ڈاکٹر فوزیہ چوہدری
اکیسویں صدی کا پر آشوب پہلا عشرہ بھی گزر گیا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی
ترقی نے انسان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ لیکن مذہب کے بارے میں ہم
وہیں کے وہیں کھڑے ہیں کہ جہاں تھے ۔ قرآن اور دین اسلام کے بارے میں ہماری
سوچ ابھی بھی یہ ہے کہ یہ چودہ سو سال پہلے نازل ہوا تھا اور اسی سوسائٹی
کے لوگوں سے ان کے حالات کے مطابق مخاطب تھا ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ
2011ء میں قرآن ہم سے کس طرح مخاطب ہے ۔ قرآن اور دین اسلام رہتی دنیا تک
کے لئے ہے۔ لیکن ہمارے ہاں جو قدامت پسند معاشرہ موجود ہے وہ اسلام کو ترقی
کرتا ہوا دیکھنا پسند نہیں کرتا ۔ انہوں نے اسلام کو جزدان میں بند کر کے
طاقچے میں عزت و احترام کے ساتھ تو رکھ چھوڑا ہے لیکن اسلام کو اپنی عملی
زندگی میں نافذالعمل کرنے سے ہم ابھی تک گریز پا ہیں۔ اس کی کئی ایک وجوہات
ہو سکتی ہیں ۔ ہمارے اس طرز عمل کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں سرایت
کرجانے والی جہالت ہے۔
آپ میری اس بات پر حیران ہوں گے کہ اکیسویں صدی میں بھی جہالت کی بات کر
رہی ہوں ۔ دراصل ہماری زندگیوں میں اسلام اس طرح راسخ نہیں ہوسکا کہ جس طرح
ہونا چاہئے تھا۔ ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی
میں برصغیر میں جتنے بھی مسلمان فاتحین آئے ، ان کے پیش نظر اسلام کی تبلیغ
سے زیادہ سیاسی اور معاشی فوائد تھے اگرچہ برصغیر میں ان کی آمد کا ایک
ضمنی فائدہ اشاعت اسلام بھی ہوا۔ لیکن وہ اسلام کی وہ تصویر دنیا کے سامنے
پیش نہ کر سکے جو کہ اسلام کی اصل روح تھی ۔ ایک مہذب اور رواداری والا
معاشرہ ۔ نیتجتاً ہمارے اسلامی معاشرے میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔مذہب چونکہ
انسان کے خمیر میں شامل ہے اور انسان مذہب کے بغیر نہیں رہ سکتا،لہٰذا اس
خلا کو پر کرنے کے لئے مولوی صاحبان آگے آئے اور لوگوں کی زندگیوں پر
اثرانداز ہوئے۔اور اس بری طرح اثر انداز ہوئے کہ انہوں نے لوگوں کو مذہب سے
قریب کرنے کی بجائے اور زیادہ دور کر دیا ۔دیکھا جائے تو صرف اسلام میں ہی
ایسا نہیں ہوا کہ مذہب ان مولویوں کے ہاتھوں یرغمال بنا بلکہ دیگر مذاہب جن
میں عیسائیت ، یہودیت، بدھ مت اور ہندو مت شامل ہیں میں بھی ایسا
ہوا۔پادریوں اور یہودی کاہنوں نے ہمیشہ لوگوں کا استحصال کیا ۔ انہیں مذہب
سے ڈرائے رکھا اور ریاست کو آنکھیں دکھائے رکھیں ۔ چرچ پر پادریوں کا تنا
سخت ہولڈ رہا اور اب بھی ہے کہ سیکس سیکنڈلز میں انوالو ہونے کے ناقابل
تردید ثبوتوں کے باوجود ان کے اس گھناؤنے کردار سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
یہ ان کی بے پناہ طاقت ہی ہے جس کا غلط استعمال کر کے یہ نہ صرف غریب عوام
کا استحصال کرتے ہیں بلکہ ریاست کو بھی دبائے رکھتے ہیں اور اس طرح خود پر
کسی قسم کا کوئی قانون لاگو ہونے نہیں دیتے۔ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو
پتہ چلتا ہے کہ یہودی کاہنوں نے بھی ہمیشہ ریاست کو نتھ ہی ڈالے رکھی اور
قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے ریاست کو چکر دئے رکھا۔
دیکھا جائے تو ان مذہبی قوتوں کا اثر ورسوخ سائنس و ٹیکنالوجی کے جدیدترین
دور میں آج بھی جاری و ساری ہے۔آج 2011ء کو ایک مولوی ممبر پر کھڑے ہو کر
یہ کہتا ہے کہ جو تصویر کھینچے گا یا کھینچوائے گا اس کا نماز جنازہ نہیں
پڑھوایا جائے گا۔ہم نماز جنازہ پڑھوانے کے لئے مولوی کے مرہون منت کیوں
ہیں؟اصولی طور پر میت کے کسی قریبی ترین عزیز یعنی خونی رشتہ دار کو نماز
جنازہ پڑھانی چاہئے کیونکہ جو پر تاثیر دعا اس کے دل سے نکلے گی کسی مولوی
کے دل سے نہیں نکل سکتی۔ دراصل مولویوں نے لوگوں کو ڈرانے اور اپنا سکہ
جمانے کے لئے اسلام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ افسوس سے یہ بات
کہنا پڑتی کہ مولویوں کا اثر ورسوخ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔اور معاشرے پر
اپنی گرفت بڑھانے کے لئے حکومت اور عوام کو دبا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سلمان تاثیر کے قتل اور جنازہ پڑھائے جانے کے سلسلے میں بھی یہ دباؤ سامنے
آیا اور تو اور حکومت نے اپنے تحفظ کے پیش نظر سلمان تاثیر کے کیس کو مکمل
طور پر Ownہی نہیں کیا۔انہیں پراسیکیوٹر ہی نہیں مل رہا حالانکہ سرکاری
وکیلوں کا ایک اژدھام ہے لیکن کوئی بھی کیس لینے کو تیار نہ ہے دیکھا جائے
تو سب حکومت کے پے رول پر ہیں لیکن مذہبی جماعتوں اور مولویوں کے دباؤ کی
وجہ سے کوئی بھی اس کیس کو ہاتھ نہیں ڈال رہا ۔
ریمنڈ ڈیوس جو کہ امریکہ کی سپیشل فورسز کا ایک نمائندہ ہے ۔ وہ دوہرے بلکہ
تہرے قتل کے مقدمے میں ملوث ہے اور اس کا کیس عدالت میں چل رہا ہے۔ عدالت
نے ابھی اس کا کوئی فیصلہ نہیں دیا ۔ عدالتی کاروائی مکمل ہونے کے بعد ہی
اس کا کوئی فیصلہ ہو گا اس میں ابھی کچھ وقت لگے گا لیکن ایک مذہبی سیاسی
پارٹی ہے اس نے ابھی سے یہ شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو
سفارتی استثنیٰ دیتے ہوئے قتل کردیں گے بلکہ پاکستان میں موجود امریکی
قونصلیٹ کے دیگر افراد کو بھی مار ڈالیں گے۔ اس طرح کی دھمکیاں بھی مذہب کی
آڑ لے کر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ قانون کو ہاتھ میں لینا خود جرم ہے۔ جب ایک
کام عدالت کا ہے اور عدالت وہ کام کر بھی رہی ہے پھر اس طرح کے بیانات دینا
عوام کو انسپائر کرنے کے علاوہ اور کیا ہے؟ آپ خود سوچیں اگر اس طرح ہو کہ
ہر شخص خود قانون ہاتھ میں لئے پھرنے لگے تو پھر حکومت کا کیا ہوگا؟ رٹ آف
گورنمنٹ کہاں رہ جائے گی؟
اسلام نے اقلیتوں کے ساتھ رواداری اور اخلاقی طور پر اچھا سلوک کرنے کا
ہمیں درس دیا ہے اور پاکستان کے آئین میں بھی اقلیتوں کو ان کی مذہبی
رسومات ادا کرنے کی پوری پوری آزادی ہے لیکن ہمارا اسلامی معاشرہ افسوس کے
ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔ حال ہی میں جنوبی
پنجاب کے شہر لودھراں میں ایک واقعہ پیش آیا جہاں کے مقامی پڑھے لکھے مقامی
قادیانی خاندان نے اپنے علاقے میں ایک پرائیویٹ سکول اور کالج کھولا وہ
اپنی صلاحیتیں وطن عزیز کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن وہاں کے مقامی
لوگوں نے انہیں ڈرایا دھمکایا اور سکول بند کرنے کی دھمکی دی۔محض اس لئے کہ
وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے سے صبر ، تحمل ، برداشت اور رواداری
آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ چیز کسی بھی معاشرے کے لئے بلکہ مسلم
معاشرے کے لئے تو سم قاتل ہے ۔ اس طرح کے طرز عمل اختیار کرنے سے کوئی بھی
معاشرہ تادیر نہ قائم رہ سکتا ہے اور نہ ہی اس میں وہ خوبیاں پیدا ہو سکتی
ہیں جو کسی بھی مسلم معاشرے کے لئے ضروری ہیں۔نبی کریم ﷺ کے زمانے میں بھی
اقلیتوں کو مذہبی آزادی حاصل تھی ۔ ہمیں تو ان لوگوں کے سامنے اسلام کا
عملی نمونہ پیش کرنا چاہئے نہ کہ متشدد رویوں سے اسلام سے متنفر۔
یہ جو کچھ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے اسے آپ اکیسویں صدی کا انعام کہیں یا
میڈیا کی آزادی کہ ہمارے ہاں سول سوسائٹی نہ صرف یہ کہ بہت اچھی طرح باخبر
ہو گئی ہے بلکہ یوں لگتا ہے کہ جیسے اچانک اسے زبان مل گئی ہے اور وہ حکومت
کی پالیسیوں اور فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگی ہے۔ لیکن اس سے ایک عجیب سی
صورتحال ہمارے معاشرے میںپیدا ہوگئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی نادیدہ
ہاتھ ہیں جو ہمیں اعصابی تناؤ میں مبتلا کر رہے ہیں۔ایک خوف اور ڈر کی
کیفیت ہے جو ہمارے اعصاب پر سوار ہے ، بے یقینی کی صورتحال ہے جو ہمارے
معاشرے میں گھر کر چکی ہے کوئی ہے جو ہمارے خلاف یہ ذہنی اور اعصابی جنگ لڑ
رہا ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ میڈیا کی ترقی اس تیز ترین دور میں ذہنی جنگ
لڑنا کچھ مشکل نہ ہے۔ آپ ایک آئیڈیا فلوٹ کریں ۔انٹرنیٹ پر ویب سائٹس پر
پلک جھپکتے میں یہ تمام لوگوں تک پہنچ جائے گا ۔ بعد میں آپ اس کی تردید
کریں، لاکھ تاویلیں پیش کریں مگر وہ کام ہو چکا ہوتا ہے۔اور وہ بیج معاشرے
میں بویا جا چکا ہوتا ہے، جو ان نادیدہ طاقتوں کا مقصد ہوتا ہے۔
اب اس مقام پر آکر ہمیں اکیسویں صدی کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اس اعصابی
اور ذہنی جنگ کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور اپنے نوجوانوں کو اس بات پر مائل
کرنا ہوگا کہ صبر و تحمل اور رواداری ہی وہ چیز ہے جس کا میٹھا پھل ہمیں
ایک پر امن معاشرے کی شکل میں ملتا ہے ۔ ہمیں ”اپنا مسلک نہ چھوڑو اور
دوسروں دوسروں کا مسلک نہ چھیڑو“ کے سنہری اصول پر عمل درآمد کرنا ہے۔ اگر
ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یقین مانئے کہ ہ، دنیا میں بھی سرخرو
ہوں گے اور آخرت میں بھی۔ ورنہ نتائج بہت بھیانک اور خوفناک ہوں گے۔ ہمارا
معاشرہ خود اندر سے ٹوٹ پھوٹ لا شکار ہوجائے گا ۔ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ
ہم کر رہے ہیں یہ جنگ صرف ہمارے قبائلی علاقوں اور پاک افغان سرحد تک ہی
محدود نہیں رہے گی بلکہ ان وادیوں اور پہاڑوں سے نکل کر ہمارے شہروں ،
محلوں اور گلی کوچوں میں پھیل جائے گی اور پھر شاید ہم اس کے خلاف کچھ کرنے
کے قابل نہ رہیں۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔(آمین) |