روحانی باپ سے مجازی خدا تک

تحریر:خاور عباس جتوئی

استاد ایک پیغمبری پیشہ ہے جس کو ہمارے پیغمبر نے فخریہ طور پر اپنایا استاد ایک معلم، رہبر، رہنما یہ سب وہ نام ہیں جو بظاہر تو الگ الگ ہیں مگر اصل معنوں ایک ہی ہے اس شخصیت کو سمجھنے کے لئے معزز، محترم کے علاوہ اور کوئی لفظ سمجھ ہی نہیں آتا مگر کیا وجہ اساتذہ کو وہ رتبہ، وہ مقام نہیں مل رہا جس کے وہ مستحق ہیں۔

محلے کے ایک بزرگ ہاتھ میں اخبار لیے بیٹھے تھے شائد انہیں کسی کا انتظار تھا کہ کوئی آئے اور انہیں اخبار پڑھ کر سنائے میری نظر ان پر پڑی تو سلام کی غرض سے میں انکے پاس گیا تو ان بابا جی نے مجھ سے کہا بیٹا نظر کمزور ہونے کے باعث میں اخبار میں لکھے باریک الفاظ نہیں پڑھ سکتا چلو تم مجھے اخبار پڑھ کر سنا دو میں نے انکی بات مانی اور اخبار پڑھنے لگا اس دوران میری نظر ایک خبر پر پڑی کہ ’’ایک استاد نے اپنی شاگردہ سے شادی کرلی‘‘ میں نے یہ خبر بھی پڑھ دی تو بابا جی توبہ توبہ کرنے لگے اور کہا کہ کیا زمانہ آگیا ہے استاد روحانی باپ ہوتا ہے وہ کیسے اپنی شاگردہ سے شادی کرسکتا ہے تو میں نے بابا جی سے کہا بابا جی آج کل تو یہ بات عام ہوتی جارہی ہے پاکستان میں اب تک 64 ہزار اساتذہ جس میں استانیاں بھی شامل ہیں اپنے/اپنی شاگردوں سے شادی کرچکے ہیں بابا جی پاکستان کے تعلیمی نظام پر بہت زیادہ حیران ہوئے کہ کیا زمانہ آگیا اور وہ بار بار ایک ہی بات دہرا رہے تھے کہ استاد روحانی باپ ہوتا ہے، استاد روحانی باپ ہوتا ہے۔

بابا جی کی اس حیرت پر میں بھی سوچ میں پڑ گیا کیونکہ بابا جی شادی پر حیران نہیں تھے۔ استاد شاگرد کے رشتے سے ششدر ہو کے رہ گئے جس میں کہیں نہ کہیں اخلاقیات کا فقدان نظر آتا ہے شاید اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں استاد کا اپنی شاگردہ سے شادی کرنا معیوب اور بدنامی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔یہ بات ہمارے تعلیمی نظام اور خود ہمارے لیے لمحہ فکرہے شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے اور نہ ہی گناہ ہے بلکہ شادی سنت ہے مگر اسکا طریقہ کار بھی سنت کے مطابق ہونا چاہیے اور اخلاقی ہونا چاہیے جس سے کبھی بھی یہ ظاہر نہ ہو کہ کچھ غلط ہوا ہے ۔

بابا جی نے کہا بیٹا اعتراض شادی پر نہیں ہے اس کے طریقہ کار پہ،استاد اور شاگرد کے رشتے پہ ہے ان کے درمیان پائے جانے والے احترام کے رشتے پر ہے،اعتراض ان باتوں پہ ہے جو لڑکی کے ماں باپ کو دنیا والوں سے سننا پڑتی ہیں،اعتراض ان طعنوں پہ ہے جو ہمارے تعلیمی نظام کو ملتے ہیں ہیں،اعتراض اپنے اساتذہ کی سوچ پر ہے جو پڑھانے کے وقت میں اتنا سوچ لیتے ہیں کہ اس طالبہ سے شادی کرنی ہے۔ اعتراض صرف اس سوچ پہ ہے کہ کیسے ایک استاد پڑھاتے وقت روحانی باپ سے مجازی خدا بننے کی سوچ لیتا ہے۔ بابا جی نے کہا بیٹا ایسے اسٹوڈنٹ جو اپنے استاد سے یا ایسے استادجو اپنے اسٹوڈنٹ سے شادی کر لیتے ہیں اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ایسے والدین جو ایڈمیشن کروا لیتے ہیں تو بھول کر بھی زحمت نہیں کرتے کہ میرے بچوں کا کیا حال ہے ایسے والدین کے پاس پیسے تو ہیں لیکن اپنے ہی بچوں کے لیے وقت نہیں اس وجہ سے بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ان کو پتا نہیں ہوتا کون اچھا ہے کون برا ہے جس کی وجہ سے ان کا استاد فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ بابا جی نے کہا بیٹا والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے وقت نکالیں ان کے استاد کو ملیں ان سے پوچھیں کہ ان کی وجہ سے کوئی مسئلہ درپیش تو نہیں ہو رہا، والدین کو چاہیے اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو رہا ہے تو باہمی طریقے سے حل کریں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پہ سختی نہ کریں۔ بابا جی نے کہا استاد ایک روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ہر کوئی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ ایک ایسا استاد جو اپنے شاگردوں اور بیٹوں میں فرق نہ کرے اصل معنوں میں وہی سچا استاد ہوتا ہے اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اس پیشے کو عبادت قرار دیا ہے ۔ ایک اچھا استاد ایک بہترین معاشرے کو تشکیل دے سکتا ہے ایسے استاد کو اپنے شاگردوں پہ فخر ہوتا ہے۔
 

Anabiya Choudhry
About the Author: Anabiya Choudhry Read More Articles by Anabiya Choudhry: 27 Articles with 23084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.