حمد ہے اُس پروردگار عالم کے لئے
جس نے امر کن سے کُل کائنات کو پیدا فرمایا اور ایک مُشتِ خاک سے انسان
بنایا پھر اس کو وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ (اور بیشک ہم نے اولادِ
آدم کو عزت دی۔ سورۃ الاسراء آیت 70) کا تاج پہنایا اور اشرف المخلوقات
قرار دیا۔ پھراس خاک کو عزت دینے کے لئے اُن میں بیشمار انبیاء کرام علیمل
السلام کو بھیجا کہ یہ تمام نعمتوں سے بالا تر نعمت ہیں۔ اور پھر درود
لامحدود اُس محبوب رب ورود پر کہ جن کا وجود باوجود اس جہاں کی پیدائش کا
سبب ہے۔
وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ؕ﴿۴﴾
اور ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ (سورۃا لنشرح ، آیت 04)
قارئین کرام ربیع النور شریف کے مبارک و محترم مہینہ جاری ہے اور جب اس
مبارک و محترم مہینہ کا آغاز ہونا چاہتا تھا میرے ذہن میں یہی قرآنی آیت وَ
رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ایک ورد کی صورت آنے لگی میں نے اپنی فکر کو اس
قرآنی آیت کی معرفت حاصل کرنے کی خواہش پر مراقب کرلیا۔ ترجمتہ القرآن "اور
ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کردیا" نے کچھ ایسا سرور دیا کہ قلب کی
کیفیت متغیر ہونے لگی اور مجھے میرے رب کا ترتیب کے لحاظ سے پہلا فرمان
اَلۡحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیۡنَ (سب خوبیاں اللہ کو جو مالک سارے
جہان والوں کا ۔ سورۃالفاتحہ آیت 01) ایک حصار کی مانند اپنے گردوپیش نظر
آنے لگا ۔ یہ حصار بھی بڑا عجیب تھا روح کی پرواز جہاں جہاں تک ہوتی وہا ں
وہاں میں خود کو بہرصورت اسی کے حلقے میں پاتا۔ بہرحال میری فکر گہری ہوتی
رہی مراقبہ روحانی لذتوں سے مالا مال جاری رہا اور آہستہ آہستہ مجھے عالمین
میں رب کی ربوبیت کا اقرار ہر شئے میں نظر آنے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ اب کچھ
اور منظر بھی واضح ہونے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ایک اور حصار ایک اور حلقہ ۔۔۔۔۔۔۔
اور بالآخر یہ مبہم و نیا حصار بھی ایک اور قرآنی آیت کی سورت دکھائی دینے
لگا کہ وَمَاۤ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیۡنَ (اور ہم نے
تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ سورۃ الانبیاء آیت 107) اب میرا
وجود دو حصاروں میں گھرا تھا ۔ مجھے اپنے رب کی حکمت بھری توجیہات سمجھ آنے
لگیں ۔ قلب نے اقرار کیا کہ جہاں جہاں میرے رب کی ربوبیت ہے وہاں وہاں تک
اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کو بھی رکھا ہے۔ میرے اس
وجدان کو قرآن پاک کی ایک آیت کی حمایت حاصل رہی کہ وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ
کُلَّ شَیۡءٍ (اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے ۔ سورۃ الاعراف آیت 156)۔
گھتیاں سلجھنے لگیں حکمت کے پہلوؤں نے قلب پر ڈیرہ ڈالنا شروع کردیا اور اب
سمجھ آیا کہ "رحمت پہلے ، پھر شئے کا وجود ہوتا ہے ورنہ شئے پر رحمت کیسے
وسعت رکھ سکے گی دوسرے لفظوں میں کائنات کی ہر شئے کو وجود نبی پاک صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصدق سے ملا ہے۔ کیونکہ اگر تخلیق کے مرحلے پر رحمت
کا وجود نہیں ہوتا تو کیسے رحمت کسی شئے کو گھیر سکتی تھی۔ لہٰذا لازمی امر
یہ تھا کہ وجود رحمت پہلے ہو تاکہ دوران وجودِ شئے رحمت اسے اپنے گھیرے میں
لے سکے"۔ قلب کی کیفیت نے پھر تغیرات کو ہوا دی ۔ خیال در خیال دماغ کی
اسکرین سے ٹکراتے اور نت نئے فکرات کو جنم دیتے رہے ایک یہ بھی خیال آیا کہ
اگر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟ دماغ ماؤف ہوگیا اور قلب کے آگے
ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا ہوگیا کہ یکایک رب کا کرم ہوگیا اور ایک قرآنی آیت
وَلَوْلَا فَضْلُ اللہِ عَلَیۡکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّیۡطٰنَ
اِلَّا قَلِیۡلًا (اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو
ضرور تم شیطان کے پیچھے لگ جاتے ۔ سورۃالنساء آیت 83) نے قلب میں نور بھر
دیا ۔مراقبہ جاری تھا اب میری روح کی پرواز کا مقصد اللہ کی اس عظیم رحمت
کو تلاش کرنا ہوچکا تھا۔ مجھے اس روحانی سفر میں خوب مزہ آرہا تھا قلب کی
لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیات الگ ذوق آگہی کو پتش دے رہی تھیں کہ میری روح نے
ایک اور قرآنی آیت یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ ذُو
الْفَضْلِ الْعَظِیۡمِ (اپنی رحمت سے خاص کرتا ہے جسے چاہے ۔اور اللہ بڑے
فضل والا ہے۔ سورت آل عمران آیت 74) کی گونج اپنی سماعتوں سے ٹکراتی محسوس
کی۔ ذوق و شوق بڑھنے لگا اور مجھے رب کی رحمت اور فضل کی معرفت حاصل کرنے
کی جستجو ہونے لگی۔ میری روح تمام تر توجہ کے ساتھ اللہ کی اس رحمت کی طرف
متوجہ ہوئی جو سارے جہان والوں کے لئے بھیجی گئی ہے اور جو اگر نہ ہوتی تو
شیطان لعین اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوجاتا۔ بے شک جب طلب سچی ہو تو
معرفت کی راہ ضرور روشن ہوجایا کرتی ہے اور اللہ اپنے بندوں کو اپنے فضل سے
خوب نوازتا ہے چناچہ روح اپنی پرواز کے دوران ایک اور قرآنی آیات کی تلاوت
میں محو دکھائی دی کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِ (محمّد اللہ کے رسول ہیں۔
سورۃ الفتح آیت 29) ۔ روح تو عالم ارواح ہی میں رب کی ربوبیت کا اقرار کر
چکی تھی مگر اب عالم اسباب میں رب نے اپنی رحمت کی تصدیق بھی کروالی تھی۔
یہ پرکیف منظر اور میری روح پر رب کی کرم نوازی ، دونوں جاری و ساری تھیں
کہ ایک آیتِ قرآنی وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ
اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الْحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمْ
ۙ کَفَّرَ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَ اَصْلَحَ بَالَہُمْ (اور جو ایمان
لائے اور اچھے کام کئے اور اس پر ایمان لائے جو محمّد پر اتارا گیا اور وہی
ان کے رب کے پاس سے حق ہے اللہ نے ان کی برائیاں اتار دیں اور ان کی حالتیں
سنوار دیں ۔ سورت محمد آیت 02)۔ نے قلب پر سکینہ اُتارا ۔
سفر خیر جاری تھا اور جستجو مختلف سمتوں میں محبوب رب ذُوالجلال کی آگہی کی
تڑپ لئے کائنات کے گوشے گوشے میں تلاش حقیقت میں مصروف تھی ۔ دماغ قلب کی
کیفیات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اپنے تئین ایک سوال کر بیٹھا کہ
یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون ہیں۔۔۔۔ ؟؟؟ قلب نے گہری نظروں سے
اسے دیکھا اور بصیرت افروز قرآنی آیت کو اس کے سامنے پیش کردیا کہ لَقَدْ
مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤۡمِنِیۡنَ اِذْ بَعَثَ فِیۡہِمْ رَسُوۡلًا مِّنْ
اَنۡفُسِہِمْ (بے شک اللّٰہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں
میں سے ایک رسول بھیجا۔ سورت آل عمران آیت 164)۔ اللہ اکبر اللہ اکبر ۔۔۔۔۔
یہ کیسا احسان عظیم ہے یہ کیا اعلیٰ بات ہے رب نے تو سب کچھ دے دیا سورج
دیا ، چاند دیا ، زمین و فلک کے نظارے دئیے ، جنت الفردوس کی بہاریں دیں ،
نعمتوں کے انبار لگا دئیے ۔ سبحان اللہ عزوجل کیسا رحیم و کریم اور سمیع و
بصیر ہے ہمارا رب جس نے اپنے فضل سے بن مانگے ہم پر اپنی نعمتوں کے دریا
بہا دئیے اور فرمایا وَمَا بِکُمۡ مِّنۡ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ (اور
تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی طرف سے ہے۔ سورۃ النحل آیت 53) اور ہر ہر
نعمت دے کر فرما بھی دیا کہ فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (تو
تم دونوں اپنے رب کی کونسی نعمت جھٹلاؤ گے۔ سورۃالرحمن) یقینن ہم اپنے رب
کی کوئی بھی نعمت کو جھٹلا نہیں سکتے مگر یہ کیا یہاں نعمت کا بیان نہیں
بلکہ احسان کا بیان ہے۔ قلب دست بدعا ہوگیا کہ الٰہی اتنی عظیم نعمت تو نے
ہمیں دی کہ اسے احسان سے تعبیر فرمایا۔ الہٰی ہمیں اس عظیم نعمت کی معرفت
عطا فرما۔ قلب کے سوز نے روح کو بڑی اونچی اُڑان دی اور دعا بارگاہ رب
العزت میں مقبول ہوکر یہ پیغام لائی کہ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ
یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِنَا
یُؤْمِنُوۡنَ (تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لئے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور
زکوٰۃ دیتے ہیںۡ اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں سورۃالاعراف آیت
156)۔
رب کا پیغام کیا ملا خوشی کی انتہا نہ رہی رگ و پے میں خوشی سراعت کرتی گئی
قلب کی کیفیتیں بدلتیں رہیں اور قلب سے ایک ہی صدا بار بار آرہی تھی کہ
اللہ کریم اتنا بڑا احسان آخر خوشی کا اظہار ہو تو کیسا اور کتنا کہ مجھے
تواس احسان عظیم پر خوشی کا ڈھنگ بھی نہیں آتا کہ ایک قرآنی آیت نے میری
روح کو اپنی طرف متوجہ کرلیا یَسْتَبْشِرُوۡنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ
وَفَضْلٍ ۙ وَّاَنَّ اللہَ لَا یُضِیۡعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیۡنَ (خوشیاں
مناتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل کی اور یہ کہ اللہ ضائع نہیں کرتا اجر
مسلمانوں کا۔ سورت آل عمران آیت 171)۔ خوشی کا اظہار کیسے ہو یہ راز بھی
روح نے جان لیا کہ اللہ کی نعمتوں کا ذکر بھی خوشی کے اظہار کا ایک طریقہ
ہے اور قرآن پاک کی ایک آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ فَاذْکُرُوۡۤا اٰلَاۤءَ
اللہِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الۡاَرْضِ مُفْسِدِیۡنَ (تو اللہ کی نعمتںّ یاد
کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ سورۃالاعراف آیت 74)۔ روح مچل گئی
حقیقت کا روپ نظر آنے لگا اور عقدہ یہ کھلا کہ نعمت کی خوشی لازم ہے ورنہ
ناشکری پر رب کی پکڑ بڑی سخت ہوسکتی ہے۔ چناچہ قرآن نے فوراً یہ پیغام بھی
دے دیا لِیَکْفُرُوۡا بِمَاۤ اٰتَیۡنٰہُمْ ؕ فَتَمَتَّعُوۡا ۟ فَسَوْفَ
تَعْلَمُوۡنَ (کہ ہماری دی نعمتوں کی ناشکری کریں تو کچھ برت لو کہ عنقریب
جان جاؤ گے ۔ سورۃالنحل آیت 55)۔ قلب نے ایک کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرلیا
اور دماغ نے موقعے سے فائدہ اُٹھا کر ایک اور سوال قلب کی جھولی میں ڈال
دیا کہ اللہ کی نعمتوں پر شکر بجا لانا کیا بہت ضروری ہے کہ رب کریم نے
اپنے کلام پاک کی اس آیت کی طرف میری روح کو متوجہ کردیا وَ اِذْ تَاَذَّنَ
رَبُّکُمْ لَئِنۡ شَکَرْتُمْ لَاَزِیۡدَنَّکُمْ وَلَئِنۡ کَفَرْتُمْ اِنَّ
عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ (اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنا دیا کہ اگر احسان
مانو گے تو میں تمہیں اور دونگا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔
سورت ابراہیم آیت 07)۔ بے اختیار روح نے ایک سنسناہٹ محسوس کی کہ اچانک ایک
اور قرآنی آیت قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ
فَلْیَفْرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوۡنَ (تم فرماؤ اللہ ہی کے
فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت
سے بہتر ہے ۔ سورت یونس آیت 58) نے فوراً راہ سجھا دی اور قلب نے تمام تر
گہرائیوں کی ساتھ اللہ کریم کی نعمت عظمی محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے ملنے پر خوشی کے اظہار کا اقرار کرلیا۔ اور اس طرح پہلے دن کا
مراقبہ اختتام پذیر ہوا مگر جو سُرور دوران مراقبہ حاصل ہوا اس کی لذت بعد
از مراقبہ بھی دل و دماغ میں محسوس ہورہی تھی.
(جاری ہے ۔۔۔۔۔) |