سورۃالانبیا میں اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں ’’اور ہم نے ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا ‘‘ پانی زندگی کی بنیاد
ہے اور دنیا کی تمام بڑی تہذیبیں پانی کے کنارے ہی پروان چڑھی ۔ بڑے شہر
دریاؤں کے کنارے ہی آباد ہوئے اور اب بھی وہی علاقے آباد ہیں جہاں پانی ہے
اور بے آب علاقے آج بھی ویران اور لق ودق پڑے ہیں۔ پانی کی یہی اہمیت ہے جس
کی وجہ سے یہ آبادی کی طرح وجہ نزاع بھی بنتا رہا اور قوموں کے درمیان
جنگوں کا باعث بھی ۔ دریاؤں کا پانی آج بھی ملکوں کے درمیان باقاعدہ
معاہدوں کے تحت تقسیم ہوتا ہے اور اکثر اوقات خوب ہوتا ہے ۔ اس تقسیم میں
کبھی کبھار تنازعا ت بھی جنم لیتے ہیں لیکن جس طرح سے برِصغیر میں یہ مسئلہ
الجھتا جا رہا ہے وہ انتہا ئی خوفناک ہے یہ خطہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی
والے خطوں میں سے ہے ۔ یوں تو ان تمام ممالک میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے
لیکن بھارت کو اپنی ایک ارب سے زیادہ کی آبادی کیلئے بے تحاشا وسائل کی
ضرورت ہے جسے وہ اپنے پڑوسی ممالک سے چھین کر اپنی آبادی کی بھوک اور پیاس
بجھانے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان ہی برِصغیر میں وہ ملک ہے جو
بھارت کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور سکت رکھتا ہے اور اسی لیے اس کے نشانے پر
رہتا ہے اور ہر محاذ پر وہ پاکستان کے خلاف نبرد آزما رہتا ہے۔ پاکستان کی
بدقسمتی کہ کشمیر کے ایک حصے پر جو پاکستان کا قدرتی حصہ ہے بھارت قابض ہے
اور پاکستان کے زیادہ تر دریا اسی کشمیر سے نکلتے ہیں جن کا پانی روکنے کی
ہر ممکن کوشش میں بھارت مصروف ہے حالانکہ ایسا بھی نہیں کہ بھارت کو ایسا
کرنے کی آزادی حاصل ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم
کا ایک معاہدہ موجود ہے اور سندھ طاس معاہدے کی رو سے سندھ، جہلم اور چناب
کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے لیکن بھارت مسلسل ان دریاؤں پر
ڈیم بنا رہا ہے اور پاکستان کے اعتراض کے باوجود نہ تو اس نے یہ تعمیر بند
کی اور نہ ہی ان کی تعداد میں کسی کمی کا روادار ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ
بھارت معاہدوں کی خاک اڑانے کا ماہر ہے ورنہ وہ اب تک کشمیر میں استصوابِ
رائے کرا چکا ہوتا اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل کر چکا ہوتا۔
دوسری طرف اس کو چین کے تبت میں دریائے Yalong Tsangpoکے پانی کو موڑنے پر
اعتراض ہے اور دریا کے بہاؤ یعنی Run of Riverپر ژانگ مو پراجیکٹ پر بھی
اعتراض ہے جبکہ مزے کی بات یہ ہے کہ بھارت اور چین میں ایسا کوئی معاہدہ
موجود ہی نہیں جس کی رو سے چین پر کوئی پابندی عائد ہوتی ہو لیکن پاکستان
کے ساتھ معاہدے کی موجودگی کے باوجود وہ دیدہ دلیری سے پاکستان کا پانی
چوری کر رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بنگلہ دیش بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں اور
وہ گنگا کا پانی بنگلہ دیش پہنچنے سے پہلے ہی روک لیتا ہے کیونکہ اسے کلکتہ
کے انتہائی بڑے اور گندے شہر کی ضروریات پوری کرنی ہوتی ہیں اور گنگا کا
پانی صنعتی اور گھریلو ضروریات کیلئے بے دردی سے استعمال کر لیا جاتا ہے
اور اس میں فضلہ اور گند پھینک کر ناقابلِ استعمال بنا دیا جاتا ہے جبکہ
اسی دریا پر اس نے 270ڈیمز بنانے کا منصوبہ بھی بنایا ہوا ہے۔
اس وقت دنیا کے کئی ممالک پانی کی کمی کا شکار ہیں اور بھارت خود بھی اس
کمی کا شکار ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ملکو ں کا پانی روکا
جائے اور پاکستان تو موسمی تغیر و تبدل کا بھی شکار ہے ویسے بھی جغرافیائی
طور پر پاکستان کا زیادہ تر علاقہ صحرائی اور نیم صحرائی ہے ہمارا پانی کا
زیادہ تر انحصار گلیشئرز کی برف پگھلنے سے دریاؤں میں آنے والے پانی پر ہے
ایسے میں جبکہ ملکی زراعت، صنعتی اور گھریلو استعمال کیلئے سارا دارومدار
انہی دریاؤں کے پانی پر ہے تو یہ کسی طرح بین الاقوامی اخلاقیات کے مطابق
نہیں کہ کسی ملک کا پانی روکا جائے اور وہ بھی جب معاہدہ موجود ہو۔ لیکن
بھارت پورے دھڑلے سے ایسا کر رہا ہے اور سندھ، جہلم اور چناب پر نہ صرف ڈیم
بنا رہا ہے بلکہ پانی کا رخ موڑ کر اسے اپنے ملک کی زراعت میں استعمال کر
رہا ہے جبکہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے وہ ایسا کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
موجودہ موسمی اور ماحولیاتی تناظر میں پانی کی اہمیت کو ضرور مدِّنظر رکھنا
چاہیئے اور یہ ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ اگر تاریخ میں پانی کے مسئلے پر
جنگیں ہو سکتی ہیں تو آج کی دنیا میں بھی ایسا ممکن ہے اور پاکستان اور
بھارت تو ویسے ہی مدِمقابل ممالک ہیں اور دو ایٹمی قوتیں ہیں اور یہ بھی
ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ اگر ایک دفعہ محاذ آرائی شروع ہو جائے اور بات
میدانِ جنگ تک پہنچ جائے تو پھر معاملے کو قابو میں لانا مشکل ہو جاتا ہے
اس لئے عالمی برادری کو اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیئے اور
بھارت پر دباؤ ڈالنا چاہیئے کہ کیسے وہ ایک آباد اور زرخیز ملک کو صحرا میں
بدلنے کی کوشش میں مبتلا ہے اور معاہدے کے باوجود ا گر وہ پانی روک رہا ہے
تو یقیناً وہ چوری کا مرتکب ہو رہا ہے اور یقیناً اس پانی چوری پر اسے سزا
ملنی چاہیئے۔
پاکستان پچھلے کئی سالوں سے اس مسئلے پر احتجاج کر رہا ہے لیکن عالمی
برادری معاملے کی سنگینی کا احساس نہیں کر رہی جبکہ پاکستان میں پانی کی
کمی خطرناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے ہمارے ہرے بھرے کھیت بنجر ہوتے جارہے ہیں
وہ علاقے جہاں کبھی سرسبز کھیت تھے وہاں پانی کی کمیابی سے کھیت ویرانے میں
تبدیل ہو رہے ہیں اور اس ساری صورتحال میں بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور
ظاہر ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ، عالمی برادری اور عالمی تنظیموں نے بھارت کو
اس جرم سے نہ روکا اور حالات مزید خراب ہونے پر پاکستان کو کوئی سخت قدم
اٹھانا پڑا تو بھی ذمہ داری بھارت اور بین الاقوامی برادری پر ہوگی کیونکہ
پاکستان کو اپنا حق حاصل کرنے کا حق بہرحال حاصل ہے۔ |