کسی بھی شخص۔ جگہ یا چیز کا نام ہی اس کی پہچان ہوتا ہے
یہی وجہ ہے کہ آپ کو کوئی بھی چیز جگہ یا شخص ایسا نہ ملے گا جس کا نام نہ
ہو کیونکہ نام ہی سے مقام ملتا ہے اور نام ہی سے پہچان ہوتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ نام رکھنے اور نام پڑ جانے میں بڑی دلچسپ طرح طرح کی
باتیں اور کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں ایسے ہی ’’شیخوپورہ‘‘ کے نام کے متعلق
بھی بڑی عجیب و غریب اور دلچسپ تاریخ پڑھنے کو ملتی ہے کہا جاتا ہے کہ جب
برصغیر پاک و ہند میں مغل بادشاہوں کا عروج تھا تو ان کی عظمت کے تذکرے بہت
دور دور تک پھیل چکے تھے۔ آس پاس کے ملکوں میں بھی مغل بادشاہوں کے تذکرے
ہوتے تھے بعض لوگ بادشاہوں سے انعام پانے کے لیے دوسروں ملکوں سے سفر کر کے
دہلی آتے تھے۔ اور بادشاہ بھی لوگوں کو خوب نوازتے تھے۔
جب مغلوں کے خزانوں کے منہ کھلے ہوئے تھے تو ان کی ادب پرستی نے اہل علم کو
دعوت عام دی، ایران، تہران اور دیگر ممالک کے شعراء اور عالم مغلیہ دربار
کی طرف کھنچے چلے آئے۔ قدرشناس مغلوں نے ان کے منہ زرو جواہر سے بھر دیئے
لینے والوں کو تنگی داماں کا شکوہ پیدا ہو گیا مگر دینے والوں کی نگاہیں
ادبی شخصیتوں کی متلاشی رہیں۔ دوسری طرف ان کے فن تعمیر کے ذوق نے ہندوستان
کے گوشہ گوشہ پر حسین عمارات کو جنم دیا کہیں تاج محل آگرہ کے روپ میں جلوہ
نما ہو اور کہیں مقبرہ جہانگیر کی شکل میں راوی کے کنارے شاہدرہ ہیں۔
برصغیر میں مغلوں کی عظمت کے لازوال نشان بکھرے پڑے ہیں۔ شاہی مسجد اور لال
قلعہ دہلی جیسی عالیشان اور حسین عمارات بنوائیں کہ آج بھی ان میں فن
کاعروج کشش، جاذبیت بدستور ہے سیاح آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ان عمارات
کو دیکھ کر ان کی عظمت کے سامنے محو حیرت رہ جاتے ہیں کہ اس وقت جب موجودہ
دور کی صنعتی سہولتیں نایاب تھیں۔ نقل وحمل کے مشینی ذرائع نہیں تھے۔ مغل
دور کے انجینئروں نے ان زندہ اور لافانی عمارات کو کیسے جنم دیا جن کے فن
کی عظمت ہر اینٹ اور پتھر سے عیاں ہے۔ شاہ جہان مغل بادشاہوں میں معمار
بادشاہ کے نام سے مشہور ہے لیکن جہانگیر نے بھی اپنے دور حکومت میں دل کھول
کر تعمیر و ترقی کی طرف توجہ دی۔ قلعہ شیخوپورہ تالاب ، بارہ دری اور ہرن
مینار اسی عدل پرور شہنشاہ کی تعمیر کردہ یاد گاریں ہیں۔
نور الدین محمد جہانگیر شہنشاہ اکبر کا سب سے بڑا لڑکا تھا 1568ء تک اکبر
کا کوئی فرزند زندہ نہیں بچا تھا جو اس کی وسیع و عریض اور عظیم الشان
سلطنت کا وارث ہوتا چنانچہ اس نے اپنے وارث کے لیے بڑی دعاوں اور مناجات کے
بعد خدائے بزرگ وبرتر کے حضور گڑ گڑا کردعائیں مانگیں۔ بالآخر 30اگست1569ء
فتح پوری سیکری کے مقام پر شیخ سلیم چشتی کے تکیہ میں جے پور کی راجکماری
جودھہ بائی عرف مریم زمانی کے بطن سے فرزند پیدا ہوا جس کا نام شیخ سلیم
چشتی کے نام پر محمد سلطان سلیم رکھا گیا۔
شیخوپورہ کا نام اسی بادشاہ کی بدولت تاریخ کے اوراق میں جگمگارہاہے۔
جہانگیر نے شہزادگی کے زمانے میں ’’ساہوملی ‘‘ساہو کی ملیان کے قریب
شیخوپورہ گاؤں اپنے نام پر آباد کیا۔ شیخو پورہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ
جہانگیر کو شیخ سلیم چشتی کی مناسبت سے بچپن میں شیخو کہتے تھے۔ چنانچہ
جہانگیر کے حکم سے ’’ساہو کی ملی‘‘ کے گردونواح کو شکار گاہ مقرر کر دیاگیا۔
اکبر کی وفات کے بعد جب جہانگیر بادشاہ بنا تو اس علاقہ کو علیحدہ جاگیر
قرار دے کر ’’جہانگیر آباد‘‘ نام رکھا گیااور اس کے اردگرد کے ضلعوں سے بھی
دیہات اس میں شامل کر کے سکندر قراوں کی تحویل میں دے دیا گیا اور اور ساتھ
ہی بادشاہ سلامت نے اسے حکم صادر کیا کہ یہاں پر عظیم الشان عمارات، تالاب
اور بلند منارہ کی بنیاد رکھے۔ سکندر معین کی وفات کے بعد یہ جاگیردار
ارادت خان کی تحویل میں آئی۔ اور اس کا عہدہ ’’سربراہ عمارات‘‘ قرار پایا۔
جس کے عہد میں یہ عمارت تکمیل تک پہنچی، جس پر ایک لاکھ پچاس ہزار روپے خرچ
ہوئے۔
باد شاہ جہانگیر اپنی خود نوشت ڈائری ’’تو زک جہانگیری ‘‘میں لکھتا ہے۔ ذی
الحج منگل کے دن جہانگیر پورہ میں پڑاؤ ڈالا۔ جو شکار کھیلنے کے لیے میرا
پسندیدہ مقام ہے۔ اس ’’جگہ منسراج‘‘ میرے ایک ہرن کی قبر اور منارہ ہے۔ جو
میرے حکم سے تعمیر کیا گیا۔ یہ ہرن سدھائے ہوئے ہر نوں کی لڑائی، اور
صحرائی ہرنوں کے شکار میں مدد دینے میں بے مثال تھا۔ اس مینارہ پر ملا محمد
حسین کشمیری جو اس عہد کے خوش نویسوں میں یکتا تھانے ایک پتھر پر یہ کتبہ
تحریر کیا۔ جس کا مضمون یہ تھا۔
اس دلکش فضا میں نور الدین جہانگیر بادشاہ کے دام میں ایک ہرن آیا اور ایک
ماہ سے بھی کم عرصہ میں رام ہو کر ایسا سدھراکہ تمام شاہی ہر نوں کا سردار
بن گیا اس ہرن کی عجوبہ کاری اور عمدگی کی بنا پر بادشاہ سلامت نے یہ حکم
دیا کہ کوئی آدمی اس صحرا میں ہر نوں کے شکار کا قصدنہ کرے اور ان کا گوشت
ہندوؤں پر گائے اور مسلمانوں پر سؤر کے گوشت کے برابر ہو گا۔ منسراج ہرن کی
قبر آہو شکل تعمیری کرائی۔ اب نہ تو وہاں منسراج کی آہو شکل قبر اور نہ ہی
وہ کتبہ موجود ہے۔ البتہ قیاس یہی ہے کہ یہ پتھر اس عمارت پر نصب کیا گیا
ہوگا۔ جو منارہ کے زیریں حصہ کے گرد بنائی گئی۔ معلوم ہوتی ہے ۔جیسا کہ
آثار ظاہر کرتے ہیں۔ (از تاریخ شیخوپور ہ کی کہانیاں ازعبدالوارث ساجد
)۔ |