ڈاکٹر ذکااﷲ گھمن
سمبڑیال کا چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے جس کی روشنی اﷲ نے چاہا تو
پورے ملک کو منور کرے گی
تحریر :محمد اسلم لودھی
کبھی کبھی فرشتے بھی انسان کے روپ میں آجاتے ہیں ۔اسی طرح انسان بھی فرشتوں
کا روپ سکتا ہے ۔ اس لمحے میں جس انسان کی بات کررہا ہوں وہ بظاہر تو ایک
سینئر فزیشن اورمعالج ہے لیکن قدرت نے ان کو بے پناہ صلاحیتوں سے کچھ اس
طرح نوازا ہے کہ اب وہ ایک فرشتے کا روپ دھار کر دکھی انسانیت کی بے لوث
خدمت کررہے ہیں ۔یہاں میری مراد ڈاکٹر ذکااﷲ گھمن سے ہے ‘ میرا ان سے تعارف
34سال پہلے اس وقت ہوا تھا جب 1984ء میں ‘ میں مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور
میں شفٹ ہوا تھا ۔
ایک شام میری اہلیہ( عابدہ بیگم) کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ۔مجھے سمجھ
نہیں آرہی تھی کہ میں کس ڈاکٹر کے پاس علاج کی غرض سے جاؤں اور کون کونسا
ڈاکٹر حقیقی معنوں میں مستند معالج بھی ہے ۔ مکہ کالونی کی جامع مسجد کی
دکانوں میں ان دنوں ڈاکٹر نعیم کاکلینک تھا ‘ میں بیگم کو لے کر وہاں پہنچ
گیا ۔دو تین دن دوائی لینے کے باوجود جب بیگم کی حالت نہ سدھری تو ایک شخص
نے بتایا کہ آپ ڈاکٹر ذکااﷲ گھمن کے پاس چلے جائیں ‘اﷲ نے چاہاتو آپ کی
بیگم ٹھیک ہوجائے گی۔یہ بات میرے دل کولگی اور میں بیگم کو ای بلاک کی گلی
نمبر3جا پہنچا جہاں ان دنوں ان کا کلینک تھا ۔کلینک مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔
باری آنے پر ڈاکٹر صاحب نے بیگم کو چیک کیا اور دوائی دے دی‘حیرت کی بات یہ
ہے کہ پہلی ہی خوراک سے افاقہ محسوس ہوا ۔ بیگم کو یقین ہوگیا کہ ہم جس
ڈاکٹر کے پاس پہنچے تھے وہ حقیقت میں ایک اچھا اور مستندمعالج ہے ۔ یہ ان
سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔
اس کے بعد مجھے ‘ بیگم اور بچوں کو جب بھی کسی بیماری نے گھیرا تو آنکھیں
بند کرکے میں سکینہ کلینک جاپہنچے ۔ چار سال پہلے ہم مکہ کالونی چھوڑ کر
والٹن روڈ کی قادری کالونی میں شفٹ ہوچکے ہیں ‘ اس کے باوجود ہمیں اپنے گھر
سے سکینہ کلینک آنے ‘ اور دوائی لے کر واپس جانے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے
‘ سردیوں کے موسم یہ سفر اور بھی تکلیف دہ ہوجاتا ہے لیکن گھر کا کوئی بھی
فرد ڈاکٹر ذکاء اﷲ گھمن کے علاوہ کسی اور ڈاکٹر سے علاج کروانے کی ضرورت
محسوس نہیں کرتا ۔ گھر سے نکلنے والا ہر راستہ سکینہ کلینک کو ہی جاتاہے
۔اگر ریلوے پھاٹک بند ملے تو اور بھی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ۔یہ بھی بتاتا
چلوں کہ جہاں میں رہتا ہوں ‘ اس گھر کے چند قدموں کے فاصلے ایم بی بی ایس
ڈاکٹر چار پانچ صبح و شام کلینک پر بیٹھتے ہیں لیکن کوئی بھی ہمارا انتخاب
نہیں ٹھہرتا ۔ سکینہ کلینک ڈاکٹر صاحب کی عظیم والدہ کے نام سے منسوب ہے ۔
یہ 1998ء کی بات ہے کہ سردیوں کی ایک رات کے پچھلے پہر اچانک میرے ناک سے
پانی بہنے لگا ‘لائٹ جلا کردیکھا تو وہ خون تھا ۔ خون دیکھ کر میرے ہوش اڑ
گئے ‘ مجھے یوں محسوس ہو نے لگا میرا آخری وقت آن پہنچا ہے ۔ اس لمحے سوائے
ڈاکٹر ذکااﷲ گھمن کے کوئی نام میرے ذہن میں نہیں آیا۔وہ انتہائی ملنسار اور
بااخلاق انسان ہیں ‘ رات کے کسی بھی وقت اچانک بیماری کا شکار ہونے والے ان
کے دروازے پردستک دیتے دکھائی دیتے ہیں‘ جن دنوں وہ موجودہ کلینک کی بالائی
منزل پر رہائش پذیر تھے شاید ہی کوئی رات وہ سکون سے سوئے ہوں ۔ انہوں نے
کبھی شکوہ نہیں کیا۔یہ ان کا بڑا پن ہے ورنہ آج کے دور میں کون کسی کے لیے
اپنی نیند خراب کرتا ہے‘ یہی چند لمحات میری زندگی کے لیے بہت اہم تھے ۔
رات کا ایک بج رہا تھا ‘کلینک بند ہوچکا تھا ‘دروازہ پر دستک دی توچند ہی
لمحوں بعد ڈاکٹر صاحب میرے سامنے تھے۔جلدی سے انہوں نے کلینک کھولا اور مجھ
سے خون بہنے کی وجہ پوچھی ۔جو کچھ ہوا تھا وہ میں نے بتادیا ‘ انہوں نے
روئی کے ساتھ کوئی دوائی لگاکر ناک میں ٹھونس دی اور فوری طور پر ہسپتال
جانے کی ہدایت کردی ۔ڈاکٹر صاحب کی اس کاوش سے آبشار کی طرح بہنے والا خون
وقتی طور پررک گیا لیکن ہسپتال جاتے ہوئے میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور
بار بار یہی خیال ذہن میں اتر رہاتھا کہ شاید یہ میری زندگی کے آخری لمحات
ہیں ۔ نیشنل ہسپتال ڈیفنس میں ‘میں تین دن رہا۔ اضافی میڈیسن تو دی جاتی
رہیں لیکن ناک میں ٹھونسی ہوئی روئی اپنی جگہ موجود رہی ۔ اس کا مطلب یہ
لیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر ذکا نے صحیح وقت پر بالکل صحیح اقدام کیا تھا ۔
ڈاکٹر تو بے شمار نظر آتے ہیں اور ہر گلی کوچے میں کلینک بھی دکھائی دیتے
ہیں لیکن سمجھ دار معالج وہی قرار پاتا ہے جو بیماری کی تشخیص سیکنڈوں میں
کرکے بہترین علاج تجویز کرتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ڈاکٹر ذکا اﷲ گھمن
اپنے بہترین تجربے (جو انہیں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سروسز ہسپتال کی حیثیت
سے حاصل ہوا ) کی بنا پر اپنا منفرد اور الگ مقام بنا چکے ہیں ۔ان کے نام
سے ہر کوئی شناسا ہوچکا ہے ۔ڈاکٹر ذکا ء اﷲ گھمن شفا کا دوسرا نام بن چکا
ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں پیدا ہوئے اور کہاں کہاں تعلیم حاصل کی ‘
ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کسے دیکھ کر کیا اور کامیابی کی مشکل ترین منزلیں کیسے
عبور کیں ‘ پھر لاہور کا راستہ انہیں کس نے دکھایا اور یہاں پہنچنے سے
انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ۔بقول اسلم کولسری
شہرمیں آنے والے ‘شہر میں آکر بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا......
لاہور میں آنا اور یہاں رہ کر اپنا مقام بنا نا ایک مشکل ترین کام ہے ۔آج
وہ اپنے پورے خاندان جن میں ان کے دو بھائی اور ان کے بچے بھی شامل ہیں ایک
سائبان کا روپ دھارچکے ہیں ۔بلکہ دکھی انسانیت کی خدمت کے حوالے سے وہ ایک
قد آور نام بن چکے ہیں ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ان کاآبائی گاؤں دادو والی ‘
ڈاکخانہ سمبڑیال ‘ تحصیل ڈسکہ اور ضلع سیالکوٹ ہے ‘جہاں وہ ہر عید کے دنوں
میں ضرور جاتے ہیں ‘جس مٹی نے انہیں پروان چڑھایا‘ جہاں وہ کھیلے کودے ‘ وہ
اس مٹی کو کیسے بھول سکتے ہیں ۔جیسے ہی وہ لاہور کی حدود سے باہر نکلتے ہیں
‘مجھے ‘میری بیگم یا کسی بھی بچے کو کوئی نہ کوئی بیماری آن گھیرتی ہے ۔ ہم
ان کے کلینک پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا کہ وہ تو اپنے گاؤں(دادووالی ) چلے گئے
ہیں ۔وہ مٹی جس میں ان کے عظیم والد ابدی نیند سو رہے ہیں جس میں ان کے
خاندان کے بڑے بزرگ بھی محو آرام ہیں ‘ اس مٹی کو فراموش کرنا بھی نہیں
چاہیئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی کے باعث عید کے تین دن
ہمارے لیے بہت کٹھن بن جاتے ہیں ۔ایک بار عید کی چھٹیوں میں مجھے پیشاب بہت
زیادہ آنے لگا ‘ مجھے ہسپتال جانا پڑا پھر جتنا علاج کیا ‘مرض اتنا ہی خراب
ہوتا چلا گیا۔ بالاخر پروسٹیٹ اتنا بڑھ گیا کہ پیشاب میں رکاوٹ پیدا ہوگئی
۔چار مہینے بعد مجھے پروسٹیٹ کا تکلیف دہ آپریشن کروانا پڑا ۔میرایقین ہے
اگر اس دن ڈاکٹر ذکا اپنے کلینک پر موجود ہوتے تو میں تکلیف دہ آپریشن سے
بچ سکتا تھا ۔جو حالت ان کے بغیر میرے خاندان کی ہے وہی حالت علاقے کے
افرادکی ہے جو عید کی چھٹیوں میں ان کے بغیر پریشان ہو جاتے ہیں۔
اس بات پر فخر ہے کہ وہ مجھے عزت بھی دیتے ہیں اور دوائی بھی ۔ ایک مرتبہ
آنکھوں سے حد سے زیادہ پانی بہنے لگا باربار صاف کرنے سے آنکھوں میں سوجن
ہونے لگی۔لاہور کے کتنے ہی آئی سپشلسٹ کو چیک کروا کر دوائی کھائی ۔مرض
بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بالاخر میں نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ مجھے
کوئی ایسے ڈراپس لکھ دیں جس سے افاقہ ہوجائے۔ انہوں نے ایک آئی ڈراپس لکھے
اور میں پچاس فیصد بہتر ہوگیا ۔ پھر گھنٹوں میں درد کی بیمار ی نے مجھے بے
حال کردیا ۔ آرتھوپیڈک ڈاکٹر کو چیک کروایا تو اس نے سات آٹھ گولیاں لکھ
ڈالیں جسے کھانے سے میرے دل میں درد ہونے لگا ۔میں نے آرتھوپیڈک ڈاکٹر کی
دوا بند کیں اور ڈاکٹر ذکا کے پاس پہنچ گیا انہوں نے مجھے صرف ایک گولی لکھ
دی جو میں اب بھی کھاتا ہوں اور چل پھر بھی رہا ہوں ۔ایک مرتبہ میرے نواسے
حاشر نے گھر میں پڑی ہوئی ایلفی نکال کر اپنی آنکھ میں لگا لی ۔آنکھ جب چپک
گئی تو وہ چیخ و پکار کرنے لگا ۔ہم سب پریشان ہوگئے اب کیا کریں ۔میں نواسے
کو ساتھ لے کر ڈاکٹر ذکا کے پاس پہنچاتو اﷲ تعالی دنیا اور آخرت میں انہیں
بے شمار اجر دے ۔انہوں نے کہا ایلفی لگنے سے آنکھ کی پتلی کاٹنی پڑسکتی ہے
لیکن میں کوشش کرتا ہوں ۔کافی محنت کے بعد آنکھ کھل ہی گئی جس پر میں اور
میرا سارا خاندان ان کا بے حد مشکور ہے ۔
صبر ‘ تحمل ‘ برداشت ‘ بردباری ‘ بہترین ذہانت اور بروقت موثر تشخیص ان کی
شخصیت کے اہم پہلو ہیں ۔مریض کی بات سنتے ہی وہ بیماری کی تہہ تک پہنچ کر
دوائی تشخیص کرنے لگتے ہیں ۔اب تو ماشا ء اﷲ انکے تین بیٹے(ڈاکٹر عبدالکامل
‘ ڈاکٹر عبدالواسع‘ ڈاکٹر عبدالحنان )ایم بی بی ایس کاامتحان پاس کرکے
ڈاکٹر بن چکے ہیں ان میں سے ایک تو سرجن بن کر آپریشن بھی کرتا ہے ۔ان کے
بھائی عطاء اﷲ نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب کا ایک بیٹا انجینئر بھی بن چکا ہے
جس کا نام محمد اعزاز گھمن ہے ۔ان میں ایک ڈاکٹر بیٹا تو سکینہ کلینک پر
بھی بیٹھنے لگا تھا لیکن کلینک پر آنے والے ہر مریض کی خواہش صرف ڈاکٹر
ذکاء اﷲ گھمن ہیں۔ لوگ ان کا بے حد احترام کرتے ہیں اس کا مظاہرہ اکثر اس
وقت دیکھا جاسکتا ہے جب وہ اپنی کوٹھی سے نکل کر پیدل ہی کلینک کی جانب
آرہے ہوتے ہیں ۔راستے میں چلنے والے اور اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ ان کاایسے
استقبال کرتے ہیں جیسے وہ وزیر اعظم پاکستان کے مرتبے پر فائز ہوں ۔جب ہم
لبرٹی پارک میں صبح کی سیر کے لیے جایاکرتے تھے تو ہمیں وہاں بھی یہ منظر
جابجا دیکھنے کو ملتا ۔ لوگ جھک جھک کر سلام کرتے بلکہ میں انہیں تو سلام
کرتا ہی تھا‘ ان کی والدہ جب اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ واک کے لیے لبرٹی پارک
آتیں تو میں انہیں زیادہ ادب سے سلام کرتا۔ یہ دیکھ کرمیری بیگم پوچھتیں کہ
یہ بزرگ خاتون کون ہیں ۔میں نے جواب دیا یہ وہ عظیم اور بزرگ عورت ہے جس کی
کوکھ سے ڈاکٹر ذکا نے جنم لیا ‘ جس کی آغوش میں ڈاکٹر ذکا پلابڑھا جس ماں
کا دودھ پی کر آج وہ ہم سب کے دکھ بانٹتا ہے ‘ہماری پریشانی اور تکالیف کا
ازالہ کرتا ہے ‘ یہی وہ ماں ہے جس کا وہ ایک عظیم فرزند ہے ۔ صرف میں ہی
نہیں پوری انسانیت اس عظیم ماں کو سیلوٹ کرتی ہے ۔بے شک عظیم ہیں وہ مائیں
جن کی کوکھ میں ڈاکٹر ذکا ء جیسے بیٹے پیدا ہوتے اور بڑے ہوکر ماں باپ اور
اپنے خاندان کانام روشن کرتے ہیں۔
مجھے اس وقت زیادہ خوشی ہوتی ہے جب وہ ہمیں مریض سمجھنے کی بجائے اپنے
خاندان کاحصہ تصور کرکے عزت دیتے ہیں ۔ میرے دونوں بیٹوں کی شادی میں وہ
اپنی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر تشریف لائے ‘ جب میری والدہ کاانتقال
ہوا تب بھی وہ پہلی صف میں کھڑے دکھائی دیئے ۔ اتنی محبت اور چاہت کا اظہار
کون کرتا ہے ۔ اس والہانہ صرف مجھ سے ہی نہیں علاقے تمام لوگوں کے ساتھ ان
کا رویہ نہایت ہمدردانہ ہے ۔یہی خوبیاں انہیں دیگر معالجین سے افضل اور
ممتاز کرتی ہیں ۔مجھے یاد ہے جب انہوں نے میدان سیاست میں قدم رکھا تو تمام
سیاسی جماعتوں کو شکست دے کر وہ کونسلر منتخب ہوگئے ۔اپنے دور میں بہترین
کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔اب وہ یونین کونسل کے چیئرمین ہیں‘ میں صور کی
آنکھ سے انہیں بہت جلد ممبر صوبائی اور قومی اسمبلی دیکھنے کی خواہش رکھتا
ہوں ۔اس میں شک نہیں کہ انہوں نے سیاست میں بھی شرافت اور رواداری کو پروان
چڑھایا وہ اپنے ووٹروں سے رابطہ بھی رکھتے ہیں اور مشکل کے ہر لمحے ان کی
مدد بھی کرتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان کی پرواز اسی طرح جاری رہی تو
سمبڑیال سے طلوع ہونے والے اس چاند کی روشنی پورے پاکستان کو منور کردے گی۔
ان شاء اﷲ
وہ صرف ڈاکٹر اور بہترین سیاست دان ہی نہیں ‘ اپنے علاقے میں ان کی دھوم
سرسید علی خاں جیسی ہے ۔انہوں نے علاقے میں ذکا سکول سسٹم کے نام کتنے ہی
تعلیمی ادارے قائم کیے ۔جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے ۔وہ صرف
اپنے ہی بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ علاقے کے تمام
بچوں کو بہترین شہری اور تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔کسی نے کیا خوب
کہاہے کہ پھل بھی اسی کو لگتا ہے جو جھکنا جانتا ہے ڈاکٹر ذکا ایک مثال کی
حیثیت رکھتے ہیں ۔ان کے دو بھائی( عطاء اﷲ گھمن اور عبدالرحمن گھمن )
فارمیسی پر اکثر نظر آتے ہیں جو اپنے بھائی ڈاکٹر ذکا ء کی طرح بااخلاق اور
محبت کرنے والے انسان ہیں ۔ہر لمحے چہرے پر مسکراہٹ ہی ان کی شناخت ہے ۔اگر
یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ یہ پورا خاندان دکھی انسانیت کے لیے ایک محبت
کا سرچشمہ بن چکا ہے ۔
چند دن پہلے کاایک واقعہ ضرور بیان کرنا چاہوں گا۔جو ڈاکٹر ذکائء کی مجھ سے
محبت اور عزت کا بین ثبوت ہے ۔رات سے ہی میری طبیعت خراب تھی وقت گزرنے کے
ساتھ ساتھ تکلیف بڑھتی جارہی تھی‘ حسن اتفاق سے مجھے ایک کام کے سلسلے میں
نوائے وقت اور مارگلہ نیوز کے دفتر بھی جانا تھا ‘ جیسے ہی ہم کلینک پہنچے
تو بیگم مریضوں کا ھجوم دیکھ کر گھبرا کے واپس آگئی اور مجھے کہنے لگی آپ
کو جلدی ہے اور یہاں اتنے مریض جمع ہیں۔ باری دو بجے دوپہر سے پہلے آنے کا
کوئی امکان نہیں ‘ بہتر ہے ہم شام کو آجائیں ۔ میں نے کہا ایسا ہرگز نہیں
ہوسکتا ڈاکٹر ذکا مجھے دل سے محبت کرتے ہیں وہ میری بات کو کبھی رد نہیں
کریں گے ۔میں بیگم کو بائیک کے پاس چھوڑ کر کلینک میں داخل ہوا تو ڈاکٹر
صاحب حسب معمول مریضوں میں گھرے ہوئے تھے ‘موقعہ غنیمت جان کر میں نے سلام
کیا اور بتایامجھے نوائے وقت ایک کام کے سلسلے میں جانا ہے اگر ہوسکے تو
مجھے جلد ی چیک کرلیں ۔ انتہائی تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے
پہلے میری بات سنی ‘ پھر ماتھے پر شکن ڈالے بغیر مجھے چیک کرکے دوائی لکھ
دی۔ جب میں دوائی لے کر ان کے کلینک سے باہر نکل رہاتھا تو دل سے ان کے لیے
دعا نکل رہی تھی ۔ میں ان کی تعریف کیسے نہ کرو ۔ وہ عظیم تھے ‘ عظیم ہیں
اور عظیم ہی رہیں گے ۔ دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں ۔ مجھے فخر ہے کہ
وہ مجھے اپنا دوست بلکہ اپنے گھر کا فرد سمجھتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کے ساتھ
ساتھ ان کے دونوں بھائی بھی مجھ سے والہانہ محبت کا اظہار کرتے ہیں ۔
|