۲۱ ربیع الا ول کو وہ بو ریا
نشین با دشا ہ اس ہنگا مہ خیز د نیا میں تشریف لا یا جس نے فقیر ی میں با
دشا ہی کی ، جس نے محبت کی تلوا ر سے ملکو ں کو ہی نہیں بلکہ دلو ں کو بھی
فتح کر لیا ، اس کے ما ننے وا لے ر شتہ اخو ت میں اس طر ح بند ھے جس طر ح
دو ما ں جا ئے بھا ئی ، یہ چیز بھی آپ ﷺ کی ذا ت اقد سں ہی کے سا تھ مخصو
ص ہے کہ صر ف آپ ﷺ ہی کی ز ند گی ہے جو پو ری کی پو ری با تما م و کما ل
جز ئیا ت ا عما ل و کر دا ر کے سا تھ محفو ظ ہے اور ہر حا ل کے ا نسا ن کے
لیے آ ئینہ حق رہ نما لیے ، جس میں اس کے خدو خال نظر آئیں تا کہ کسی شعبہ
ز ند گی میں کسی دوسر ے رہنما کی ضرورت نہ پڑے آپ کے بچپن کو ہی دیکھ لیں
ایک ایسے دور میں ایک بچہ پیدا ہو ا جس کے سر سے با پ ، ما ں اور دا دا کا
سا یہ عا فیت کمسنی میں ہی ا ٹھ جا تا ہے۔ ایک طر ف عر ب جہا لت کے دلد ل
میں پڑا ہوا ہے اور دو سری طر ف جب اس بچے کا کوئی سر پر ست نہ رہا تو
تعلیم و تر بیت کا کیا ذکر ، دا ئی حلیمہ کے پا س تھے تو ان کے بچو ں کو
بکر یا ں چر اتے دیکھ کر ان کے کا م میں ان کا سا تھ دیا سن شعو ر سے پہلے
ہی چچا ابو طا لب کی غر بت دیکھ کر بد وں لڑکو ں کے سا تھ بکر یاں چر انے
لگتے ہیں۔
معا شر ہ ہر طر ح سے بگڑا ہو ا ہے ، بے حیائی بد کلا می جزو زندگی بن چکی
ہے ، اس ما حو ل میں رہ کر بھی نہ کبھی جھو ٹ بو لا ، نہ بد کلا می کی ، نہ
کبھی چوری کی بلکہ سر تا پا مجسم و شرم و حیا نظر آتے ہیں ۔ دیا نتدار ایسے
کہ دشمن بھی ” امین “کے لقب سے پکا رتے ہیں ،جو ان ہو تے ہی مکہ کے تاجر وں
کے ہا ں مزدو ری پر اور کبھی کبھی نفع میں حصہ پر کا م کر نا شر وع کر تے
ہیں اس طر ح ۵۲ سال کی عمر تک کام کیا اس مز دوری میں کچھ حصہ ملتا تھا ،
جو یقیناً بہت کم تھا اپنی گزر و اوقات کر تے ہیں اسی پر شا کر نظر آتے ہیں
مکہ کی ایک ما لدا ر خا تو ن ان کی ایما ندا ری سے متا ثر ہو کر نکا ح کا
پیغا م بھیجتی ہیں ، آپ ﷺ کے پا س کچھ نہیں اس لیے ابو طا لب نے بھی جو
خطبہ حضرت خد یجہ ؓ کے ساتھ آپﷺ کے نکا ح کے مو قع پر دیا اس میں حضورﷺ کے
اخلا ق اور شرا فت کے ذکر کے ساتھ اس بات کا ذکر بھی تھا کہ دو لت دنیا آپﷺ
کے پا س نہیں ، آپ کے کنو ار ے رہنے کی ایک دلیل یہ بھی تھی آپکے پا س ما ل
و زر نہ تھا ،ور نہ عرب میں نو جوا ں ۶۱ سے ۷۱ سال میں شا دیا ں کر لیتے
تھے ۔
شا دی کے بعد دس سال آپ ﷺ خود با زار میں تجا رتی لین دین کر تے ہو ئے ملتے
ہیں بی بی خد یجہ ؓ اور قریش کے دوسرے تا جر وں کا مال لے کے سفر تجارت کر
تے ہیں اور اپنی اجرت حاصل کر تے ، چا لیس سال کی عمر میں پہلی و حی نا زل
ہو تی ہے قر یش کی طر ف سے ظلم کے پہا ڑ تو ڑے جا تے ہیں مگر پا ئے ثبا ت
میں لغر ش نہیں آتی اپنے چچا ابو طا لب سے فرما تے ہیں ” اگر یہ لو گ میرے
ایک ہا تھ پر سورج اور ایک پر چا ند رکھ دیں تو بھی میں حق کے اعلا ن سے با
ز نہ آؤں گا “ سا لہا سال کے ظلم وستم اور تکلیفوں کے بعد بھی کبھی ایک
لمحہ کو ما یو سی آپ ﷺ کے دل میں جگہ نہ بنا سکی ۔حضرت عا ئشہ ؓ فر ماتی
ہیں کہ”مد ینہ کے زما نہ قیا م کے دورا ن حضور ﷺ نے کبھی دو وقت سیر ہو کر
کھا نا نہ کھا یا “۔
آپﷺ جو وعدہ کرتے اسے پو را کر تے ،سچا ئی اس درجہ تھی کہ دشمن بھی جھو ٹا
نہ کہہ سکے ،سادگی طبیعت بے انتہا تھی ،کھا نے پینے اٹھنے بیٹھنے رہنے سہنے
میں ذرا تکلف نہ تھا ۔گفتگو فرماتے تو ٹھہر ٹھہر کر کبھی بے ضرورت با ت نہ
کر تے ہنسی آتی تو مسکرا دیتے ۔ نما ز میں سرا پا نیا زبن جا تے ، نر م دل
اتنے کہ کسی کی تکلیف دیکھی نہ جا تی ۔ غر ض کہ جس پہلو سے دیکھیے ایک مکمل
ذات کا صحیح پیکر ۔
اگر ٓاج کی زندگی میں ہد ایت لینی ہو تو آپﷺ ہر شعبہ زند گی میں نمو نہ بن
کر ہماری ہدا یت کر تے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بچہ اور نو جو ا ن آپﷺ کی ابتدا
ئی زند گی سے سبق لے ، مزدور دیکھنا چا ہیں تو خند ق اور مسجد نبو ی کے مز
دوروں کے سر دار کو ضرور دیکھیں ، زا ہد و عا بد درس لینا چا ہیں تو غا ر
حرا کے متعکف کو دیکھ لیں ، خطیب دیکھنا چا ہیں خطبہ حجتہ الو دا ع دیکھ
لیں ،اگر کسی فو جی افسر کو طر یقہ جنگ کے اصو ل سیکھنا ہو میدان بدر اور
خندق کے اعلیٰ افسر کو دیکھ لے ، امرا لیڈر اور سیا ست داں اپنانا چا ہیں
تو مد ینہ کی مثا لی زند گی کو اپنے لیے مثا ل بنا لیں ، غر یب ومسا کین مد
ینہ کے فا قہ کر نے وا لے کا ئنا ت کے مالک کی ہمت وعز م سے حا لا ت کا
مقابلہ سیکھیں ۔ غر ض زند گی کے ہر شعبے میں آپ ﷺ نے ہد ا یت کا سا مان پید
ا کر دیا جو ہما رے ہر دور کے ہر عمر کے اور ہر طبقے کے لیے مثال کا در جہ
ر کھتی ہے۔
ان کی تعر یف اور خو بیو ں میں یہ ایک چھو ٹا سا مضمون ا سی طر ح ہے گو یا
چھو ٹا منہ اور بہت، بہت بڑ ی با ت اور میں سو چنے پر مجبور ہو ں کہ ا گر آ
پﷺ نہ ہوتے ہم تمام دنیا کے انسا ن جہا لتوں کے اند ھیرو ں میں بھٹک رہے ہو
تے۔ہما ری دنیا اور آخرت دو نو ں بر با د تھی کہ بحثیت عورت ہمارے لیے عو
رتوں کے حقو ق کی صحیح نگہبا نی آپﷺ نے فر مائی آ پ ﷺ نے معمو لی غلا موں
کی زند گی میں خود مختاری کی نئی رو ح پھو نک دی میری بات سے آپ سب ہی
اتفاق کر یں گے کہ اقوا م متحدہ کے انسانی حقوق کے تما م اصول وضوابط
آنحضرت ﷺ کے بتا ئے ہو ئے ہیں خطبہ حجتہ الو داع کی تعلیمات کا مظہر ہیں یہ
چیز بھی آپ ﷺ کی ذات اقدس ہی کے ساتھ مخصوص ہے کہ انسا نی تا ریخ میں صرف
آپ ﷺ ہی کی زند گی ہے جو پو ری کی پوری با تما م وکما ل جز ئیا ت حا فظہ
میں ُذہن و فکر ُ میں صفحات کا غذ پر، بلکہ اعما ل وکردار تک میں محفو ظ ہے
قدرت کے جا نب سے اس تحفظ میں یہ راز بھی مخفی ہے کہ ہر عمر اور ہر حال کے
انسان کے لیے آئینہ رہ نما ہے آج ہم تما م مسلما ن ان ہدایات کو جو آج سے
تقریبا پندرہ سو سال پہلے دی گئی تھیں پیش نظر رکھ کر اپنے حالات کا جا ئزہ
لینا چا ہیے جب میں آپ ﷺ کی تما م صفا ت پر نظر ڈا لتی ہو ں کہ آپ ﷺ کیسے
معا شرے کے فرد تھے لیکن ! آپ ﷺ کیا ہو گئے تو آپ ﷺ مجھے دنیا کی سب سے
خوبصو رت اور عزیز ہستی دکھائی دیتے ہیں اور میں دل کی گہر ائی سے کہتی ہو
ں کہ ایسے ہیں میر ے نبی ﷺ ۔ |