے سے زمین کھسک جاتی ہے۔ اگر یہ طبقہ کسی دوسرے کی بہن، بیٹی کو
رجھانے اور عشق کے نام نہاد لفظوں کا جادو چلاکر آبرو نوچ لے بھنبھوڑلے تو
اسے یہ روشن خیالی کہتا ہے اور جدیدیت کے مکاروں کی اصطلا ح میں یہ کوئی
برائی بھی نہیں ہے۔ مگر جب انہیں معلوم ہوجائے کہ خود ان کی بہن یا بیٹی
اسی روشن خیالی کی بھینٹ چڑھ کر کسی دوسرے کی بانہوں میں جکڑی ہے اوراس کا
بسترگرم کررہی ہے تو ان کی ساری روشن خیالی کافور ہوجاتی ہے اور لمحہ بھر
کیلئے بھی یہ سوچنا گوارا نہیں کرسکتے کہ یہ خود ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔
آئے دن اس قسم کی خبروں سے اخبارات اور نیوزپورٹلس کے صفحات بھرے ملتے ہیں
کہ کسی بھائی نے اپنی بہن کے عاشق کی بس اتنی بات پر زندگیتمام کردی کہ وہ
اس کی بہن کی محبت کا گرویدہ ہوچکاتھا۔آج اسی قسم کی ناپاک سوچ نے پورے
سماج کو وحشی اورقاتل بنارکھا ہے۔واہ رے! مغرب کے جنگلیوں کی تقلید میں یہ
کیسا معاشرہ ہم نے تشکیل دیا ہے جس میں اگر کسی غیر کی بہن بیٹی کو ہوس کا
نشانہ بنانے کیلئے لفظ ’’ محبت ‘‘ کو رسوا کردیں تو یہ جائز ۔ مگر کوئی
دوسرا اگر اسی طرح ہماری بہن، بیٹیوں کے قدموں میں پھول نچھاور کرے تو وہ
قابل گردن زدنی ہے۔ ہم روشن خیال اور لبرل کہلانے کے شوق میں یہ بھول گئے
کہ مغرب کا بے حیا سماج جسے لبرلزم اور آزادی باور کراکر آوارگی کا
سرٹیفکیٹ بانٹ رہا ہے اسے ہی ہمارے ہندوستانی اور مشرقی معاشرے میں بدچلنی
اور بدکرداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی بھول گئے انسانیت کی قباسے
آزاد ہوچکا مغرب اب بن بیاہی ماؤں کو قبول کرچکا ہے اور یہ بات اس کے یہاں
معیوب بھی نہیں رہ سکی، حد تو یہ ہے کہ آج مغرب کے اسکولوں میں بچے اپنی
ماؤں کے نام سے جوڑے جاتے ہیں اوربچے کا باپ کون ہے اسے بہت زیادہ سیریس
نہیں لیا جاتا۔ جبکہ ہمارا ہندوستانی سماج اور مشرقی تہذیب اپنی نسلوں کے
تحفظ اور خاندانی شناخت سے رشتہ جوڑنے کو ہی قابل فخر اور باعث احترام
سمجھتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ’’بے حیائی‘‘ کو تہوار کانام دے کر عشق و
محبت جیسے پاکیزہ لفظ کو رسوا کرنے پیچھے مقصد کیا ہے اور اس بے غیرتی و
ہوس پرستی کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اس دن
کے حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی مستند نہیں
ہے، البتہ ایک خیالی داستان جو اس حوالے سے بہت مشہور ہو چکی ہے، اسے بطور
مثال ذکر کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ’’
ویلنٹائن ‘‘ نامی ایک پادری کو ایک راہبہ سے ’’عشق‘‘ ہو گیا۔ عیسائیت میں
راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا اور اب بھی ممنوع ہے۔ اس نے عشق
کو انتہا تک پہنچانے کیلئے ایک ڈرامہ رچایا اور اپنی معشوقہ سے کہاکہ
’’مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر 14 فروری کو راہب اور راہبہ (بغیر
نکاح کے) صنفی ملاپ کر لیں تو ان پر کوئی حد نہیں لگے گی۔ ‘‘ راہبہ اس کے
چکر میں آگئی اور دونوں ’’جوشِ شہوت‘‘ میں ’’منہ کالا‘‘ کر بیٹھے۔ کلیسا کی
روایات کی یوں دھجیاں اڑانے کی پاداش میں انھیں قتل کر دیا گیا۔ اس پادری
کا نام ’’ویلنٹائن‘‘ بتایا جاتا ہے جسے بعد میں بے حیائی کے پرچم برادرنام
نہاد ’’عشاق‘‘ کی طرف سے ’’شہیدِ محبت‘‘ کا لقب دیا گیا۔ اسی عاشق راہب
ویلنٹائن کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ
وہ داستان ہے جس کی بنیاد پر ایک جنونی گروہ مشرقی معاشرے خصوصاً برصغیر
پاک وہند میں بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ باعثِ شرم یہ ہے کہ اس عاشق راہب
اور معشوقہ راہبہ کا جس مذہب سے تعلق تھا وہ اس تہوار کو اپنا ماننے کے لیے
تیار نہیں ہیں۔ مگر مسلمان ہیں کہ بے حیائی کے اس کلچر کو دل و جاں سے قبول
کیے ہوئے ہیں۔ باعثِ صد افسوس یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر
چھایا ہوا ایک مخصوص گروہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کو ’’یومِ تجدید محبت‘‘ کے طور
پر پیش کرتا ہے۔ ماضی قریب تک ایسی ’’محبت‘‘ کو باعث عار سمجھا جاتا تھا۔
مگر اب اسے باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اگر کسی کو عشق
کی بیماری لگ جاتی تو وہ معاشرے میں اپنی عزت کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے
اس مرض کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔ مگر آج صورت حال یہ بن چکی ہے کہ ہمارا
میڈیا اس مرض کو ایک ’’مقدس شے‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ مشرق میں ایک سوچی
سمجھی سازش کے تحت ویلنٹائن جیسی واہیات تقریبات کو رواج دیا جا رہا
ہے۔مغرب کی اس بے حیائی کو ہمارے یہاں ابتداء میں مشنریز اورمغربی این۔ جی۔
اوز کے تحت چلنے والے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ طور پر
تہوار کی شکل میں منایا جانے لگا، مگر اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ قدروں
، مریاداؤں اور آستھا ؤں کی محافظ کہلانے والی حکومت کے زیر انتظام
یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں بھی یہ وبا ڈیرے ڈال چکی ہے۔ یقیناًان سکولوں
، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہمارے ہی بچے، ہماری ہی بیٹیاں
اور بہنیں ہوتی ہیں جن کو دنیاوی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اپنی تہذیب اور
دین سے دور لے جایا جا رہا ہے۔ گلی کوچوں ، محلوں ، بازاروں ، کالجوں اور
یونیور سٹیو ں میں لفنگے نوجوان ان با حیا اور شریف لڑکیوں کو پھول پیش کر
کے چھیڑ خانی کرتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مغربی تہذیب سے محفوظ رکھنا
چاہتی ہیں۔ عفت و عصمت کی پیکر یہ لڑکیاں اس بداخلاقی کا جواب دینے کے
بجائے عزت بچا کر وہاں سے بچ نکلنے ہی میں عافیت سمجھتی ہیں۔ مختصر یہ کہ
اگر واقعی ہمیں اپنی تہذیب اور اپنے دین و اقدار سے محبت ہے تو دوسروں کی
بہنوں ، بیٹیوں اور ماؤں کو دیکھ کر سیٹیاں بجانے والوں کو پہلے اپنی بہن،
بیٹیوں کی بھی فکر کرنی چاہئے۔
بد نظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب
اپنی بیٹی کا خیال آیا تو دل کانپ گیا |