ویلنٹائن ڈے‘‘ یومِ بے حیائی

ماں کو کیسے پتہ چلے کہ اولاد اس سے محبت کرتی ہے یا نہیں۔۔۔؟اس کے لیے مغرب نے ’’مدرز ڈے‘‘ ایجاد کر دیا۔آخر اولاد کے بھی کچھ حقوق ہیں، لیکن پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں، ہے ناں مغرب، مسئلہ ابھی حل ہو جاتا ہے، لو جی مغرب کی طرف سے ’’چائلڈزڈے‘‘ کا تحفہ حاضر ہے۔اچھا مزدور بھی انسان ہیں، کوئی مسئلہ نہیں۔ہے ناں ہماریہاں ’’لیبرز ڈے۔‘‘ابھی آگے اور بھی بہت سے ’’ڈیز‘‘ تیار ہو ہے ہوں گیجو آہستہ منظرِعام پر آئیں گے، مثلاً ’’بھائی ڈے، بہن ڈے، دادا ڈے، دادی ڈے، نانا، نانی اور اس سیآگے تایا، چاچا،ماما، پھوپھی، ماسی اور اسی طرح سالا، ساس اور سسر ڈیز بھی شاید تیاری کے مراحل سے گزر رہے ہوں گے،جو چند سالوں تک پاکستان کی پاکستان میں انسانیت کا منجن بیچنے والے’’دیسی لبرلز‘‘ کی دکانوں سے بآسانی مل سکیں گے۔ایسے ہی’’امپورٹڈ ڈیز‘‘ میں ایک ویلنٹائن ڈے ہے،جو آج ہماری نسلوں کی تباہی اور اخلاقی موت کا باعث بن رہا ہے۔

’’ویلنٹائن ڈے‘‘ یوم محبت کے نام پر ایک ایسا ناسور ہے جو چند سالوں سے ہماری تہذیب و تمدن اور شرم و حیا کا جنازہ نکال رہا ہے۔ یہ ایک ایسا خود کا شتہ پودا ہے جسے فحاشی و عریانی کے جلومیں مادرپدر آزاد مغربی تہذیب نے سینچاہے۔ ویلنٹائن ڈے وہ دن ہے جس روز پوری دنیا کے بھونڈ، سڑکوں، چوراہوں، گلی کونوں اور کھدروں سے نکل کر بے حجاب بن سنور کر منظرعام پر آنے والی لڑکیوں سے ’’اظہار ِ محبت‘‘ کرتے ہیں۔کچھ سالوں سے نہ جانے یہ وباء کہاں سے آئی ہے اور ہمارے ملک میں بھی 14 فروری کو بڑے اہتمام سے یہ دن منایا جانے لگاہے۔ اس دن ہماری نئی نسل مقصد حیات سے بے پرواہ ہوکر بے شرمی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کہ جسے دیکھ کر شیطان بھی شرمندہ ہوتا ہے۔

14 فروری کو آپ نظارہ کر سکتے ہیں کہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘(جسے ہم اپنی تہذیب کے منافی کہتے نہیں تھکتے)کی سب سے زیادہ دھوم ہمارے ہی گلی محلوں اور گھروں میں پائی جاتی ہے۔ کالج تو بہت دور کی بات ہے‘ پرائمری اور مڈل کے طلباو طالبات بھی اب بڑی پابندی سے اس بے حیائی کے دن کو منانے لگے ہیں۔ اس طرح کم عمری میں ہی ’’بالغ‘‘ ہونے کا کریڈٹ حاصل کرلیتے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر اخبارات میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے بے ہودہ جذبات شائع کئے جاتے ہیں۔ اس طر ح دنیا بھر کے سلسلے ان پیغامات میں موجزن ہوتے ہیں۔کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ لاہور میں این۔سی۔ اے (N.C.A) کے طلبا و طالبات نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم کارڈز، پھول اور چاکلیٹ کے تحائف دے کر بڑے ہی پر جوش انداز میں اس دن کو منائیں گے۔ بہت سے لوگ اس دن کا بڑی بے تابی سے انتظار کرتے ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے گدھ کسی جانور کے مرنے کا۔ بھلا اسلامی تہذیب کے دعوے داروں کو اس مانگے تانگے کی ثقافت کی کیا ضرورت ہے جس کی وجہ سے مغرب(یورپ) کی برہنہ تہذیب آندھی کی طرح ہماری طرف اُمڈتی چلی آرہی ہے۔ آئیے!اب اس دن کو تاریخی حیثیت سے دیکھتے ہیں کہ یہ دن کیسے شروع ہوا اور اس ’’جاہلانہ‘‘ عیسائی رسم کی حقیقت کیا ہے؟

بے غیرتی کا دن:’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے متعلق بہت سی روایات ملتی ہیں لیکن ان میں بہت ہی تضاد پایا جاتا ہے مگر میں قارئین کی خدمت میں تین روایات بیان کروں گا، جن کی آپس میں کچھ مناسبت بھی نظر آتی ہے۔ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی بارہ روایات میں سے سب سے پہلی روایت روم میں قبل مسیح دور کی ملتی ہے۔’’انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا‘‘ میں ہے کہ جب روم کے بت پرست پہلے پہل 15 فروری کو جشن منایا کرتے تھے تو اسے ''The wolf Feast of Luper caqies'' کہتے تھے۔ یہ جشن وہ اپنے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے مناتے تھے۔ یہ لوگ ان دیوتاؤں کو فطرت اور شادی کے دیوی دیوتا سمجھتے تھے۔ اس مخلوط جشن پر یہ لوگ ایک بڑے سے برتن میں پانی ڈالتے اور تمام نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے نام (باپ اور بھائیوں کی موجودگی میں) لکھ کر کاغذ کے ٹکڑوں کی صورت میں اس پانی میں پھینک دیتے تو جو پرچی جس کے ہاتھ پر لگتی وہ لڑکا اس لڑکی کو لے جاتا اور وہ دونوں تمام عمر کے لیے ایک دوسرے کو تحائف دیتے اور رنگ رلیاں مناتے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس تہوار کے موقع پر رومی لڑکے اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔

عاشق مزاج ’’پادری‘‘:رومی بادشاہ Claudies- ii کے دور میں روم کی سرزمین مسلسل کشت وخون کا مرکز بنی رہی اورحالات یہ بن گئے کہ بادشاہ کو اپنی فوج کے لیے مردوں کی تعداد بہت کم نظر آئی کیونکہ رومی لوگ اپنی ’’خوبصورت‘‘ بیویوں کو چھوڑ کر میدان میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اسی کے پیش نظر بادشاہ نے پابندی لگا دی کہ ایک خاص عرصے تک کوئی نوجوان شادی نہیں کرسکتا تاکہ نوجوان زیادہ سے زیادہ فوج میں آئیں لیکن یہ سو?ر خور قوم کیسے رہ سکتی تھی۔اب یہ ہوا کہ ان میں ایک ’’عاشق مزاج پادری‘‘ ’’سینٹ ویلنٹائن‘‘ تھا جس نے خفیہ طور پر محبت کے ماروں کی شادی کرانے کا اہتمام کیا لیکن یہ سلسلہ کب تک چلتا،آخر جب یہ راز فاش ہوا تو بادشاہ کے حکم پر ’’ویلنٹائن‘‘ کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا اور ساتھ ہی سزائے موت بھی سنادی گئی۔

یہ پادری چونکہ ہمارے پیروں کی طرح عشق کی منزلیں طے کرتا ہوا یہاں تک پہنچاتھا، لہٰذاجیل میں بھی اسے جیلر کی بیٹی سے عشق ہوگیا اور یہ عشق ’’عشقِ حقیقی‘‘ تھا۔ یہ پاگل جیلر بھی اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ پادری صاحب سے ملوانے کے لیے لے جاتا تھا بالکل اسی طرح جیسے ہمارے پاکستانی لوگ نوجوان بیٹیوں اور بہنوں کو پیروں فقیروں کے پاس بڑی عقیدت کے ساتھ لے کر جاتے ہیں اور پھر ان کی کارستانیوں سے اخبارات بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس عیسائی لڑکی کے ساتھ اس پادری کا عشق ایک راز تھا کیونکہ عیسائیت کے مطابق پادری کے لیے محبت اور شادی کرنا ایک سنگین جرم تھا۔

بادشاہ نے اسے رومن مذہب اختیار کرنے کو کہا تو اس پادری نے اس سے بھی انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں اسے رومی جشن (جس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے) سے ایک دن پہلے 14 فروری 270ء کواسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ موت سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کو ایک خط لکھا جس کا خاتمہ اس عبارت ''From Your's Valentine'' پر کیا۔

496ء میں جب روم میں عیسائیت منظر عام پر آچکی تھی تو عیسائیوں کے پوپ گلسیس نے سرکاری طور پر 15فروری کے رومی فیسٹیول کو بدلتے ہوئے 14فروری کو ’’سینٹ ویلنٹائن ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا اور لاٹری کے ذریعہ لڑکی کے انتخاب کی رومی رسم میں یہ تبدیلی کی کہ نوجوان لڑکوں کی بجائے عیسائی پادریوں کے نام لکھے جاتے اورتمام مرد و خواتین ایک ایک پرچی اٹھاتے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہر مرد یا عورت جس عیسائی پادری کے نام کی پرچی اٹھاتا۔ اسے اگلے سال تک اسی پادری کے طور طریقوں کو اپنانا ہوتاتھا۔ اس طرح 14فروری کا دن عیسائیوں کے ہاں مقدس ترین دن ٹھہرا۔

محبت کا شہید:14 فروری اور ویلنٹائن کے متعلق ایک راویت یہ بھی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ’’ویلنٹائن نام‘‘ کا ایک پادری تھا جو اپنے کلیسیا کی ایک راہبہ کی زلف گرہ گیر پر دل وجان سے فریفتہ ہوگیا۔چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا‘ اس لیے ’’ویلنٹائن صاحب‘‘ نے ایک دن اپنی معشوقہ سے جنسی تسکین پوری کرنے کے لیے اس سے کہا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ زنا کر لیں تو کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ راہبہ نے اس پر یقین کر لیا۔ دونوں جوش عشق میں منہ کالا کر بیٹھے۔ کلیسیا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑیں تو پوپ نے عیسائیت کی ساکھ کو بچانے کے لیے انہیں قتل کروا دیا۔ اس کے بعد کچھ منچلوں نے ویلنٹائن کو ’’شہیدِ محبت‘‘ کا خطاب دے دیا۔(جیسے ہمارے ہاں ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں جیسے قصے مشہور ہیں‘ یہ بھی ایسی ہی جنسی لذت کے بھوکے عاشقوں کے امام ہیں) اس کے بعد اس کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار یعنی ’’یوم اوباشی وبے حیائی‘‘ درحقیقت مغرب کے تہذیبی اہداف میں جنسی ہوسناکی ہے اور جنسی باؤلے پن کی تسکین کی خاطر مردوزن کے آزادنہ اختلاط کو بھرپور ہوادیتا ہے۔اس دن مردوزن کی شہوت رانی اور زناکاری کو محبت کانام دیا جاتا ہے۔ گویا ویلنٹائن ڈے جنسی بے راہ روی کی راہیں ہموار کرنے کا شیطانی ہتھیار ہے۔ عیسائی پادری شاید اسی ویلنٹائن کی یاد میں عیسائی راہباؤں کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔چندسال پہلے نوائے وقت میں ایسے ہی پادریوں کے نشیلے اور رنگیلے کرتوتوں پر مکمل رپورٹ آئی جس میں بتایا گیا تھا کہ 40% راہبائیں گناہوں کی معافی کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے پادریوں کی ہوس کا نشانہ بنتی ہیں اور ہر پانچ میں سے ایک نن(NUN) کم عمر ی میں ہی بکارت کھو بیٹھتی ہے ۔امریکی راہبہ سسٹر ’’میری اوڈوینو‘‘ کی رپورٹ 1995ء کو ویٹی کن بھجوائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق امریکی راہبہ نے ایک پادری کا حوالہ دیا جس نے راہبہ کی آخری رسومات ادا کیں جو اس کی درخواست پر اسقاط حمل کراتی ہوئی ہلاکت میں چلی گئی جبکہ 20 راہبائیں ایک ہی وقت میں حاملہ ہوگئیں۔مغربی تہذیب کا یہ حیا سوز تہوار پوری دنیا سمیت اب پاکستان میں بھی کینسر اور ایڈز کی طرح سرایت کررہا ہے۔اس کی تشہیر کا سب سے اہم محرک ہماری زرد صحافت کے بیوپاری اخبار ہیں جو اس طرح کے اسلام دشمن اور انسانیت کی اقدار کو پامال کرنے والے گھناؤ نے ایام و پروگرامز کو منانے‘کوریج دینے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دے کر شیطان کے ایجنٹ کا کردا ر ادا کررہے ہیں۔ اس روز اخبارات میں ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو خوش آمدید کہاجاتاہے۔ نوجوانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے گلی محلوں، اردگرد بازاروں،سکولزاور کالجز کے باہر پھول اور کارڈز لے کر شریف گھرانوں کی عفت مآب بیٹیوں کو تنگ کریں۔ پھر ایسے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتاہے۔ ذیل میں چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس دن کو منانے سے کس طرح عزت کا جنازہ نکل جاتاہے اور کس طرح گھروں کی بربادی ہوتی ہے۔

عاشقوں کی چھترول:اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی، لاہور میں ویلنٹائن ڈے کے روز پھول دینے کے چکر میں کئی نوجوانوں کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی اور چھترول، ریس کورس پارک میں دو نوجوانوں نے ایک لڑکی کو پھول دینے کی کوشش کی تو لڑکی کے بھائیوں نے انہیں پکڑ لیا ایک لڑکا بھاگ گیا جبکہ دوسرا قابو میں آگیا جسے لڑکی کے بھائیوں نے چھترول کر کے اس وقت چھوڑا جب اس نے لڑکی کو اپنی بہن کہا۔ (سلسلہ وار جرار مورخہ 18فروری 2011)

جبکہ ایک اخبار میں یہ خبر تھی کہ ’’کسی بھونڈ‘‘نے راہ جاتی لڑکی سے اظہار ِ محبت کیا اور اس کے بعد اس نے اس خشک سالی کے موسم میں جوتوں کی بارش کا منظر دیکھا۔’’عاشق کا جنازہ ہے‘ ذرا دھوم دھام سے نکلے‘‘:چند سال پہلے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایک نوجوان نے لڑکی کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے موقع پر پھولوں کا تحفہ پیش کیا تو اس عفت مآب دوشیزہ نے سرراہ اس عاشق کی چھترول کر دی۔یہ دیکھ کر محلے کے لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے اس نامراد عاشق کو پکڑ کر اس کا منہ کالا کیا اور گدھے پر بٹھا کر ملتان روڈ پر اس کا جلوس نکالا کہ ’’عاشق کا جنازہ ہے‘ ذرا دھوم دھام سے نکلے۔‘‘کئی گھر اُجڑ گئے!ویلنٹائن ڈے جیسے بد تہذیب تہوار نے کئی گھر اُجاڑ دیئے، کاہنہ لاہور کے علاقے بستی عید گاہ کے رہائشی عبد الجبار کی بیٹی سدرہ کے ایک نوجوان کے ساتھ تعلقات تھے، باپ کے متعد د بار منع کرنے کے باوجود وہ بازنہ آئی، پولیس کے مطابق سونیا ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ پر آشناء سے ملنے گئی تو عبد الجبار نے اسے کمرے میں بند کر کے گلا دبا کر مار ڈالا۔ ادھر شمالی چھاؤنی لاہور کے علاقہ میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے دن سکول ٹیچر خاتون نے عاشق کی بے وفائی سے دلبرداشتہ ہوکر زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کرلی۔ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے موقع پر انصار کالونی کا رہائشی 20 سالہ محمد علی اپنی محبوبہ سے ملنے ڈبل پھاٹک گیا جہاں لڑکی کے والدین نے اسے ملنے کی اجازت نہ دی جس پر دلبرداشتہ ہو کر محمد علی نے اس کے گھر کے سامنے زہریلی گولیاں کھا کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ (جرار 18فروری 2011ء)اسی طرح ایک دفعہ اخبار میں خبر تھی کہ پتوکی میں نوجوان جوڑا 14 فروری کو وعدے کے مطابق قابل اعتراض حالت میں ویلنٹائن ڈے منا رہا تھا کہ لڑکی کے بھائی نے ان دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

فاعتبِروا یا اولی الالباب:محترم قارئین! یہ ہے ویلنٹائن ڈے منانے والے ہمارے اس ملک کے معاشرے کی جھلک جس میں لوگوں کی عزتیں اچھالنے اور برباد کرنے کے لیے آوارہ منش نوجوانوں کی حکومت اور میڈیا کی سطح پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کی اس آوارگی پر کتنے شریفوں کی پگڑیاں سر بازار اچھلتی ہیں، کتنی عزتیں برباد اور کتنے عزتوں کے محافظ قتل ہوتے ہیں۔ان تما م حقائق سے معلوم ہوا کہ اس گندی،اسلام دشمن،بے حیائی کو فروغ دینے والی جاہلانہ رسم کی ابتداء ایک عاشق پوپ سے ہوئی جو اب ہمارے گھر وں تک پہنچ چکی ہے۔

جبکہ ہمار دین اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک کامل اور جامع طرز حیات ہے اسلام نے ہمیں بے حیائی کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے۔نبی اکرم eنے فرمایا! ’’جب تم میں حیاء ختم ہوجائے تو جو چاہے کرو‘‘ اور یہ تہوار صرف حیاء ختم کرنے کے لیے ہی منایا جاتاہے۔ نبی اکرم e نے یہاں تک فرمادیا۔((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔))’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتاہے‘وہ انہی میں سے ہے۔‘‘ (ابو داود کتاب اللباس باب فی لبس الشھرۃ، حدیث: 4031۔)اب آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ تہوار کن لوگوں کا ہے؟ اور ہماری دلچسپیاں کن کے ساتھ ہیں؟

مذہب سے قطع نظر اگر ذاتی حوالے سے بھی دیکھیں تو بھی ایک مسلمان کے لیے اس میں سوائے بے ہودگی کے کچھ نہیں۔ کیا کو ئی غیرت مند آدمی اس بات کو برداشت کرے گا کہ غیر مرد اس کی بیوی،بیٹی یا بہن کو بے حیائی کی دعوت دے اور وہ پیغام ریڈیو اخبار یا میڈیا کی زینت بنے۔ یقینا نہیں! تو اس لیے آج اپنے دامن کو ایسی حیا سوز رسموں سے بچاؤ تاکہ آپ کی بہن اور بیٹی بھی بچ سکے۔ ہم کچھ زیادہ نہیں کہتے؛ بس اتنا کہیں گے کہ ان واقعات کو پڑھتے اور حقائق کو پرکھتے ہوئے اﷲ نے عقل دی ہے تو عبرت حاصل کرو ورنہ! خود نشانِ عبرت بن جاؤ گے۔
 

Peer Muhammad Tabasum Bashir
About the Author: Peer Muhammad Tabasum Bashir Read More Articles by Peer Muhammad Tabasum Bashir: 85 Articles with 163085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.