تیمر کے جنگلات

تحریر:عظمیٰ ظفر
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے
جنگلات کسی بھی ملک کی ماحولیاتی زندگی میں آکسیجن کا کام کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں آکسیجن دیتے ہیں نہ صرف یہ ہمیں صاف ستھری ہوا فراہم کرتے ہیں بلکہ زہریلی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور ماحول کی کثافت کو پاک کرتے ہیں۔ درختوں اور پودوں کے بارے میں جاننا نباتاتی تعلیم جسے حرف عام میں بوٹنی کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں پائے جانے درخت اور پودے چاروں موسم کے لحاظ سے موجود اور موزوں ہیں خواہ وہ اناج ہوں یا جڑی بوٹیاں، جھاڑیاں ہوں یا پھول دار اور پھل دار پودے الغرض ہر طرح کی نسلیں پائی جاتی ہیں۔درخت زمین کو مضبوطی فراہم کرتے ہیں ان کی جڑیں زمین کے اندر ہی اندر پھیل کر ایک جال کی طرح زمین کو جکڑے رہتی ہیں اور زمین لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب،کٹاو سے بچی رہتی ہے موسم خوشگوار رہتا ہے بارشیں برستی ہیں۔پرندوں اور جانوروں کی آماجگاہ ہوتے ہیں درخت دھوپ میں سایہ دیتے ہیں کبھی ساون میں جھولے ڈالتے ہیں تو کبھی چولہے کا ایندھن بنتے ہیں۔ عمارتی لکڑیاں الگ قیمتی خزانہ ہیں پودوں سے ادویات بنائی جاتی ہیں دوسری طرف جانوروں کے چارے میں کام آتی ہیں ان سے ہم بے شمار کام لیتے ہیں۔
میں یہاں آپ سب کی توجہ انتہائی اہم آبی پودے تیمر (مینگروز) کی جانب دلانا چاہتی ہوں جو قدرت کی طرف سے ایک بیش بہا قیمتی دولت ہے جسے بے دردی سے ختم کیا جارہا ہے۔دنیا بھر میں تیمر کے جنگلات بہت کم تعداد میں ہیں جن میں پاکستان میں انڈس ڈیلٹا پر پھیلا یہ خزانہ چھٹے نمبر پر آتا ہے۔ چھوٹے پتوں پر مشتمل اس پودے کی جڑیں پانی میں ڈوبی ہوتی ہیں اور کئی فٹ نیچے تک جاتی ہیں۔

تیمر ایک طرح سے رکاوٹ کا کام سر انجام دیتے ہیں جو سمندری پانی کو میٹھے پانی میں ملنے سے روکتی ہے پاکستان میں یہ نعمت خداوندی ہے جب کہ دوسرے ممالک میں کروڑوں روپے خرچ کر کے یہ رکاوٹ بناتے ہیں۔دریائے سندھ تیمر کے گھنے جنگلات سے بھرا پڑا ہے جب کہ بلوچستان میں ان کی تعداد قدرے کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انڈس ڈیلٹا میں یہ جنگلات 16000 ایکڑ پر پھیلے ہوئے ہیں جب کہ بلوچستان میں7500 ایکڑ پر، میانی میں3000 ایکڑ، کالماٹ میں 2500 ایکڑ، جیوانی ساحل پر 200 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔

تیمر(مینگروز) کی 56 اسپیشیز ہیں جو 16 جینرا اور11فیملی پر مشتمل ہے۔ زیاد تر فیملیز انڈو پیسیفک ایریا سے تعلق رکھتی ہیں جب کہ پاکستان میں اس کی 4 فیملیز پائی جاتی ہیں۔ (1982 کی رپورٹ میں پروفیسر سیف اﷲ کے مطابق)۔ تیمر کا سائنسی نام ایویسینا مرینا ہے، جو سات سے آٹھ سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔ تیمر اس کا مقامی نام ہے جب کہ اسے سفید مینگروز چھال کی وجہ سے یا شہد والا مینگروز پھولوں کی خوشبو کی وجہ سے بھی کہا جاتا ہے۔

یہ جنگلات چھوٹی مچھلیوں جیسے فن فش، شرمپس، شیل فش نایاب قسم کے جھینگوں کی آماجگاہ ہے جو انھیں تحفظ فراہم کرتے ہیں اس کے پھولوں اور پتوں سے مختلف طرح کی ادویات بنائی جاتی ہیں۔ پتے جانوروں کے چارے کے طور پر کام آتے ہیں دودھ دینے والے جانوروں کی بہترین غذا ہے۔ اس کی لکڑیاں جلانے کے کام آتی ہیں علاوہ ازیں اس کی چھال رنگنے کے کام آتی ہے۔

ساحل سمندر پر زمین کے کٹاؤ اور مٹی کے بہاؤ کو روکتی ہیں دراڑیں پڑنے سے بچاتی ہیں ایک طرف یہ ہمیں بے شمار فائدے پہنچا رہے ہیں تو دوسری طرف یہ جنگلات خطرے کابھی شکار ہیں۔ جیسے لکڑیوں کو بلا ضرورت کاٹا جارہا ہے صنعتوں اور فیکٹریوں کا گندا آلودہ کیمیائی پانی شامل ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف پودے بلکہ آبی مخلوق کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ لوگوں کی لا علمی کی وجہ سے اس کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ مقامی لوگ اس کا بے جا استعمال کرتے ہیں لہذا لوگوں کو ایسے نایاب درختوں کی قدر کرنی چاہیے۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.