مادری زبان کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے عالمی ادارہ
یونیسکو نے 1999ء میں 21 فروری کو مادری زبان کے حوالے سے باقاعدہ عالمی دن
منانے کا اعلان کیا ،جو اب پوری دنیا میں بیس سال سے منایا جارہاہے ۔ اس دن
مختلف تنظیمیں تقریبات کا اہتمام کرتی ہے ، عوام میں مادری زبانوں کی اہمیت
اور تعلیمی افادیت کا شعور اجاگر کرنے کیلئے واک اور بینر ڈسپلے کرنے کا
اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ حکومتوں کو اس سے کوئی دلچسپی
نہیں ہوتی ۔خالی دن منانے سے کیا ہو گا ۔بہت ساری زبانیں مسلسل دم توڑ رہی
ہیں ۔جب تک حکومت ،اخبارات ،جرائد ورسائل ،اور خاص کر الیکٹرانک میڈیا
مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے بھر پور حصہ نہیں لیں گے، اس دن کو منانے کا
کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ۔
اقوام متحدہ کے صدر دفاتر میں یونیسکو کی طرف سے تشکیل دیے گئے، عالمی
زبانوں کے آن لائن نقشے کے متعلق ایک بیان جاری کیا گیا ہے، جس میں بتایا
گیا ہے کہ دنیا میں بولی جانے والی چھ ہزار سے زائد زبانوں میں سے ا ڈھائی
ہزارسے زبانیں خطرے میں ہیں۔ جن میں سے دو سو سے زبانیں خاتمے کے قریب ہیں
۔زبان صرف ایک ذریعہ اظہار ہی نہیں بلکہ اقوام کی شناخت بھی زبان سے ہی
ہوتی ہے ۔ پاکستان، ہندوستان، امریکہ، افریقہ، چین، روس، فرانس، جرمنی،
ایران، اٹلی،جاپان ،سعودیہ ا رو دیگر ممالک کی اقوام کی اپنی علیحدہ علیحدہ
زبانیں ہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ 860 مادری زبانیں نیوگنی میں بولی جاتی ہیں۔انڈونیشیا
میں 742 ۔نائیجیریا میں 516 ۔بھارت 425 ۔امریکہ 311 ۔آسٹریلیا میں 275 ۔
اور چین میں241 ۔زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ دنیا بھر میں تقریبا کل 6912
زبانیں بولی جاتی ہیں۔آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ بولی جانے والی والی
زبان چینی ہے ۔دوسرے نمبر پر ( اردو یا ہندی) ہے ۔تیسرا نمبر انگلش کو حاصل
ہے ۔اس کے بعد ہسپانوی ،عربی ،بنگالی زبان وغیرہ کا نمبر آتا ہے ۔پنجابی 11
او ر (صرف) اردو ،بولی جانے والی زبانوں میں 19 ویں نمبر پر ہے ۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے
شمالی علاقہ جات، صوبہ سرحد، بلوچستان، کشمیر، بھارت اور افغانستان سے
ملحقہ سرحدی علاقوں میں بولی جان والی 27 مادری زبانوں کو ختم ہونے کا خطرہ
لاحق ہے۔مادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں
نمبر پر ہے ۔
پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق پاکستان میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 سے
زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے،
جسے 48فیصد افراد بولتے ہیں، جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی،
اردو، پشتو 8 فیصد، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان
کا استعمال کرتے ہیں۔پاکستان کی جن ستائیس زبانوں کو خطرات لاحق ہیں، ان
میں ۔ براہوی۔ بلتی ۔مائیا۔پورک۔پھلور۔ کلاشہ ۔پوٹھواری ۔ چلیسو۔دامیلی۔
ڈوماکی۔گوار۔باٹی۔ گاورو۔ جاد۔ کاٹی۔ خووار۔کنڈل شاہی ۔ ارمری۔پھلورا۔ سوی۔
سپٹی۔طوروالی۔ اوشوجو۔واکھی۔یدیغا اور فارسی وغیرہ شامل ہیں۔ان زبانوں کو
بولنے والوں کی تعداد نہایت قلیل رہ گئی ہے ۔
جب پاکستان کے لیے جدو جہد کی جا رہی تھی، اس وقت دنیا میں ’’ایک قوم ایک
زبان‘‘کے نعرے کا شور تھا ۔ حالانکہ اسلام میں ایک زبان والوں کو قوم نہیں
کہا جاتا ۔نہ ہی کسی مخصوص رنگ یا نسل کا اس سے تعلق ہے ۔لیکن دنیا کی دیگر
اقوام کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے اردو کو اپنی قومی زبان قرار دے دیا ۔
کیونکہ اس وقت برصغیر میں یہی ایک ایسی زبان تھی، جس کی ہمارے ملک کی مادری
زبانوں سے بہت مماثلت تھی۔پاکستان بن گیا ،لیکن اس کے ارباب اختیار نے اردو
کے نفاذ کی کوشش نہیں کی ۔اس طرح دنیا کی عجیب و غریب قوم پاکستانی وجود
میں آئی جس کی مذہبی زبان عربی۔، قومی زبان اردو۔ تعلیمی نظام، عدالتی نظام
اور دفتری نظام سب کا سب انگریزی زبان میں جبکہ مادری زبانوں میں
پنجابی،سندھی ،بلوچی ،پشتو،سرائیکی کے علاوہ دیگر بہت سی ہیں۔اس قوم کا
تاریخی ،تہذہبی ،علمی ،ثقافتی سرمایہ فارسی زبان میں ہے ۔
اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے اب تک کسی بھی حکومت نے سنجیدگی سے
کوشش نہیں کی ۔بلکہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہمارے ہاں عجیب ہی صورت حال ہے کہ
بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینے کی بجائے ان کو رٹو طوطے بنایا
جا رہا ہے ۔حالانکہ ماہرین تعلیم کے مطابق بچے کو کم از کم پرائمری کی سطح
تک اس کی مادری زبان میں تعلیم دی جانی چایئے۔اس سے اس کی بنیادیں مضبوط
ہوں گی اور وہ بہتر طریقے سے علم حاصل کر سکے گا ۔ اس طرح بچہ احساس کمتری
کا شکار نہیں ہو گا ۔ہماری نئی نسل کو احساس کمتری کا شکار بنانے کی سازش
ہماری ہی حکومت کی طرف سے مسلسل کی جارہی ہے ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جہاں سکولوں میں
بچوں کو انگریزی کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے پر جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔
اور بہت سے مدارس میں انگریزی سے نفرت کی جاتی ہے ۔ایک غلط اور ذہنی غلامی
کا تصور ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں میں ٹھونسا جا رہا ہے کہ انگریزی سیکھے
بغیر ترقی ممکن نہیں ۔کیونکہ یہ سائنس کی زبان ہے ۔حالانکہ سائنس کی کوئی
زبان نہیں ہے ۔سائنس تو ایک علم کا نام ہے علم کسی بھی زبان میں ہو ۔ایک
دور تھا کہ سائنس کی زبان عبرانی تھی ،پھر عربی اور فارسی بھی تھی ۔پھر ہم
دیکھتے ہیں چین و جاپان نے انگلش سیکھے بناں ترقی کی ہے ۔
دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان بھی انگلش نہیں بلکہ چینی ہے
دوسرے نمبر پر اردو یا ہندی ہے ۔انگلش کا کہیں جا کے تیسرا نمبر ہے ۔ہم
انگلش کے بطور زبان مخالف نہیں ہیں ۔لیکن بطور علم اور طاقت کی زبان کے
مخالف ہیں ۔ہمیں ساری دنیا کی زبانیں سیکھنی چاہئے ۔ان زبانوں کا علم اپنی
زبان میں منتقل کرنا چاہئے لیکن ہمیں اپنی جڑوں سے جڑے رہنا چاہیے ۔اپنی
قومی اور مادری زبانوں کو پروان چڑھانا چاہیے ۔ہماری ذہنی مفلسی اور جہالت
کا یہ حال ہے کہ ہم کوئی بھی مادری زبان مثلاََسندھی ،بلوچی ،پشتو یاپنجابی
وغیرہ زبان بولنے والے کو جاہل تصور کرتے ہیں ۔
ایک مرتبہ چین کے وزیر اعظم سے انگریزی زبان میں خطاب کرنے کے لیے کہا گیا
تو انہو ں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ یاد رکھیے ’’چین بے زبان نہیں ہے
‘‘جب ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان جب پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تھے
تو انہوں نے پارلیمنٹ سے خطاب اپنی زبان میں کیاتھا ۔بلکہ انہیں اس پرزیادہ
حیرت بھی ہوئی تھی اور اس بات پر حیرت کا اظہار بھی کیا تھا کہ ہمارے وزیر
اعظم نے اپنی زبان کی بجائے انگریزی میں خطاب کیا تھا ۔
یہ ہی حال جاپان کا ہے وہاں کا کوئی بھی فرد اس غلط فہمی میں نہیں ہے کہ اس
کو تعلیم حاصل کرنی ہے۔ خود کو ’’بڑی چیز ‘‘بنانا ہے تو انگریزی یا کوئی
غیر ملکی زبان سیکھنا چاہئے ۔کسی کے دماغ میں یہ نہیں ہوتا کہ اگر فلاں
زبان نہ سیکھوں تو اعلی تعلیم نہیں حاصل کرسکوں گا ۔ملک ترقی نہیں کر سکے
گا۔ہر قوم کو اپنی زبان پر فخر ہے ماسوائے ہم پاکستانیوں کے ۔
اب تحریر کے آخر میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی رپورٹ پڑھیں اور
سوچیں جس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 55 لاکھ (حالانکہ یہ اصل تعداد کا
نصف ہوگا)بچے کبھی سکول نہیں گئے اور سکول جانے والوں میں بھی ہر سال
تقریباً 35 ہزار بچے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ سکول سے باہر بچوں کے حوالے سے
135 ملکوں میں نائجیریا کے بعد پاکستان کا 134 واں نمبر ہے ۔ اور اگر اعداو
و شمار حقیقت پر مبنی ہوں تو پہلا نمبر ہمارے ہی ملک کا بنے گا ۔بتایا گیا
ہے کہ ماہرین ِ تعلیم کی رائے میں بچوں کے سکول چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ ان
کو مادری زبان میں تعلیم نہ دینا ہے ۔
|