جنت کو رستہ

کسی دور کی بات ہے کہ ہر طرف خوشحالی تھی۔ لوگ سارا سارا دن بھی میخانے بیٹھے رہے تو کوئی نہیں پوچھتا تھا طوائفوں کے کوٹھوں میں ہر وقت رونق لگی رہتی تھی۔ مسجدوں پر تالے لگ گئے تھے اور والدین بچوں کو کلمہ سکھانا بھول چکے تھے۔ وقت گزرتا ہے جا رہا تھا اور یہ خوشحالی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اب کچھ ایسا ہوا کہ اسی خوش حالی میں ایک صدی گزرچکی۔ وہ والدین جو اپنے بچوں کو کلمہ تک نہ سکا سکے وہ مر گئے اگلی نسل بھی بڑھاپے کو آن پہنچی اور ان کے بچوں کے بھی بچے ہوچکے۔دور ایسا ہوچکا تھا کہ ہر بری چیز ایک رسم بن چکے تھی ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں شراب شروع کرنا نکاح کرنے جیسی رسم بن چکی تھی۔ بچیوں کو ناچنا گانا سکھانا بھی ایک بنیادی عمل ہوچکا تھا۔ ایک خاص عمر میں انہیں طوائفوں کے طور طریقے اور عمل کے بارے میں بھی آگاہی دی جاتی تھی جبکہ اس کام کی تعلیم الگ سے دینے کے لئے ایجوکیشن سنٹرز بن چکے تھے۔ لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ انسان کیوں ہیں اور پیدا کیوں ہوئے ہیں ۔انہیں نہیں پتہ تھا کہ ان کا دل ہے، دماغ ہے وہ بھی کچھ سوچ سکتے ہیں ،وہ بھی اپنی مرضی کر سکتے ہیں۔ بس جیسے دنیا چل رہی تھی وہ ویسے اسے چلائ جا رہے تھے۔ جو رواج بن چکے تھے وہ ان رواجوں پر چلتے جارہے تھے۔ پھر ایک رات جب سب سو چکے تو ایک آواز گونجنا شروع ہوئی۔ پہلے تو ہلکی تھی اس لئے جس کو سنی بھی اس نے ان سنی کر دی لیکن پھر وہ آواز بڑھنے لگی اور بڑھتے بڑھتے جب وہ حد سے زیادہ ہوگئ تو لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلنے لگے۔ وہ آواز بڑھتی گئی بڑھتی گئی لیکن کسی کو کسی طریقے سے نہ پتہ چل سکا کہ وہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ اب بچے رونے لگے اور مائیں ان کو چپ کروانے کے بجائے اپنے کانوں کو بند کرنے لگی۔ وہ آواز ہر سیکنڈ میں بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ بچوں کے کان پھٹ گئے اور بڑوں کے کانوں سے خون رسنے لگا ۔اب یہ کم نہ تھا کہ آسمان میں بجلی کڑکنے لگی۔ ان لوگوں پر کچھ ایسی حالت ہوئی کہ اگر وہ گھروں کے اندر جاتے تو وہ آواز ان کا دماغ پھاڑنےلگتی ہے اور باہر آتے توبجلی سے ڈرتے ہیں۔ آخر ایک زوردار بجلی آئی اور وہ اس جگہ کے سامنے بنے صدیوں سے پرانے قبرستان پر آ گری جن میں ان لوگوں کی دادا پر دادا کی قبریں بھی شامل تھی ۔اس بجلی سے وہ تمام قبریں جل اٹھی اور ریزہ ریزہ ہو گئی۔ اب وہ آواز بھی تھمنے لگی اور وہ بجلی بھی زمین پر آخری بجلی ثابت ہوئی ۔جیسے ہی ماحول میں کچھ سکون ہوا لوگ قبرستان کی طرف دوڑنے لگے ۔ جب قبر یں جل رہی تھی جن پر اردگرد کے درخت گرے پڑے تھےتب وہ درخت بھی آگ کی وجہ سے جل رہے تھے۔ ایک دانشمند نے مشورہ دیا کہ یہ کسی بڑی طاقت نے کیا ہے ۔وہ طاقت ہم سے کچھ چاہتی ہے ہمیں کچھ سکھانا اور بتانا چاہتی ہے۔ اسکے بعد اس نے سب لوگوں کو اکٹھا کیا اور سب کو اپنی ناقص عقل میں آئی بات سمجھانے لگا ،"دیکھو لوگو یہ کسی عظیم طاقت کا کام ہے وہ طاقت ہمیں کچھ دکھا رہی ہے۔ اس آگ کو دیکھو تمہارے دل میں اس کو دیکھ کر کوئی سوال نہیں اٹھتا ہے ۔جب لوگ مر جاتے ہیں تو ہم بس مٹی کھود کر دفن کر دیتے ہیں اور ان کا جسم اس مٹی میں پڑا رہتا ہے جسے کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہوں گے ،میرے خیال میں۔ اب اس آگ کی طرف دیکھو یہ آگ تمام جسم کو جلا رہی ہے جس سے راکھ بن رہی ہے اور جس سے اپنے پیاروں کے جسم کیڑے مکوڑوں سے بچ رہے ہیں۔ اب سے ہم بھی ایسے ہی کیا کریں گے اسی طرح لکڑی کو کاٹ کر مردے کے جسم پر رکھ کر آگ لگا دیا کریں گے ایسے اس کی راکھ بن جائے گی اور اسے ہم محفوظ کرلیں گے ۔ایسے ہم اس کی راکھ کو دیکھ کر اسے یاد بھی کرلیا کریں گے ۔ارے ان قبروں ،مٹی کے گھڑوں میں کیا رکھا ہے۔ ایسے تو ہم مرنے والوں کو دیکھ بھی نہیں سکتے ۔کم از کم راکھ ہمیں ان کا دیدار تو کروا دے گی نا"۔ وہ مولوی نما بولتا گیا اور لوگ سن کر سر ہلاتے رہے ۔ دراصل یہ قبریں ان لوگوں کے بزرگوں کی تھی جو مسلمان تھے اور انہیں اسلام کے مطابق قبروں میں دفن کیا گیا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ جس جال میں پھنس چکے تھے اس میں یہ بھول چکے تھے کہ یہ مسلمان ہے یہاں تک کہ مذہب بھی کوئی چیز ہے ۔وہ یہ جانتے تھے بس کہ ہم انسان ہیں، ہم زندہ ایک خاص مدت تک ہیں، ہم سانس لے رہے ہیں اور ایک دن ہم نے مر جانا ہے۔ اس نیند کے بعد کیا ہوتا ہے وہ نہیں جانتے تھے کیونکہ یہ سب کچھ اسلام بتاتا ہے جس سے یہ لوگ بالکل نہ واقف تھے ۔یہ ان پر اللہ کے عذاب کی شروعات تھی جو اللہ نے ان پر جہا لت طاری کرکے کیا تھا ۔اب یہ لوگ جہالت میں گھر چکے تھے اور یہی سب سے بڑا عذاب ہے۔ اب اللہ کے اس عمل کی حکمت دیکھی تو وہ یہ تھی کہ وہ آواز اس وجہ سے تھی کہ یہ لوگ خواب خرگوش سے جاگ جائیں اور وہ بجلی اس قبرستان پر اس لئے گری تھی تاکہ ایسوں کے جسموں کو بھی راکھ کر دیا جائے جنہوں نے اپنی اولاد کی پرورش ویسی نہیں کی جو اللہ چاہتا ہے۔ لیکن جب جہالت طاری ہوجائے تو کچھ نظر نہیں آتا، کچھ سمجھ نہیں آتا اور نہ ہی کوئی سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عنقریب اے لوگو یہ دنیا تباہ ہونے والی ہے ۔یہ میں نہیں کہہ رہی یہ کوئی نہیں کہ رہا یہ اللہ نے کرنا ہے ۔یہ تو ہونا ہے۔ دراصل ہم یک لمبی قطار میں کھڑے ہیں اور یہ قطار مرنے کی باری دینے کے لیے بنائی گئی ہے۔ ہم اس قطار کے بالکل درمیان میں کھڑے ہیں۔ کوئی ہم سے آگے کھڑا ہے اور کوئی ہم سے پیچھے۔ آہستہ آہستہ ہر سانس کے ساتھ ساتھ ہم آگے جاتے جا رہے ہیں۔ ہم اس قطار کے درمیان سے کچھ آگے ہوچکے ہیں اور اگلے کچھ عرصے میں ہم پہلے نمبر میں ہوں گے اور ہمارے بالکل سامنے وہ غار ہوگا جس میں چھلانگ لگا کر ہم نے مرنا ہوگا اس غار میں کچھ بھی ہو جائے ہم نے گرنا تو ہوگا لیکن پہلے وہ ہم سے کچھ چیزیں چھین لے گا۔ وہ ہم سے ہماری سب سے بڑی اور مہنگی چیز "خوبصورتی "چھین لے گا۔ ہمارے کان ٹیڑھی ہیں، ہمارا ناک موٹا ہے، ہماری آنکھیں چھوٹی ہیں ،ہم کالے ہیں، ہم گورے ہیں، ہم خوبصورت ہیں، ہم بدصورت ہیں وہ سب کچھ چھین لے گا ۔پھر وہ ہماری ڈگریاں ہمارے سر پر رکھے دنیا کے تاج بھی لے لے گا۔ ہم ڈاکٹر ہیں وہ ہمارا علم چھین لے گا۔ لیکن وہ سب کچھ چھینے گا ہی نہیں کچھ دے گا بھی ۔وہ ہمارے کپڑے برانڈڈ چھین لے گا اور ہمیں سفید چادر دے دے گا۔ ہاں اس دن ہر اس لڑکی کا شوق پورا ہو جائے گا جس نے ساری عمر سر نہیں ڈھانپنا ہوگا۔ اس دن سر بھی ڈھانپا ہوا ہوگا۔ یہ جو علیحدہ ،اکیلے ،خودمختار ہونے کا شوق ہے یہ بھی پورا ہوجائے گا کیونکہ اس گھڑے میں ہم اکیلے ہوں گے لیکن خود مختار نہیں ۔وہ جو عظیم طاقت ہے نا جس نے بجلی برسانی تھی وہ ہم سے کام لے گی۔ ایک یہ زندگی ہے ایک وہ زندگی ہے۔ اس زندگی میں ہم صحیح غلط کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ہمارے پاس مرضی ہے ہم صحیح کریں یا غلط۔ وہ ذات اب بھی خودمختار ہے جو ہمیشہ سے ہی ہے اور رہے گی لیکن اس نے ہمیں کچھ ڈیھل دے رکھی ہے۔ لیکن اس گڑھے میں گرنے کے بعد صحیح عقل آئے گی۔ تب سمجھ آئے گا کہ درست کیا ہے اور غلط کیا تھا جو ساری عمر کیا۔ لیکن ہم سوائے قیامت کا انتظار کئے اور کچھ نہیں کر سکیں گے۔ جب ہمارا فیصلہ ہوگا، انشاءاللہ ،جنت کا۔ اور ہم وہاں مزے سے آم کھائیں گے، انار کھائیں گے، پارٹی کریں گے۔ اپنے محبوب اللہ کے دیدار پہ دیدار کریں گے۔ حوریں ہوں گی وہاں سب کچھ ہوگا۔ میں اللہ تعالی سے کہوں گی سب سے مزیدار میری امی کے ہاتھ کی بریانی بنوا دیں پھر میں پورا پتیلا کھاؤں گی جو کہ ابھی میں نہیں کھا سکتی کیونکہ بوٹیاں نہیں ہوتی ہے۔ چند ہی تو سال ہیں اب تو وقت کا پتہ بھی نہیں چلتا اب تو وقت بھی جلدی گزر رہا ہے۔ اس جلدی سے گزر جانے والے تھوڑے سے وقت میں اگر ہم اللہ کو راضی کر لیں گے تو آگے مزے آ جائیں گے ۔کرنا بس یہ ہے کہ بس اللہ کی مرضی پر چلنا ہے جو ہو گیا سو ہو گیا ہوں اللہ غفور رحیم ہے وہ معاف کرے گا ۔توبہ کر لو ۔اب سے شروع کرو نئی زندگی ۔پرانا سب کچھ بھول جاؤ غم نہ کرو وہ ہمارا ساتھی ہے ۔وہ ہمیں بلا رہا ہے اور وہ ایسا ساتھی ہے جو ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا تب بھی نہیں جب ہم خود اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ہر عمل جنت کو پانے کا سوچ کے کرو ۔دنیا کی دوستیاں بھول جاؤ ادھر حوریں ہیں وہ انتظار کر رہی ہیں۔ یہ کوئی حوریں ہیں یہ تو بس وہ ہیں جو ادھر سے کہیں سے مل گئی ہیں ۔کہاں دنیا کہاں جنت اگر تمہیں چوز کرنے کا کہا جائے کہ دنیا کی لڑکی لو گے یا جنت کی باوفا حور تویقینا تم جنت کی حور لو گے اور وہ تب ہی ملیں گی جب تم جنت میں جاؤ گے۔ یہ اللہ حوروں کا لالچ کیوں دے رہا ہے۔۔۔۔۔تم خوب جانتے ہو تم میں عقل شعور موجود ہے۔ جلدی کرو وہ لائن بڑھتی جا رہی ہے اور چھوٹی ہو رہی ہے۔ تمہاری باری آنے والی ہے۔ وہ تم سے سب برانڈڈ کپڑے لے لے گی بس تمہارا عمل چھوڑ دے گی ۔جب تمہیں بھرے بازار میں کوئی چیز پسند آتی ہے تو تم اسے ہاتھ مار کر چیک کرتے ہو نا کہ یہ کہیں کمزور تو نہیں، ٹوٹ تو نہیں جائے گی، استعمال کرنے پر۔ اسی طرح بھری دنیا میں جب اللہ کو تم پسند آو گے اور وہ تمہیں خریدنے کی کوشش کرے گا تو پہلے تمہیں کچھ امتحانات میں ڈالے گا اور اگر تم نہ ٹوٹے تب تمہیں خریدے گا ۔اس لئے امتحانات سے نہ ڈرو یہ تو سب نشانیاں ہیں کہ اللہ ہمیں پکڑ کر چیک کر رہا ہے اسے بھرے مجمع میں ہم پسند آئے ہیں۔ بس یہی کچھ امتحانات ہیں جنہیں ہم نے پاس کر لیا تو ہم اس کے وہ ہمارا ۔

لائبہ منیر
About the Author: لائبہ منیر Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.