سوشیل میڈیا اور ہماری ذمہ داری !

 نوجوان نسل کے ذہن ودماغ پرسوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں 50ملین سے زائد سوشل میڈیا اکاونٹس استعمال ہو رہے ہیں ۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستا ن میں فیس بک استعمال کرنیوالوں کی تعداد سب سے زیادہ جو کہ تقریباً30ملین سے زائدہے۔ سوشل میڈیا افراد اور اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونے، خیالات کا تبادلہ کرنے، اپنے پیغامات کی ترسیل اور انٹرنیٹ پر موجود دیگر بہت سی چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئرکرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ایک دہائی میں اس میں انتہائی تیز رفتار ترقی ہوئی ہے اور اب سوشل میڈیا نوجوانوں کی بڑی تعداد کی دلچسپی کا محور و مرکز بن چکا ہے۔ آج ذرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ دُنیا کے کسی بھی گوشے میں ہونے والا کوئی بھی واقعہ سوشل میڈیا کے ذریعے سیکنڈوں میں دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے جس طرح ہر چیزکے مثبت و منفی اثرات ہوتے ہیں، جو اس کو استعمال کرنے والوں پر منحصر ہوتے ہیں، اسی طرح سوشل میڈیا کے بھی دونوں قسم کے اثرات ہیں۔ سوشل میڈیا کا مقصد رابطوں کو فروغ دینا تھا لیکن لوگوں نے اسکے مقاصد کو نظر اندازکرنا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی اخلاقی و سماجی خرابیوں نے فروغ پایا اور ایسی سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں جو معاشرے کے مختلف طبقات اورمکاتب فکر میں ایک دوسرے سے نفرت کو پروان چڑھانے اور باہمی انتشار اور خلفشار کا سبب بن رہی ہیں۔ معاشرے میں بیشتر افراد اسے لوگوں کو بدنام کرنے کیلئے بے بنیاد خبروں کو پھیلانے، تصاویر اور خاکوں میں ردوبدل جیسے طریقوں کے ذریعے غلط استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی خبر یا افواہ کی تحقیق سے بھی پہلے وہ پوری دنیا میں نشر کر دی جاتی ہے۔ معلومات درست ہوں یا غلط،کوئی اس جھنجھٹ میں پڑتا ہی نہیں ہے ۔ انٹرنیٹ نے دُنیا گلوبل ویلج بنا دی ۔ انٹرنیٹ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ صرف 55 سال پہلے کی بات ہے یعنی 1962ء میں جے سی آر لائک نامی سائنسدان تھے جنہوں نے اس کی بنیاد انٹرگلیکٹک نامی نیٹ ورک بنا کر رکھی۔ دراصل یہ ایک ایجنسی سے تعلق رکھتے تھے جس کا نام ’ڈی ارپا‘ یعنی ڈیفنس ایڈوانس ریسرچ پروجیکٹ تھا، جس کا اولین مقصد دُنیا بھر کے لوگوں کو کمپیوٹر استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کی معلومات تک رسائی دینا ممکن بنانا تھا۔بس اس خواب کو لے کر جے سی آر لائک میدان میں اتر گئے اور ڈی ارپا کے ہیڈ بنے۔ ان کے 2بیٹے وینٹ کرف اور بوب کھین، جنہوں نے 1974ء میں انٹرگلیکٹک نیٹ ورک کا نام انٹرنیٹ رکھ دیا اور جے سی آر لائک کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹی سی پی ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول کا نظام متعارف کروایا۔اس کے بعد 1976ء میں ڈاکٹر رابرٹ کلف نے ایک تار ایجاد کیا جسے ایتھرنیٹ کوایکسیل کیبل کہتے ہیں، اس کے ذریعے ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر میں ڈیٹاٹرانسفر کیا جا سکتا تھا۔ جیسے فائل ٹیکسٹ وغیرہ۔ مگر یہ محدود جگہ میں کام کر سکتا تھا۔ صرف دفتر، اسکول یا کسی عمارت کے اندر۔ پھر 1983ء میں وینٹ کرف اور بوب کھین نے ڈی ارپا کا نام تبدیل کر کے ارپا نیٹ رکھ دیا اور ساتھ یہ شرط رکھ دی کہ جسے بھی انٹرنیٹ درکار ہو، اسے ٹی سی پی لینا ہوگا۔یہ ابھی شروعات تھی۔ مزید ترقی 1984ء میں ہوئی جب ڈاکٹر جوہن پوسٹل نے ویب کی بنیاد رکھی. اس طرح مختلف اداروں کے لیے الگ الگ طریقوں سے سرچ کیا جا سکتا تھا جیسے آج ہم.com،.org،.edu،.gov لکھ کر سرچ کرتے ہیں لیکن ابھی تو انٹرنیٹ کا سفر بمشکل شروع ہی ہوا تھا۔ 1989ء میں ایک بار پھر جے سی آر لائک کے دونوں بیٹے وینٹ کرف اور بوب کھین نے اہم قدم اٹھایااور ایک کمپنی آئی ایس پی کی بنیاد رکھی۔ یعنی انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر۔اس کے 2فائدے ہوئے۔ ایک ان کے والد کا خواب پورا ہوا، دوسرا برسوں کی محنت اب کاروبار میں بدلنے والی تھی کیونکہ انٹرنیٹ کنکشن اب گھر گھر جا سکتا تھا۔ بالکل ٹیلیفون وائر کی طرح اور اس کے ساتھ ایک رسیور بھی دیا جاتا جس کو ہم موڈیم کے نام سے جانتے ہیں۔ یوں با آسانی کسی بھی صارف کا کمپیوٹر انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ منسلک ہو جاتا تھا اور کمپنی اس کا بل وصول کرتی تھی۔ یہ ڈائل اپ سسٹم کہلاتا ہے۔1991ء میں ٹم برنلس نے www وضع کی یعنی ورلڈ وائیڈ ویب۔ اس اضافے کے بعد بہت سے کام اب آن لائن ہو سکتے تھے۔ اس کامیابی کا نتیجہ بہت سے حیرت انگیز انقلابوں کا راستہ استوار کرنے میں اہم پیش رفت ثابت ہوا۔ سب سے پہلے پیزاہٹ نے آن لائن سروس کو اپناتے ہوئے پیزا بک کرنا انتہائی آسان کر دیا، مگر ابھی بھی کافی بہتری کی گنجائش تھیں۔1996ء وہ سال تھا جب پہلی ای میل سروس ہاٹ میل لاونچ ہوئی۔ برقی خطوط بذریعہ انٹرنیٹ کہیں بھی بھیجا جا سکتا تھا۔ 1998ء میں ہمارا جانا مانا سرچ انجن گوگل لاونچ ہوا۔ اسے بنانے کا سہرا لیری پیچ اور سرجی برین کے سر جاتا ہے۔1999ء میں انٹرنیٹ کے تاروں سے تنگ آکر ایک نوجوان نے ذرا الگ طریقے سے سوچنا شروع کیا۔ وہ سوچ یہ تھی کہ جیسے آواز بنا تار کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکتی ہے، ریڈیو میں تو کوئی ڈیٹا کیوں نہیں، اسی جدوجہد میں وائی فائی کا جنم ہوا یعنی کہ وائرلیس فڈیلیٹی،جس سے موڈیم پر بھی فرق پڑا۔ یہ ایک اہم سنگ میل تھا جو آج ہمارے لیے کافی کارگر ہے۔ اس کارنامے کو انجام دینے والے کا نام نیپسٹر ہے۔2001ء میں وکی پیڈیا ویب سائٹ بنی۔ اسے ایجوکیشن کا کوئی بھی معاملہ حل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اب ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔2003ء کی آمد کے ساتھ انٹرنیٹ پر تفریح کا سامان مہیا ہونے لگا۔ اس دوران ایپل کمپنی نے آئی ٹون نامی سائٹ میں 200000 گانے اپ لوڈ کردیے۔2004ء وہ وقت تھا جی میل لاونچ ہوا اور ڈیٹا اسٹوریج کی صلاحیت 1جی بی کر دی گئی جبکہ اس سے پہلے یاہو، ہاٹ میل صرف 2,4ایم بی ہی دیتے تھے۔اب باری آئی انٹرنیٹ پر وڈیو کی، یہ مسئلہ 2005ء میں یوٹیوب کے آنے کے بعد حل ہو گیا۔ یہ عنایت بھی گوگل کی طرف سے کی گئی۔ اسکے لاونچ ہونے کا اضافی فائدہ تھا کیونکہ وڈیو ڈاو نلوڈ اور اپلوڈ دونوں کی جا سکتی تھیں۔اس سے زیادہ دلچسپ کام 2006ء میں ہوا کہ جب فیس بک اور ٹوئٹر کا ظہور ہوا۔ انہیں بنانے والے مارک زکربرگ اور جیک ڈارسی ہیں۔ ان سائٹس سے کیا فوائد حاصل ہیں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔سوشیل میڈیا کا درست استعمال ناگزیر ٗ لیکن ہم نے اسے غلط استعمال سے نفرت ٗ بد امنی پیدا ہو رہی ۔ کیونکہ آزادی اظہار یا آزادی رائے کے بھی کچھ آداب ہیں۔ کچھ تقاضے ہیں۔ اگر آپ کسی کو اپنا ہم نوا بنانا چاہتے ہیں تو اسے گالیاں دے کر اس کی شخصیت کی کمزوریاں بیان کر کے اور اسے نیچا دکھا کر کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دوسرے تک اپنی بات پہنچانے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ ہر معاشرے میں اس کے کچھ اصول و ضوابط طے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں گالیوں سے لطف اندوز ہونا اور دوسروں کو لطف اندوز کرنا ہی سب سے بڑا اصول رہ گیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو رکھ رکھاؤ تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ باپ بیٹا بہن بھائی کے درمیان جو ایک جائز حد تھی وہ ختم ہو گئی ہے، ہر کوئی خود کو عظیم اور ارفع ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے، مگر اس حق کے ساتھ ساتھ کچھ ذمہ داری بھی ہے۔ جب ہماری لکھی ہوئی گالی اور گندی زبان دوسرا پڑھتا ہے تو اس سے ہماری شخصیت اس پر عیاں ہو جاتی ہے۔ اگر ہم خود کو اچھا کہلوانا چاہتے ہیں تو ہمیں دوسروں کی اچھائی کا مان بھی رکھنا ہوگا۔ اگر ہم اپنی عزت چاہتے ہیں تو ہمیں دوسرے کی عزت کرنا ہوگی کہ نئی نسل ان سے ہوشیار اور محتاط رہیں اور اپنی مکمل توجہ تعلیم پر دیں۔ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس کی مدد سے ہم تمام انتہاپسندانہ نظریات کو شکست دیکر ایک ترقی یافتہ ملک کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 192 Articles with 170419 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.