’’آجکل کے دور میں تو کسی پر اعتبارنہیں کیا جاسکتا۔جس پر
بھی اعتبارکریں وہ دھوکہ ہی دیتا ہے‘‘۔عثمان نے بڑی پریشانی کے عالم میں
اپنے دوست کو دُکھڑا سنایا۔
’’بات تو بالکل ایسے ہی ہے۔ اب تو کسی پر بھی اعتبار کرنے کو دل نہیں
کرتا‘‘۔حارث نے تائید کرتے ہوئے کہا ۔
’’لیکن یہ سمجھ نہیں آتا کہ آخر کس پر اعتبارکیا جائے ۔ہر شخص آپ کو سبز
باغ دیکھاتا ہے لیکن بعد میں جب حقیقت سامنے آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ سب
دھوکہ تھا۔آپ بازار میں کسی کے پاس بھی چلے جائیں وہ اپنا مال بیچنے کے لیے
آپ کو ایسی لچھے دار باتیں کرے گا کہ آپ اس کی ہر بات کو سچ سمجھ کر چیز
خرید لیں گے لیکن بعد میں پتہ چلے گا کہ اُس چیز کے اندر آدھے سے ذیادہ وہ
خوبیاں تو ہیں ہی نہیں جو آپ کو بیان کی گئی تھیں اور جھوٹ بولنے والا شخص
اپنی تما م باتوں پر قسم ضرور کھائے گا‘‘۔
’’بہت سے لوگ ایک چیز کو بیچتے وقت تو سونا بنا دیتے ہیں کہ اس سے بہتر
کوئی چیز نہیں ۔ لیکن اگر وہی چیز ان کو واپس خریدنی ہو تو اس سے گھٹیا چیز
کوئی نہیں ہوتی۔ میں نے ایک پراپرٹی ڈیلر سے ایک پلاٹ خریدا۔ پلاٹ بیچتے
وقت تو اس نے اس کی خوبیاں بیان کرتے وقت زمین وآسمان کے قلابے ملا دیئے کہ
اس سے بہتر پلاٹ آپ کو نہیں ملے گا۔ جتنی جلدی ہوسکے اس کو خرید لیں۔ اس کی
لوکیشن سب سے بہترین ہے۔ اس کی قیمت دنوں میں بڑھے گی۔ اس کے آگے ساٹھ فٹ
روڑ ہے۔اس کے پاس مسجد اور پارک ہے۔ بہت جلد بجلی آجائے گی۔ ڈیمانڈ نوٹس
جمع ہو چکا ہے۔ گیس کے پائپ پڑ چکے ہیں۔میں نے اس کی باتوں سے متاثر ہو کر
وہ پلاٹ خرید لیا‘‘۔
’’تو کیا سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسے اس نے کہا تھا‘‘۔
’’ویسے کب ہو نا تھا ۔پراپرٹی ڈیلر تو اپنا کمیشن لے کر سائیڈ پر ہوا۔ اب
جب دوسال گزر گئے تو مجھے کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی ۔ میں اُسی پراپرٹی ڈیلر
کے پاس گیا۔میں نے اسے کہا کہ یہ پلاٹ مجھ سے خرید لو تو اس نے مجھے بتا یا
کہ اس کی قیمت تو اب بیس فیصد کم ہو گئی ہے۔ میں نے کہا اس کی قیمت کیسے کم
ہو سکتی ہے؟ تم نے تو مجھے بتا یا تھا کہ اس کی قیمت دنوں میں بڑھے گی ۔
مجھے تو اب دوسال ہو گئے ہیں تو اس نے مجھے کہا کہ اس کالونی کے ڈویلپر
بھاگ گئے ہیں۔ اس کا تمام کام رُک گیاہے ۔ آپ خوش نصیب ہو گے اگر آپ وہ
قیمت لے لیں جو میں آپ کو دے رہا ہوں وگرنہ کچھ مہنیوں بعد آپ کو اس پلاٹ
کے اتنے پیسے بھی نہیں ملیں گے۔میں ہکا بکا ااس کا منہ دیکھ رہا تھا کہ اس
کی دوسال پہلے کی گفتگو میں اور آج کی گفتگو میں کتنا فرق تھا۔ آخر ہم لوگ
اپنے چند ٹکے کمیشن حاصل کرنے اور نا جائز منافع کما نے کے لیے کتنی دیر تک
دوسروں کو دھوکہ دیتے رہیں گے‘‘۔
’’بالکل ایسا ہی کچھ میرے ساتھ میرے کے ایک جاننے والے نے کیا ۔ اس نے مجھے
ایک سکول میں شراکت کرنے کے لیئے راضی کیا کہ یہ سکول ایک بہت بڑے برانڈ کا
سکول ہے۔ باقاعدہ اس کی فرنچائز میر ے نام ہے۔ میں نے آدھی رقم دے دی ہے
اور آدھی رقم دینی ہے۔پہلے میں نے ایک اور آدمی کے ساتھ پارٹنر شپ کی تھی ۔
اس کے گھر میں سکول بنا یا تھا۔ اب میری اس کے ساتھ لڑائی ہو گئی ہے اور
میں نے اس کو نکال دیا ہے۔ آپ میر ے ساتھ پارٹنر شپ کر لیں۔ میں نے سوچا کہ
پڑھا لکھا آدمی ہے ۔ درست کہ رہا ہوگااس لیئے میں نے حامی بھر لی ۔طے شدہ
رقم بھی دے دی اور سکول ایک نئی بلڈنگ میں شفٹ کر کے چلانا شروع کر دیا۔کچھ
دنو ں بعد میں نے محسوس کیا کہ اگر یہ فرنچائزڈ سکول ہے تو ہیڈ آفس کے ساتھ
رابط بھی تو ہو نا چاہیے۔لیکن میر ے پارٹنر نے مجھے یہ کہ کر مطمئن کر دیا
کہ جب ہم آدھی فرنچائز فیس دیں گے تو پھر ہمیں ہیڈ آفس سب کچھ دے گا۔ اسی
دوران مجھے پتہ چلا کہ ہیڈ آفس نے ایک ٹریننگ کا اہتما م کیا ہے جس میں اس
چین کے تما م سکول شرکت کریں گے لیکن ہماری برانچ کا کوئی نام ونشان نہ
تھا۔ اس پر میر ا ماتھا ٹھنکا او رمیں نے ہیڈآفس جاکر برانچ کی تصدیق کی تو
پتہ چلا کہ میرے پارٹنر کے نام پر تو کبھی کوئی فرنچائز جاری ہی نہیں ہوئی
۔ اس نے خو د سے ہی سکول کا نام رکھ کر کا م شروع کر یا اور ناجانے کتنے ہی
لوگوں کو اس کی آڑ میں لوٹ چکا ہے۔ بہت سے دوکانداروں کا مقروض ہے۔ ہر وقت
کسی نہ کسی کو ٹھگنے کے چکر میں رہتا ہے۔ کبھی وکیلوں کا کو ٹ پہن کر کچہری
میں لوٹتا ہے تو کبھی استا د کا روپ دھار کر طلبا ء کا مستقبل تاریک کرتاہے
اور کبھی مجھ جیسے سادہ لوہ لوگوں کو لوٹ کر اپنا خرچہ پانی بنا تا ہے۔اس
کی باتیں سنوں تو اس سے بڑا جنٹلمین کوئی نہیں اور اگر اس پر بھروسہ کر
بیٹھوں تو آپ سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں‘‘۔
’’اجکل تو اس طرح کی کہانیا ں بہت عام ہیں اور لوگ دن دیہاڑے دوسرے لوگوں
کو بے وقوف بنا رہے ہیں لیکن اس سب سے بچنے کا کیا طریقہ ہے‘‘۔
’’ہم اُس وقت ان نوسر بازوں کے ہتھے چڑھتے ہیں جب ہم لالچ کرتے ہیں۔انسان
کو لالچ نہیں کرنا چاہیے۔ کوئی بھی چیز دنوں میں سونا نہیں بنتی ۔ اگر کوئی
چیز آپ کو بہت سستی مل رہی ہو تو اس کے بارے میں تحقیق لازمی کر لیا کروں۔
اگر کوئی شخص آپ بہت ذیادہ نفع کا لالچ دے رہا ہے تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے
۔ وہ بذات خود اس سے نفع کیوں نہیں کما رہا اور وہ سونے کی کان آپ کے حوالے
کیوں کرنا چاہتا ہے؟۔ ہمیشہ وہ لوگ لُٹتے ہیں جن کو خود پر اعتبا رنہیں
ہوتا اور وہ اپنے آپ کو دوسروں کے مرہونِ منت کر دیتے ہیں ۔ جو بندہ آپ کو
سبز باغ دکھا رہا ہے وہ خود اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہا اور ہم لوگ
اپنی آسانی کے لیئے اس طرح کے نوسر بازوں کا شکا ر ہو جاتے ہیں‘‘۔
’’خود پر اعتماد کیسے کیا جائے؟‘‘۔
’’اپنی صلاحیتوں کے بارے میں جانیں ۔ جتنا آپ کو اپنی صلاحیتوں کے بارے میں
علم ہوگا اتنا ہی آپ کا اپنے اوپر اعتماد بڑھے گا۔ دوسروں کو اپنی سیڑھی مت
بنائیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ آپ کو اوپر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی
کھینچ لیں۔ ناکامی کا خوف ختم کر دیں۔ ناکام ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو کوشش
کرتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ شراکت کرنے کی بجائے چھوٹے پیمانے پر اکیلے
کاروبار شروع کریں۔میں نے ہمیشہ اکیلے کام کرنے والے لوگو ں کو کامیاب
دیکھا ہے۔ شراکت میں اعتبا ربہت اہمیت رکھتا ہے۔ اکثر لوگ آپ کا استعمال
کرکے اپنا کاروبار چمکاتے ہیں اور جب وہ نقطہ عروج پر پہنچے ہیں تو آپ کو
زمین پر گرانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔اپنی صلاحتیوں میں مسلسل
اضافہ کریں ۔سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ کاروبار کے راز سکولوں
کالجوں یا یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھائے جاتے بلکہ یہ ٹھوکریں کھا نے او ر
ناکا م ہونے سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔اگر آپ خود پر اعتبارکرنے میں کامیاب ہو
گئے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ہر انہیں سکتی بلکہ آپ کیااند ر ایک ایسی
قوت اور طاقت پیدا ہو جاتی ہے جو آپ کو ایک مضبوط اور کامیاب انسان بنا
دیتی ہے‘‘۔
|