قدرت کا ہاتھ

عبید کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ اس کے والد صاحب ایک مل میں محنت مزدوری کرتے تھے تاکہ وہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھرسکیں۔ عبید اپنے والدین کی سب سے پہلی اولاد تھا اور اس کے بعد اس کی تین بہنیں تھیں۔ اس کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ ہر امتحان میں امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل کرتا۔ اس کے والدین بہت مشکل سے اس کے تعلیمی اخراجات برداشت کررہے تھے۔ اور اس کو بھی اس کا احساس تھا اور اس نے کبھی بھی اپنے والدین کے پیسے ضائع نہ ہونے دئیے۔ وہ کافی حساس طبیعت کا مالک تھا اور وہ ہر کسی کے دکھ درد میں شامل ہوتا اور جہاں تک ممکن ہوپاتا وہ اس تکلیف یا پریشانی کو ختم کرنے کی کوشش کرتا اور لوگوں سے دعائیں سمیٹتا۔

جب وہ گریجوایشن کررہا تھا تو اس کے والد صاحب کی اچانک موت واقع ہوگئی جس نے اس کے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ۔ ابھی وہ اتنا میچور نہ تھا اور نہ ہی اس کے ہاتھ میں کوئی ہنر تھا کہ وہ کچھ کام کرسکے اور جس فیکٹری میں اس کا باپ کام کرتا تھا ان کی طرف سے دیا جانے والا پیسہ چند دنوں میں ہی ختم ہوگیا اور گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی۔ اس کی ماں نے گھر میں ‌سلائی کڑھائی کا کام شروع کرلیا اور ساتھ ہی محلے کے بچوں کو قرآنِ پاک کی تعلیم دینا شروع کردی۔ جس سے ان کا تھوڑا بہت گزارا ہونے لگا۔ عبید چونکہ کافی حساس طبیعت کا مالک تھا اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کرے وہ اپنی ماں کو سارا دن کوہلو کے بیل کی طرح کام کرتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اپنے طور پر ادھر ادھر کام دیکھنے کی کوشش کی لیکن تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ ریجیکٹ کردیا جاتا لیکن اس نے ہمت نہیں ‌ہاری اور تلاش جاری رکھی اس دوران اس کا گریجویشن مکمل ہوگیا اور اس کو چند ٹیوشنز بھی مل گئیں۔ لیکن وہ ان ٹیوشن سے حاصل ہونے والی آمدنی سے مطمئین نہ تھا کیونکہ اس کی ماں کو اسی طرح سے کام کرنا پڑ رہا تھا۔اس نے نوکری کی تلاش اور تیز کردی لیکن اس کو کہیں کامیابی حاصل نہیں ‌ہورہی تھی۔ کہیں سے اس کو اس کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے ریجیکٹ کردیا جاتا تو کہیں پہ کوئی ریفرنس یا سفارش نہ ہونے کی بناء‌ پہ جواب مل جاتا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری کیونکہ اسے اللہ عزوجل سے پوری پوری امید تھی کہ اس کے تنگی کے دن جلد از جلد ختم ہوجائیں گے۔

اس بھاگ دوڑ کے دوران اس کے تمام دوستوں سے رابطے ختم ہوچکے تھے ایک دن اس کی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے دوست خالد سے رابطہ کیا جائے کیونکہ اس کے والد صاحب کی کئی فیکٹریاں پورے ملک میں تھیں اور اس کے ذریعہ اس کے والد کی کسی فیکٹری میں کام لیا جائے۔ یہی سوچ کر وہ اپنے دوست کے پاس پہنچا اس کا دوست اس سے مل کر بہت خوش ہوا اور جب عبید نے اس کو اپنی پریشانی بتائی اور کہا کہ مجھے اپنے والد کی فیکٹر ی میں‌ کام دلوادو تو خالد سوچ میں پڑ گیا۔ خالد نے اسے کہا کہ میں اپنے والد سے بات کروں گا لیکن مشکل ہے کہ تمہیں یہاں کوئی کام مل پائے کیونکہ تمہیں کوئی کام کرنا تو آتا نہیں ۔ یہ سن کر خالد تھوڑا سا مایوس ہوگیا اور وہاں سے چلا گیا اور دوبارہ اس سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔

کئی سالوں بعد عبید دوبارہ خالد کی فیکٹری گیا تو خالد اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ عبید سوٹ بوٹ میں ‌ملبوس اور قیمتی گھڑی کے ساتھ سن گلاسز لگائے ہوئے کچھ سال پہلے والے عبید سے بالکل مختلف نظر آرہا تھا اور اس کے پاس بالکل نئے ماڈل کی کار تھی اور اس کے حلیے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اس کے پاس بہت پیسہ آگیا ہے۔ خالد حیرانی سے اس کو دیکھتا رہا ۔ بیٹھنے کے بعد رسمی علیک سلیک کے بعد خالد نے اس سے پوچھا کہ لگتا ہے کہ تمہارے پاس بہت زیادہ دولت آگئی ہے لگتا ہے کہیں بڑا ہاتھ مارا ہے ۔ اس کی بات سن کر عبید مسکرانے لگا اور اس کو کہا کہ میں تمہیں ایک واقعہ سناتا ہوں۔

عبید نے بتایا کہ تمہارے ہاں سے انکار کے بعد میں کچھ مایوس سا ہوگیا تھا اور میں نے کام سیکھنے کا سوچا ایک دن رات کو جب جب میں ٹیوشنز پڑھانے کے بعد اور کام سیکھنے کے بعد گھر واپس آیا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے ایک محلہ دار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور اگر ہوسکے تو تم ہسپتال میں جاکر ان کی تیمار داری کر آؤ۔ میں ان کی تیمار داری کے لئے ہسپتال کی طرف چل پڑا ۔ جب میں ہسپتا ل پہنچا تو مجھے یاد آیا کہ کمرے کا نمبر تو مجھے معلوم ہی نہیں ۔ خیر میں نے تمام کمروں میں چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب میں ایک ایک کمرے کا دروازہ کھول کے دیکھتا اور اپنا مطلوبہ مریض نہ ملنے پر دروازہ بند کردیتا۔ یونہی میں کمرے چیک کررہا تھا تو میں نے ایک کمرے میں دیکھا کہ بستر پہ ایک بزرگ لیٹے ہوئے ہیں اور ایک نرس ان کے پاس کھڑی ہوئی ہے ۔ جیسے کی نرس کی نظر مجھ پر پڑی تو اس نے مجھے ڈانٹنا شروع کردیا کہ یہ وقت ہے تمہارے آنے کا کس وقت سے ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ آؤ بیٹھو اور سنبھالو انہیں اتنا کہہ کر وہ نرس چلی گئی ۔ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا تو بزرگ نے میری طرف ہاتھ کا اشارہ کیا جس پر میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور آنکھیں بند کرلیں ۔ مجھے وہاں بیٹھے بیٹھے کافی وقت ہوگیا لیکن میں‌اسی شش و پنج میں رہا کہ اپنا ہاتھ چھڑاؤں یا ناں۔ لیکن جب میں بزرگ کی طرف دیکھتا تو مجھے ان کے چہرے پر ایک سکون سا نظر آیا تو میں نے سوچا کہ اگر میرا ہاتھ تھامنے سے یہ بیمار بزرگ پُرسکون ہے تو کوئی بات نہیں میں ساری رات وہیں اسی حالت میں بیٹھا رہا کہ میرا ہاتھ اس بزرگ کے ہاتھ میں تھا۔ صبح کے وقت جب نرس دیکھنے آئی تو اس نے بتایا کہ ان کی تو موت واقع ہوچکی ہے جس کا مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے ان کے ہاتھ چھڑایا اور باہر کو لپکا کیونکہ میں رات سے گھر سے آیا ہوا تھا۔ جب میں کمرے سے باہر نکلا تو اس نرس کے ساتھ دو تین ڈاکٹرز کو آتے ہوئے دیکھا ۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ‌آپ کی والد صاحب کی موت کا بہت افسوس ہوا بس اسی میں اللہ پاک کی مرضی تھی میں ان کی بات سن کر ان کو جواب دیا کہ یہ میرے والد صاحب نہیں‌ ہیں اور نہ ہی میرا ان سے کوئی رشتہ ہے ۔جس پر وہ ڈاکٹر اور دوسرے لوگ بہت حیران ہوئے کہ اگر یہ تمہارے والد یا کوئی رشتے دار نہیں تو تم ساری رات ان کے پاس کیوں بیٹھے رہے ؟میں نے بتایا کہ جب میں رات کو آیا تو مجھے نرس سے ڈانٹنا شروع کردیا اور میں‌ کنفیوژ ہوگیا اور وہاں بیٹھ گیا۔ لیکن جب بعد میں میں‌ جانے لگا تو مجھے احساس ہوا کہ اگر میری وجہ سے کسی کو سکون مل رہا ہے تو میں ان کے جاگنے کے بعد چلا جاؤں گا جس پر ڈاکٹر اور دوسرے لوگ بہت حیران ہوئے کیونکہ وہ مجھے ان کا بیٹا سمجھ رہے تھے۔ ان لوگوں نے مجھے بہت دعائیں دیں ۔ خیر میں وہاں سے آگیا۔ اس دن کے بعد سے میرے پاس دولت کی فراوانی ہوگئی اور الحمدللہ میرا شمار اس وقت ملک کے امیر ترین لوگوں میں‌ ہوتا ہے ۔ میرے پاس ایک خوبصورت گھر ہے جہاں پہ میری والدہ اور بہنیں رہ رہی ہے، دولت ہے اور ہر قسم کی سہولت اللہ پاک نے دے رکھی ہے۔ اس کی بات سن کر خالد حیران ہوگیا اور کہنے لگا کہ کیا اس بزرگ نے اپنی ساری جائیداد تمہارے نام کردی ؟ عبید ہنسنے لگا اور کہنے لگا نہیں اس بزرگ کا ہاتھ میرے لئے قدرت کا ہاتھ ثابت ہوا۔ اور ایک رات جو میں نے اس بزرگ کے پاس گزاری اس کا مجھے اللہ پاک نے صلہ دیا ۔ اب یہ حال ہے کہ اگر میں مٹی بھی ہاتھ ڈال دوں تو وہ سونا ہوجائے ، جس کاروبار میں میں ہاتھ ڈال لوں اور دیکھتے ہی دیکھتے کامیاب ہوجاتا ہے اور پیسہ میرے پیچھے پیچھے بھاگتا ہے۔

وہ ایک رات جوعبید نے اس بزرگ کے پاس گزاری اس احساس کے ساتھ کہ ہوسکتا ہے کہ اس کا ہاتھ کے پکڑے رکھنے سے ان کو سکون مل رہا ہوں وہ اصل میں قدرت کی طرف سے ایک امتحان تھا اور جس امتحان پہ وہ پورا اترا اور قدرت نے اس کو اس کا بھرپور انعام دیا۔

قدرت ہم سب کو زندگی میں ایک موقع ضرور دیتی ہے جب قدرت کا ہاتھ ہمارے ہاتھوں میں آتا ہے ہم میں سے بہت سے عبید کی طرح ہوتے ہیں جو اس قدرت کے ہاتھ کو تھامے رکھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مقدر کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں جہاں‌ پہ ان کو ہر کوئی رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو اس کو مصیبت یا بلائے جان یا کچھ اور جان کر جھٹلا دیتے ہیں اور بعد میں‌ پچھتاتے ہیں۔
Adnan Shahid
About the Author: Adnan Shahid Read More Articles by Adnan Shahid: 14 Articles with 20399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.