نبی کریمﷺ کی ایک حدیث مبارک کا
مفہوم ہے کہ: جب تمہارا جنت کے باغوں سے گزر ہو تو ان سے خوب سیر ہو ا کرو۔
حضرات صحابہ کرامؓ نے پوچھا، یا رسول اﷲﷺ! جنت کے باغ کون سے ہیں؟ آپﷺ نے
فرمایا: ذکرُ اﷲ کے حلقے۔جی ہاں! یہ ذکر اﷲ کے حلقے واقعی جنت کے باغ ہیں
یا تو اس لئے کہ ذکر کرنے والے کے لئے ہر ذکر پر جنت میں ایک عظیم الشان
سایہ دار اور گھنا درخت لگا دیا جاتا ہے اور پھر جس قدر ذکر کی مقدار زیادہ
ہو گی اسی قدر جنت میں اُس کے درختوں اور باغوں کی تعداد اور وسعت میں
اضافہ ہو گا، یا اس لئے کہ ذکر کرنے والا جس وقت، دنیا کے غم اور تفکرات سے
آزاد ہو کر ،دل و دماغ کی پوری توجہ ویکسوئی سے اپنے ربّ کو یاد کرتا ہے،
اپنے جسم کے روئیں روئیں سے اﷲ، اﷲ کی صدائیں اور نور بھری کرنیں پھوٹتا
دیکھتا ہے، اور ساتھ ہی یہ تصور ہو کہ لفظ اﷲ سے نکلنے والے نور نے مجھے
چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور اب یہ نور میرے جسم کے ہر ذرے میں داخل ہو
کر اس میں رچی گناہوں کی نحوست جلا کر بھسم کر دیتا ہے اور پھر انسان کو
ظاہر و باطن نور ہی نور نظر آتا ہے تو یہ عجیب و سرمست ماحول اور پُرسکون
کیفیت کیوں نہ جنت کا باغ کہلائے؟
اور اگر یہ پرنور ماحول انفرادی نہ ہو بلکہ اجتماعی سطح پر سینکڑوں اہل
ایمان اسی ایک مقصد کو سامنے رکھ کر اﷲ کی رضا کے لئے جمع ہوں، اﷲ کے گھر
مسجد کو اپنا مستقر و مرکز ٹھہرائیں، دنیا سے اس حد تک رابطہ ختم کر لیں کہ
باہم بھی دنیاوی بات کے تو بالکل قریب نہ جائیں اور دینی بات جو فوری اور
ضروری ہو صرف اسی کی اجازت ہو، یوں اپنا تمام وقت، اﷲ کی یاد کیلئے وقف کر
دیں، اور ایک ہفتہ مکمل اسی ماحول اور کیفیت میں گزاریں تو پھر اُن صاحب کا
یہ تبصرہ بالکل بجا محسوس ہوتا ہے جنہوں نے پہلی دفعہ ایسی روحانی وایمانی
مجلس میں شرکت کی تھی، انہوں نے کہا کہ اب تو دل یہی چاہتا ہے بس مر کر اور
اسی راستے میں جان قربان کر کے ہماری لاش گھر واپس جائے، کیونکہ اب ایسا
روحانی اور جنتی ماحول دیکھنے، اس میں شرکت کرنے اور اپنی آنکھوں سے اس کی
برکات کا مشاہدہ کرنے کے بعد دوبارہ پہلی سی دنیا دارانہ اور غافلانہ زندگی
کی طرف منہ کرنے کو دل آمادہ ہی نہیں ہو رہا۔یہ مبارک ماحول اور اس میں
شرکت کرنے کے بعد ایسے پاکیزہ جذبات بہاولپور میں قائم مرکز و مسجد عثمانؓ
وعلیؓ میں ہر مہینے میں دو دفعہ منعقد ہونے والے”دورہ تربیة“ کے وہ آثار و
نتائج اور فیوض وثمرات ہیں جن سے ہر شخص اپنے ظرف، اپنی اِستعداد اور اپنی
طلب و اِخلاص کے بقدر حاصل کرتا ہے۔ خود راقم السطور کو مختلف کارگزاریاں
سننے اور واقفین حال سے مختلف واقعات جاننے کی وجہ سے اس دورے کے ان ایمان
افروز ثمرات اور خیرات و برکات کا کافی یقین حاصل تھا لیکن سچ یہ ہے کہ:
لیس الخبر کا لمعاینة
یعنی سنی سنائی بات، مشاہدے کے برابر نہیں ہو سکتی اور یہی حقیقت تب آنکھوں
کے سامنے وجود پذیر ہو کر سامنے آئی جب گزشتہ ہفتے دورہ تربیہ میں شرکت کا
موقع ملا، اﷲ تعالیٰ اسے میرے لئے اور تمام شرکاء کے لئے سعادت کا باعث
بنائے۔ بلامبالغہ عرض ہے کہ جو کچھ اس بارے میں سنا تھا ، وہاں جا کر اس کی
خیرات و برکات اور فوائد و ثمرات کو اس سے بڑھ کر پایا اور دل نے گواہی دی
کہ واقعی اس مسجد ، مرکز، اس کے منتظمین اور ان تمام کے باعث و محرک امیر
المجاہدین حضرت مولانا محمد مسعود ازہر حفظہ اﷲ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خاص
توجہات و عنایات اور فضائل و کرامات حاصل ہیں اور یہ مرکز ومسجد ان فیوض کا
منبع و مخزن ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے حضرت الشیخ حفظہ اﷲ کے قلب مبارک میں
ودیعت فرمائے ہیں۔ کیونکہ سنت اﷲ یونہی جاری ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر دور میں
اپنے کسی محبوب ومقبول بندے کے دل و دماغ کو اپنے انوار و تجلیات کا خاص
مخزن بناتے ہیں اور پھر ان کے توسط سے اپنے فیض اور نور سے سینکڑوں، ہزاروں،
لاکھوں بندگان خدا کو مستفید فرماتے اور اپنے قرب کی منزلیں طے کراتے ہیں۔
اور اﷲ تعالیٰ کا ہم پر تو یہ خاص کرم ہے کہ اس قادر مطلق ذات نے ہمارے شیخ
کو ”سلوکِ نبوت“ والے طریق سے نوازا ہے۔ یہ سلوکِ نبوت والا طریق اس امت کے
محققین اور اخص الخواص حضرات کو عنایت کیا گیا ہے، قریبی دو تین صدیوں میں
اس حوالے سے جو شخصیت خاص مقام اور شہرت کی حامل ہے وہ سید المجاہدین سید
احمد شہیدؒ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ایسے حضرات کو اصلاً فرائض کے احیاء اور فرائض
کی ترویج واشاعت کے لئے موفّق فرماتے ہیں اور ان کا یہی عمل اصطلاح
میں”قُرب بالفرائض“ کہلاتا ہے اور اسی کا دوسرا نام”سلوکِ نبوت“ہے،کیونکہ
اس میں اصلاح نفس اور مجاہدات کے لئے خلوت گزینی، عزلت نشینی، قطع علائق
وغیرہ امور میں ہمہ وقت مصروف نہیں رکھا جاتا بلکہ بقدر ضرورت ان اُمور کی
مشق کرانے کے بعد اصل توجہ اِحیائِ فرائض جیسے اہمّ امور کی طرف اپنی ہمتوں
کو متوجہ کر کے اور احیاء فرائض کے سلسلے میں کئے جانے والے مجاہدات کو
اصلاح نفس کی دواء کے طور پر اِستعمال کرایا جاتا ہے۔ اسی لئے اکابر کے
فرمودات میں یہ بات ملتی ہے کہ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ بعد کے زمانوں میں
حضرات صوفیا نے جو مجاہدات تجویز کیے ہیں، دورِ نبوت اور دورِ صحابہ میں ان
کی تفصیل کہیں نہیں ملتی اس کی کیا وجہ؟ تو اس کا جواب یہی دیا گیا کہ:
حضرات صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺ کے ساتھ مل کر جہاد اس قدر کیا کہ انہیں ان
مجاہدات کی حاجت نہ رہی تھی ، ہاں ذکر و تلاوت جس طرح عام حالات میں بکثرت
کیا کرتے تھے میدان جہاد میں بھی حسب موقع اس میں کوئی غفلت نہیں برتی جاتی
تھی۔ اس پس منظر کی وجہ سے ایسا طریق جس میں اصلاً اِحیاء فرائض اور احیاء
جہاد کی راہ سے قربِ الہٰی کی منازل طے کرائی جائیں اور دیگر مجاہداتِ نفس
سے تبعاً معاونت لی جائے وہ ”سلوکِ نبوت“ کہلاتا ہے، جبکہ دیگر صوفیاء کرام
اپنے معمولاتِ متداولہ کے ذریعے جو طریق اختیار کرتے ہیں اسے”سلوکِ ولایت“
کہتے ہیں اور اسے ”قُرب بالنوافل“ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ حضرات محققین
فرماتے ہیں کہ”سلوک نبوت“ نبی کریمﷺ کے بعد حضرت ابوبکرصدیقؓ کے واسطے سے
آگے چلا ہے جبکہ”سلوک ولایت“ حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ سے آگے چلا ہے۔
ان میں ہر سلوک اﷲ رب العزت کے ہاں پسندیدہ اور محبو ب ہے، اﷲ تعالیٰ جو جس
کے مناسب حال جانتے ہیں اُس سے اُسے سرفراز فرماتے ہیں۔اب گویا یہ بھی کہا
جا سکتا ہے کہ مرکز و مسجد عثمان ؓ وعلیؓ میں دروہ تربیہ کے ذریعے”سلوک
ولایت“ کی منازل طے کرائی جاتی ہیں اور اس دورے میں کرائے جانے والے اعمال
و اشغال کے ذریعے”سلوکِ نبوت“ کی استعداد پیدا کی جاتی ہے اور دورہ تربیہ
کے بعد دورہ تفسیر آیاتِ جہاد، دورہ اساسیہ ،خدمت اور بعد ازاں پورے دین کی
عملی محنت میں شریک کر کے سلوکِ نبوت پر گامزن کر دیا جاتا ہے تب ہر شخص کی
لبوں پر یہ دعائیں شب و روز مچلتی ہیں کہ:
اللہم ارزقنی شہادة فی سبیلک
اے اﷲ! مجھے اپنے راستے میں ’‘’شہادت“ نصیب فرما۔
اور یہی تمنا اگر خلوص و صداقت سے ہم آہنگ ہو تو اپنی محنت کے ٹھکانے لگنے
کی نشانی ہے اور حصول منزل کا ثمرہ ہے۔ جسے مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے
بڑی جامعیت و وضاحت کے ساتھ ان چند لفظوں میں سمو دیا ہے کہ:”روحانی ترقی
اور کمال باطنی کا آخری اور لازمی درجہ شوق شہادت ہے اور مجاہدے کی تکمیل
جہاد ہے“ یہ دورہ تربیہ جو سلوک ِولایت کا جامع نصاب اور سلوکِ نبوت کا سِر
نامہ ہے جامع مسجد عثمانؓ وعلیؓ میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے اور بحمداﷲ
روز افزوں اس میں ترقی ہو رہی ہے، اس کا نور دن بدن پھیل رہا ہے، اس کی
ضیاء پاش کرنیں مسلسل بڑھ رہی ہیں اور نفس و شیطان کی پھیلائی تاریکیوں کی
بھگار ہی ہیں۔نوجوان بوڑھے، امیر غریب، غالم وغیر عالم، دنیا دار دین دار
سب اس پر نور نصاب سے اپنے قلوب و اذہان اور ظاہر و باطن کی تنویر کا سامان
لے رہے ہیں اور اب دوائے دل خریدنے والوں کا اتنا ہجوم ہے کہ محض پانچ چھ
سال کے قلیل عرصے میں یہ جامع مسجد عثمانؓ وعلیؓ باوجود اپنی وسعت کے تنگ
دامنی پر شکوہ کناں ہے اور کیوں نہ ہو آج امت مسلمہ عمومی طور پر روحانی
تشنہ کامی کا شکار ہے اور اب جوں جوں اس چشمہ حیواں کے اثرات پھیل رہے ہیں
تشنہ کام اہل ایمان کے قافلے جوق در جوق وہا ں حاضر ہو کر اپنی پیاس بجھا
رہے ہیں اور وہ ان تجلیات و انوار جو انہیں ان سات دنوں میں حاصل ہوتے ہیں
یہ کہہ کر آفتاب کو بھی شرماتے ہیں کہ:
ایسی تجلیاں کہاں ہیں آفتاب میں
انوارِ خاص ہیں مرے جامِ شراب میں
اور ہر روز رات کے آخری پہر، تنہائیوں اور مسجد کی پرسکون فضاؤں میں تہجد
کے روح پرور سجدوں اور توبہ و محبت و شکر الہٰی کے مراقبوں میں ٹپ ٹپ بہنے
والے آنسوؤں میں یاد الہٰی کا نور جس انداز سے چھلکتا ہے تو دل حیاتِ نو کے
شعور سے کِھل اُٹھتا ہے:
اب ذوقِ دید میں ہے شعورِ حیاتِ نو
جلووں کو احتیاط سے رکھو کتاب میں
اور ان مبارک مجلسوں سے دور ہونے کے بعد ہر دل کی یہ حسرت ہوتی ہے:
ساغر کسی کی یاد میں جب اَشکبار تھے
کتنے حسین دن تھے جہانِ خراب کے
اور انوار و برکات کی یہ محافل سجانے والوں اور امت مسلمہ کو یہ عظیم تحفہ
دینے والوں کے لئے ہر دل یوں گویا ہوتا ہے:
کچھ واقفِ آدابِ محبت نہیں مرتے
کچھ صاحبِ اَسرار سدا زندہ رہیں گے
شعلوں میں مہکتے ہوئے غنچے بھی ہیں ساغر
ظلمات میں اَنوار سدا زندہ رہیں گے
جامع مسجد سبحان اللہ:
جامع مسجد سبحان اﷲ کیا ہے؟ جی !یہ اِنہی انوار وبرکات کا نقش ثانی ہے جو
مسجد عثمان ؓ وعلیؓ سے مسلسل ضیاء پاشی کر رہے ہیں اور جب وہاں کا ماحول
تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگا تو اس میں وسعت لانے اور اس مرکزِ نور کا دامن
کشادہ کرنے کے لئے جامع مسجد سبحان اﷲ کی تعمیر کا اعلان کر دیا گیا اور
کیسا بابرکت نام ہے جس کا تصور کریں تو نورا لہٰی تصورات میں جگمگانے لگے،
زبان پر لائیں تو دہن گلاب سے زیادہ معطر ہوجائے، دل میں خیال گزرے تو دل
یاد الہٰی سے مچلنے لگے، اب آپ خود اندازہ لگائیں اس مسجد کا اندرونی ماحول
اور اس میں کئے جانے والے دن رات کے اعمال و اَشغال سے کیسا نورانی ماحول
اور فضاء قائم ہو گی جہاں درو دیوار بھی اﷲ ،اﷲ کی صدائیں بلند کرتے محسوس
ہوں گے جیسا کہ مسجد عثمانؓ وعلیؓ میں دل کی آنکھ والوں نے مشاہدہ کیا ہے
اور پھر یہ عظیم مرکز پورے دین کی محنت کا مرکز بنے گا، اس میں ذکر کی
محنت، نماز کی محنت، تلاوت کی محنت، علم دین کی تعلیم کی محنت، مختلف
اصلاحی و تبلیغی مہمات کی محنت، جہاد اور شہادت کے راستوں کی محنت، ہر طرف
ایک تڑپ اور لگن ،کوئی دعاؤں میں ذکر کی حلاوت مانگ رہا ہے، کوئی تلاوت کی
درستگی مانگ رہا ہے، کوئی نماز کا نور مانگ رہا ہے، کوئی اپنے گناہوں پر
ندامت کے مبارک قطروں سے زمین کو سیراب کر رہا ہے، کوئی محبت الہٰی کے فیض
کے لئے گڑ گڑا رہا ہے، کوئی جہاد کی تشکیلات کے لئے دست ِدعاء پھیلائے ہوئے
اور کوئی شوق شہادت کے لئے مچلتا ہوا.... یہ اس مسجد کی اندرونی فضا کی ایک
جھلک ہے اور یہ اس مسجد پر اﷲ تعالیٰ کی خاص توجہات وعنایات کا ثمرہ ہے (
اور ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر مسجد کو اس طرح آباد فرمائے) اب اس مسجد
کی مہم شروع ہو چکی ہے، بہت سے نوجوان اس کی دعوت لے کر مسلمانوں کی خدمت
میں حاضری دے رہے ہیں اور بہت سے خوش نصیب اہل ایمان بڑھ چڑھ کر اس ایمانی
عمل میں دامے درمے سخنے حصہ لے رہے ہیں، اس مسجد میں تعمیر ہونے والے ایک
مصلے کی قیمت6250 ہے۔ یہ کس قدر سستا سودا ہے اگر ایک مصلّیٰ بھی ہم نے
فراہم کر دیا تو نہ معلوم اس مصلے پر کتنے عبادت گزاروں کی کیسی کیسی
نیکیاں ہمارا مقدر بنیں، توبہ، شکر، نماز، تلاوت، ذکر، فکر، جہاد و شہادت
کی دعا اور علم دین و وعظ نصیحت ،جو عبادات ہوں گی ہمارا ذخیرہ آخرت بنیں
گی۔ کتنا آسان ہے اﷲ تعالیٰ کی ان نعمتوں اور اِن باغنیمت لمحوں سے فائدہ
اٹھانا ،اب جو جتنا کمانا چاہے درِ رحمت کھلا ہے، آگے بڑھو اور اخلاص کی
دولت سے مالا مال ہو کرجو کچھ خرچ کرو گے اﷲ تعالیٰ کااعلان ہے:
وما تنفقوا من شی فی سبیل اﷲ یوف الیکم وانتم لا تظلمون
”تم جو کچھ بھی اﷲ کے راستے میں خرچ کروگے، وہ پوری طرح تمہیں لوٹا دیا
جائے گا(یعنی اس کا پورا پورا ثواب دیا جائے گا) اور تم پر(اس ثواب میں کمی
کر کے) کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ |