اسلامُ علیکم!
میرے عزیز پاکستانیوں!
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ہماری قوم آج خود کو پہچاننے میں بری طرح
ناکام ہے۔ ہم کمزور کیوں ہیں، وہ اس لیے کہ ہم نے سیکھا ہی نہیں کہ کیا
صحیح اور کیا غلط ہے۔یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ سو بچہ انگریزی سیکھتا جاتا
ہے وہ اپنے اِرد گِرد موجود ایک ایسے ماحول، جو اس کی فطرت میں نیا ہوتا ہے،
کی وجہ سے انگریزی زبان کی جانب ایک غیر ضروری حد تک مائل ہو جاتا ہے کہ جس
کی وجہ سے اُس کی اُردُو زبان کو ایک دھچکا لگتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک
عادت عام ہے جو بڑوں سے چھوٹوں میں بھی تیزی سے منتقل ہو رہی ہے اور نسل در
نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ وہ عادت یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے
کے لیے اور فقط دوسروں پر اپنی قابلیت کی دھاک بٹھانے کے لیے اُردُو میں
بات کرتے ہوئے بھی چند الفاظ انگریزی کے شامل کر جاتے ہیں جس سے ہم اپنے ہی
ہاتھوں اپنی اُردُو کو گِرا رہے ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی زُبان ہی کو نہ
آج تک سمجھا اور غیروں کی زُبان کو اپنا سمجھ کر فخر محسوس کیا تو پھر ہم
آج کس بنیاد پر خود کو آزاد مانتے ہیں۔ زبان کوئی بھی ہو، اگر اُس کے ساتھ
یہ سلُوک کیا جائے تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس زُبان کی اہمیت گرنے لگے
گی جو کہ ہم بغیر سوچے سمجھے اپنی اُردُو زُبان کے ساتھ برسوں سے کرتے چلے
آ رہے ہیں اور اس پر کوئی قدم نہیں اُٹھاتے۔ اس روِش کے جو چند منفی اثرات
میں نے غور کیے ہیں جو ہمارے ذہنوں پر اور ہماری اُردُو پر پڑ رہے ہیں وہ
مندرجہ ذیل ہیں۔
الِف) لوگ اپنی اُردُو کی حقیقت کھو رہے ہیں اور اُردُو ظالمانہ تبدیلیوں
سے گزر رہی ہے۔ وہ اس طرح کہ آج کی اس بدلتی دنیا میں بہت تیزی سے تبدیلیاں
آ رہیں ہیں جس کے ساتھ ساتھ زبانوں میں بھی تغیر ضروری ہے۔ مثال کے طور پر
اگر ہمارے ملک کا کوئی بندہ کوئی چیز ایجاد کرتا ہے تو غالب گمان ہے کہ وہ
اس کا نام انگریزی زبان میں رکھے گا اور اس کی معلومات بھی انگریزی زبان
میں فراہم کرے گا صرف یہ سوچ کر کہ آج سب انگریزی میں پڑھا اور پڑھایا جاتا
ہے جس سے انگریزی کی خدمت تو ہو جائے گی مگر اپنی اُردُو زبان پر مذید ایک
ظُلم کا اِضافہ ہو جائے گا اور اُردُو اُس ہنرمندی سے آشنا ہی نہیں ہو پائے
گی جو ہم انگریزی کو بخش چکے ہونگے۔ یوں اُردُو میں بات کرتے ہوئے بھی
انھیں ایجاد کردہ انگریزی الفاظ کو اپنانے پر اُردُو کی حیثیت میں کمی آئے
گی۔
ب) ہم ایک طرح کے احساسِ کمتری کا اور ایک طرح کے احساسِ برتری کا شکار ہو
رہے ہیں۔ احساسِ کمتری کا شکار یوں ہو رہے ہیں کہ جس کو انگریزی باقیوں کی
نسبت اتنی اچھی نہیں آتی اس پر باتیں بنائی جاتیں ہیں اور وہ اپنا خود پر
اعتماد کھو بیٹھتا ہے۔ یہ وہ خود اعتمادی ہوتی ہے جس کی بدولت کوئی اپنی
زُبان کی لاج رکھنا سیکھتا ہے۔ دوسری جانب احساسِ برتری کا شکار ہم یوں ہو
رہے ہیں کہ اگر ہماری بات میں انگریزی کی شمولیت وزن پیدا کر جائے تو اس پر
ہم خود کو دوسروں پر برتر مانتے ہیں۔
ج) تیسرا منفی اثر یہ ہے کہ اُردُو کی حقیقت کو زندہ رکھنے پر بڑوں نے ہی
کام کرنا چھوڑ دیا ہے تو چھوٹے اپنا کیا کردار ادا کریں۔ در اصل ہمارے ملک
میں جو ایک کمزوری عام ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام انگریزی میں ہے جس
کی وجہ سے ہمارے ذہنوں کی اچھی اور مستند تربیت نہیں ہو رہی۔ ہم بظاہر تو
انگریزی کو اپنے تعلیمی سفر کی ابتدا ہی میں اپنا ہمسفر بنا لیتے ہیں مگر
ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا اور رفتا رفتا ہماری سمت تبدیل ہونے لگتی ہے۔
ہمارے ملک میں اِسلامیات اور اُردُو کے علاوہ تمام مضامین انگریزی میں
پڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی صرف بارھویں جماعت تک، پھر اُس کے بعد کوئی
اُردُو پڑھے تو پڑھے ورنہ اُردُو نظر تک نہیں آتی۔ اِس سے ہمارے ذہنوں میں
ایک غلط فہمی یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ شاید اُردُو کا تعلق صرف اُن لوگوں کی
پہچان ہے کہ جن کا اُردُو سے باقاعدہ تعلق نظر آتا ہے۔ ایسے لوگوں میں
شعراء، مصنفین اور کالم نگاروں کا شمار ہوتا ہے یا ان کا جو زیادہ پڑھے
لکھے نہ ہوں۔ جب ہم اُردُو کا تعلق کم پڑھے لکھے لوگوں سے جوڑ دیتے ہیں تو
اِس سے اُن لوگوں کے احساسِ محرومی کا شکار ہونے کا خدشہ ہے اور تعلیمی
میدان میں بھی ہمارا اُردُو سے متعلق ایک جھوٹا نظریہ جنم لیتا ہے کہ شاید
اُردُو زبان کا آج کی اس بدلتی دنیا میں کردار ناممکن ہے۔
یہ اُردُو پر پڑنے والے وہ چند منفی اثرات ہیں جو میں نے غور کیے ہیں۔
یہ سب باتیں کرنے کا ہرگز مقصد یہ نہیں ہے کہ کسی کی دِل آزاری ہو یا ہم
انگریزی کو اپنی زندگی سے مِٹا دیں بلکہ انگریزی تو ہمیں سیکھنی پڑے گی
کیونکہ اِس وقت دنیا میں انگریز ہی حکمران طبقہ ہے اور اُس کے ذہن کو
سمجھنے کے لیے ہمیں انگریزی آنا ضروری ہے۔
اگر اِن باتوں پر ہماری قوم عمل کرنے لگے گی تو اِس سے ہم کوئی پیچھے نہیں
رہ جائیں گے بلکہ دنیا میں خود اعتماد ہو کر جِینا سیکھ جائیں گے۔ اِس کی
ایک بہترین مثال چِینی قوم ہے جو انگریزی جان کر بھی دنیا میں جہاں کہیں
بھی جاتی ہے اُس کو کسی بھی طرح سے غیروں کی زُبان کا محتاج نہیں ہونا پڑتا
بلکہ وہ دلیر ہو کر اپنی زُبان کی لاج رکھتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر آج ہم اپنی زُبان اُردُو کی خدمت کے لیے پہلا قدم بھی
اُٹھائیں تو یہ رائگاں نہیں جائے گا بلکہ ہمارا یہ یقین نسل در نسل منتقل
ہوگا۔
ہم یک دم تو نہیں سارا نظام بدل سکتے مگر کم از کم آج ہی قدم اُٹھانا ہمارا
قومی فریضہ ہے۔ جہاں تک بات ہے انگریزی سیکھنے کی، ہم اگر تعلیمی اداروں
میں ایک ایسا دَورانیہ متعارف کرائیں کہ جس میں انگریزی کا عَملی دنیا میں
استعمال واضح ہو جائے تو میرا خیال ہے کہ ہم باقی دنیا سے بھی جُڑے رہ سکتے
ہیں۔
مجھے اُمید ہے کہ آپ لوگ میرے پیغام پر غور کریں گے اور اِس متعلق لوگوں کو
بھی آگاہ کریں گے۔ |