ماہ ربیع الاول کا پیغام

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا "اور ﴿اے محمدﷺ ﴾ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت﴿بناکر﴾ بھیجا" ﴿انبیائ ۷۰۱﴾ ۔ "اے پیغمبر﴿ﷺ ﴾ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ اور اللہ کی طرف بلانے والا اور چراغِ روشن" ﴿احزاب۵۴-۶۴﴾۔"اور آپ کا ذکر بلند کیا" ﴿انشراح ۴﴾۔"اور اخلاق آپ کے بہت عالی ہیں" ﴿قلم۴﴾۔

ماہِ ربیع الاول اپنے اندر ایک عظیم المرتبہ ماضی اور اس کی بیش بہا برکات سمیٹے آپہنچا ہے۔ دل نے چاہا کہ ایسے موقع پر اس مبارک موضوع سے بہتر اور کوئی موضوع نہیں، کہ میں اُس عظیم واقعہ کا تذکرہ کروں جس کے نتیجے میں دنیا کا سارا نظام انقلابی طور پر تبدیل ہوگیا۔سارا عالم جہالت کے اندھیروں کی جگہ علم کے نور سے منور ہوگیا ۔ باطل معبود زمیں بوس ہوگئے اور توحید کا پرچم بُلند ہوگیا۔ بدعات کی نحوستوں کو سنتوں کی برکات نے مٹا دیا۔ شیطان کے قانون کی جگہ اللہ کا قانون نافذ ہوگیا۔ سابقہ تمام ادیا ن جو تحریفات کے باعث اپنی حقیقت کھو چکے تھے، مسنوخ کردیے گئے اور ہر سُو اسلام کا ڈنکا بج گیا۔ دشمنیاں دوستیوں میں بدل گئیں، عداوتیں محبتوں میں تبدیل ہو گئیں، غیر اخلاقانہ زندگی گزارنے والے خوش اخلاقی کا مجسمہ بن گئے۔پھر یہ جاں نثارانِ اسلام ان تعلیمات کو لے کر اُٹھے اور پورے عالَم پر چھا گئے۔وہ عظیم واقعہ ہادیِ عالم، حضورِاکرم، صاحبِ خلقِ عظیم، نبی کریم ، سرکارِ دو عالم محمد الرسول اللہ ﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری کا ہے۔

میں نے بہت سے خطیبوں کو آپ ﷺ کی ذات والا صفات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سُنا، آپﷺ کی حمد و تحسین بیان کرتے ہوئے سُنا، آپﷺ کے حسن و جمال کا ولولہ انگیز تذکرہ سُنا، بہت سے مقرر حضرات کو اس موضوع پر اپنی شعلہ بیان تقریروں سے محفلوں کو لُوٹتے ہوئے دیکھا۔ میرے دل میں بھی اس مبارک موضوع پر کچھ لکھنے کا جذبہ بیدار ہوا، چاہا کہ اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے لا متناہی سمندر سے چند قطرے میں بھی حاصل کر لوں، اس بیش بہا قیمتی خزانے سے چند موتی میں بھی چُن لوں۔ اسی لئے گزشتہ کئی روز سے میں اپنے تخیل میں وہ مضمون ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہوں جو اس مبارک موضوع پر کچھ اظہار کر سکے۔بارہا اپنے ذہن کے محدود ذخیرہ سے اُن الفاظ کو چھانٹتا رہا جو اس موضوع کو بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لیکن ہر مضمون اس کے اظہار سے قاصر نظر آیا اور نہ کوئی لفظ اس لائق نظر آیا جو اس مبارک موضوع کے شایانِ شان ہو۔ میں نے جب بھی ہمت کر کے قلم اُٹھایا تو خیالات نے دم توڑ دیا، میرے ذہن نے اپنی نالائقی پر مجھ سے معذرت کرلی، الفاظ عاجز آکر میرا ساتھ چھوڑ گئے اور قلم نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا۔آخر کار کافی کشمکش کے بعد میں نے اپنی نا اہلی کو تسلیم کر لیا اور یہ احساس ہوگیا کہ حق ادا کرنا تو بہت دور کی بات ، میں اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر کے بھی اس موضوع کے کسی ایک پہلو پر ذرا سی روشنی بھی نہیں ڈال سکتا۔میں عاجز تو کسی شمار میں بھی نہیں، حقیقت میں یہ موضوع ہی اتنا عظیم ہے کہ بڑے بڑے اہلِ علم، اہلِ قلم اور اہلِ عقل و دانش کے قلم بھی تھک کر ٹوٹ جاتے ہیں۔ بلکہ اگر ساری دنیا کے درخت قلم بن جائیں، سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور ساری مخلوق مل کر کامل صلاحیتوں کے ساتھ نبی کریم سرکار دو عالم ﷺ کی تعریف و سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ لکھنے بیٹھے تو اللہ کی قسم پھر بھی صاحبِ خلقِ عظیم ﷺ کی سیرت کے کسی ایک پہلو کو بھی قیامت تک مکمل نہیں کر سکتے۔ہادیِ عالم ﷺ کی جو تعریف خالق نے قرآنِ پاک میں بیان فرما دی، بس اب اس کے بعد مخلوق کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس کا حق ادا کر سکے۔

رسالت مآب جناب رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی رسول اللہ ﷺ سے والہانہ محبت اور جاں نثاری کے بہت سے واقعات اس وقت میرے ذہن گردش کررہے ہیںجن سے رسول اللہ ﷺ سے عشق کرنے والوں کے دل جھومنے لگتے ہیں۔ صحابہ کرام(رض) کے حضور ﷺ سے عشق کی مثال ملنا اب ناممکن ہے کیونکہ آفتابِ نبوت کی شعائیں براہِ راست ان کے سینوں پر پڑی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ محبت اور اتباع میں صحابہ کرام (رض) کی زندگیاں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ اسی روشنی میں اب اگر ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو واقعی حضور ﷺ سے محبت رکھنے والے اور آپ ﷺ کی اتباع کرنے والے ہیں۔ اُن کی زندگیاں آپﷺ کی سنتوں کے نور سے منور نظر آتی ہیں۔ اس ماہِ ربیع الاول میں اُن کا یہ جذبہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں ہماری زندگی کا کوئی پہلو رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے خالی یا آپ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف تو نہیں۔یہ لوگ واقعی ہی خوشیاں منانے اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی نظر آتے ہیں جن کی زبانوں پر رسول اللہ ﷺ کی محبت کے بلند بانگ نعرے اور ترانے تو ضرور ہیں لیکن اُن کی زندگیوں میں آپﷺ کی محبت اور اتباع کی جھلک نظر نہیں آتی۔سڑکوں پر نکلنے والے جلوسوں کا ہجوم، روشنیوں کا سیلاب، لہلہاتے ہوئے پرچم ، جھنڈیاں اور بینرز، یہ مناظر دیکھنے میں تو اچھے اور پُر کشش نظر آتے ہیں لیکن جب ایک نظر تاریخِ اسلامی اور حضور ﷺ کے جاں نثاروں کے اندازِ محبت پر ڈالی جائے تو ان رسومات کے لئے بے اختیار زبان پر یہ مصرعہ آتا ہے: "دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے"۔ اور ہم میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لئے ماہِ ربیع الاول کی اہمیت صرف اتنی رہ گئی ہے کہ اُنہیں ایک چھٹی زائد مل جاتی ہے۔اس چھٹی کی خوشی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ گھروں میں ٹی وی یا کھیل کو د میں مصروف نظر آتے ہیں۔ویسے تو ٹی وی دیکھنا روز کا معمول ہے بلکہ زندگی کا لازمی حصہ ہے لیکن چھٹی کے دن کوئی اچھی سی فلم ﴿حیرت ہے کہ اس گناہوں اور فتنوں کے مجموعہ کو بھی اب اچھا کہا جانے لگا﴾ دیکھنے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔ کچھ لوگ اس چھٹی کو زیادہ لطف اندوز بنانا چاہتے ہیں تو اُن کے گروہ کسی تفریحی مقام کا رُخ کرتے ہیں۔ نوجوانانِ اسلام سے بھری ہوئی گاڑیاں بے ہودہ گانوں سے گونج رہی ہوتی ہیں، اور ان گانوں کی تال پر مست ہو کر ہمارے نوجوان تالیاں بجارہے ہوتے ہیں، ناچ رہے ہوتے ہیں۔ مسلمان بیٹیاں، مائیں، بہنیں، بیویاں بھی اسلام کی تعلیمات اور احکام کو یکسر فراموش کر کے، اسلام نے عورت کو جو بلند عزت و مرتبہ عطا کیا اُسے مٹی میں ملا کر، غیرت کا جنازہ نکال کر اور شرم وحیا کی تمام حدود عبور کر کے، بے حیائی اور بے دینی کے اس میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ مقابلے کے لئے آجاتی ہیں۔فحاشی کا بازار گرم ہے اور اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لئے کوشاں ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ان مخلوط محفلوں میں جس قسم کی گفتگو اور حرکات کی جاتی ہیں اُن کو دیکھ کر ایک شریف آدمی کا سر تو شرم سے جھک جاتا ہے البتہ مغربی تہذیب کے ڈسے ہوئے لوگ اسے وسعت نظری اور وقت کے تقاضوں کا نام دے کر اس پرخوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں۔عورت جسے اسلام نے اتنا بلند مقام عطا کیا کہ پہلے کسی مذہب نے نہ دیا تھا، آج وہی عورت قیامت کا نقشہ اور عبرت کا نمونہ بنی ہوئی ہے۔ان میں سے بعض تو خوداس نام نہاد روشن خیالی کے مدعی ہیں اور بعض نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس ماحول سے سمجھوتہ کر لیا،لیکن اسلام نے عورت کی عزت کی حفاظت کے لئے پردے کا جو محفوظ حصار اُن کے گرد باندھا تھا اس میں رہنا قید اور بوجھ تصور کیا۔ اگر کبھی ان کا ضمیر اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ یہ بے پردگی اسلامی تعلیمات کے خلاف تو ہے ہی لیکن آجکل کے پُر فتن ماحول میں عقل بھی اس کی اجازت نہیں دیتی، تو اسے یہ کہہ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے"ماحول تو انسان خود بناتا ہے، انسان کو خود ٹھیک ہونا چاہیے، ماحول سے کیا ہوتا ہے" ۔ اور شرم و حیا کو خود اعتمادی کی تھپکیاں دے کر سلا دیا جاتا ہے۔کاش ہم سمجھیں کہ یہ خیال نفس و شیطان کے مکرو فریب کے سوا کچھ نہیں، اگر ایسا ہی ہوتا تو اس قسم کے شرمناک واقعات کیوں پیش آرہے ہوتے جو آئے دن سننے میں آتے رہتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ کہ یہ سب کچھ نہ صرف جائز بلکہ اس قسم کے خاص مواقع پر اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔

آج مسلم نوجوانوں کو رقص و سرور کی محفلیں سجاتے، نشے میں مدہوش، موسیقی کے سر ُتال پر جھومتے گاتے، لڑکیوں پر آوازیں کستے، حضور نبی کریم ﷺ کی سنتوں پر عمل تو بہت دور کی بات بلکہ ان مبارک سنتوں کا مذاق اُڑاتے، اور لڑکیوں کو اُن کے قدم سے قدم ملاتے دیکھ کر ایک سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ آج وہ مسلمان اس قدر ذلت اور پستی کا شکار کیوں ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر فتح و نصرت کے وعدے فرمائے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم وہ رہے ہی نہیں جن کی مدد کو آسمانوں سے فرشتے اُترتے تھے اور اللہ تعالیٰ اپنی رضا مندی اور خوشی کے اظہار کے لئے قرآنِ پاک کی آیات نازل فرماتے تھے۔

میں جانتا ہوں کہ یہ تو خوشی کا موقع ہے اور بہت سے لوگ اس کا جشن منا رہے ہیں لیکن اس اُمتِ مسلمہ کی حالت دیکھ کر آنکھوں میں آنسو ہیں، دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے، میرا ضمیر مجھے جھنجوڑ کر ملامت کررہا ہے، عقل میری حماقتوں پر ہنس رہی ہے، گناہوں کے بوجھ سے میری گردن جھکی جارہی ہے۔اکثر اوقات تو ہم اپنی سیاہ کاریوں کو مجبوریوں ، اور وقت کے تقاضوں کے پردوں میں چھپا کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ لیکن جب کبھی دل کے کسی کونے میں چھپی ہوئی غیرتِ ایمانی کروٹ لیتی ہے اور ایمان کی روشنی کی جھلک آنکھوں سے جہالت کی سیاہی کو دور کرتی ہے تو اپنی زندگی سے شرم آنے لگتی ہے، زمین جگہ نہیں دیتی کہ اُس میں دھنس کر اس شرمندگی سے بچ جائیں۔ پھر بھی شاید ایسا ہو کہ کم ہمتی کے باعث نفس و شیطان اس غیرتِ ایمانی پر غالب آجائیں اور ہماری سر کشی ہمیں پھر ساری حدیں پار کرنے پر مجبور کردے۔ لیکن ایک بات سوچ کر روح کانپ جاتی ہے کہ کل کو حشر کے میدان میں کہاں چھپیں گے اور کیا مُنہ لے کر حضور ﷺ سے شفاعت کی درخواست کریں گے، وہاں تو پلٹنے کا کوئی راستہ بھی نہیں لیکن آج ایک راستہ ہے! وہ ہے توبہ کا راستہ۔ آنکھ سے نکلا ہوا ندامت کا ایک آنسو پچھلے سارے گناہوں کو پل بھر میں دھو دے گا۔

یہ سچ ہے کہ ماہِ ربیع الاول جو عظیم اعزاز اور سعادت حاصل کر چکا ہے اُس پر وہ ہمیشہ فخر کرتا رہے گا ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ آج مسلمانوں کی حالت دیکھ کر افسردہ اور بے چین آنسو بھی بہا رہا ہے۔ اور ہمیں پکار پکار کر ہم سے مطالبہ کر رہا ہے کہ تم میرے تقدس کو کیوں پامال کر رہے ہو اور میری حقیقت کو کیوں فراموش کر چکے ہو۔ ہماری یہ حالتِ زار اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ ہم سے راضی نہیں۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس سے پہلے کہ آخرت کی شرمندگی اُٹھانی پڑے ، اللہ اور اُسکے رسول ﷺ کو راضی کر لو، اور اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ، اللہ اور رسول ﷺ کی محبت اور اتباع۔ انشا اللہ پھر سے خصوصی رحمتیں نازل ہونے لگیں گی۔ نبی کریم ﷺ کی سنتوں کو اپنا لو ،پھر سے وہی برکات حاصل ہوجائیں گی۔ آپﷺ کے طور طریقے اپنی زندگیوں میں لے آؤ،پھر سے مسلمان ذلّت کی اس اندھیری رات میں عزت و غلبہ کا چاند بن کر چمکیں گے۔یہیں امیدیں میرے آنسوئوں کو پونچھ دیتی ہیں، میرے دل کے ٹکڑوں کو جوڑ دیتی ہیں۔ دل میں امید کی یہ کرن اور آنکھوں میں خوشی کی چمک اس بات پر فخر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رحمت العالمین ﷺ کا امتی بنایا اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سرمائے کی صحیح معنوں میں قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ﴿آمین﴾
شرط توحید ِکامل کی یہی ہے
عشق ہو آپ(ص) کا قلب و جاںمیں
کوئی سمجھے گا کیا،ہے غیر ممکن
آپ(ص) کا مرتبہ دونوں جہاں میں
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210695 views A Simple Person, Nothing Special.. View More